چھ ہاتھوں والا بڑا بت مکھی بھی نہیں پکڑ سکتا!

35

کونسٹین ٹائن برونزٹ (Konstantin Bronzit) چھوٹی اینی میشن فلموں کے ممتاز روسی ڈائریکٹر ہیں۔ اُن کی مشہور فلموں میں or The Round-About Merry-Go-Round، At the Ends of the Earth، Alosha اور Lavatory Lovestory شامل ہیں۔ اپنی پاپولر تخلیقات کے سلسلے میں وہ تقریباً 70 ایوارڈز بھی حاصل کرچکے ہیں۔ اُن کی فلم Lavatory Lovestory کو اعلیٰ ترین Best Scenario Award ملا اور اسی فلم کو جیوری نے 2009ء کی مختصر اینی میٹڈ فلموں کی کیٹگری میں ”اکیڈمی ایوارڈ“ کے لیے نامزد بھی کیا۔ ان کی ایک اور 4منٹ 17سیکنڈ کی اینی میٹڈ فلم ”The god“ ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں دیوتا شیوا سے ملتا جلتا ایک مکینیکل بت دکھایا گیا ہے جس کے چھ ہاتھ ہیں۔ وہ اپنی قوت اور توازن کے اظہار کے لیے ایک ٹانگ پر کھڑا ہے۔ دوسری ٹانگ اُس نے L کی صورت میں موڑ کر کھڑی ٹانگ کی ران پر ٹکائی ہوئی ہے۔ اس کے تین ہاتھ دائیں اور تین ہاتھ بائیں مضبوط مشینوں سے جڑے ہوئے ہیں جو طاقت کی علامت ہیں۔ وہ بہت اونچی چٹان پر تانبے کے ایک بڑے سے گول دائرے میں کھڑا ہے جہاں سے پوری دنیا اس کے قدموں میں نظر آتی ہے۔ اُسے بڑی محنت اور دلجمعی سے بنایا گیا ہے۔ اُس کے جاہ و جلال اور رعب سے پورا ماحول متاثر ہے۔ اس کی حکومت کی خاموشی سے فرمانبرداری کے اصول کو توڑتے ہوئے اچانک ایک مکھی کی بھن بھن سنائی دیتی ہے۔ مکھی اڑتی ہوئی اس کے دائیں گال پر آکر بیٹھتی ہے، ناک تک پہنچتی ہے، دوبارہ گال پر آتی ہے، پھر اڑ کر اس کے دائیں ہاتھوں میں سے ایک پر جاتی ہے۔ یہ بت اب تک مکھی کی حرکات سے بے خبر ہوتا ہے یا اُسے غیراہم جان کر نظرانداز کرتا ہے۔ مکھی ہاتھ سے اڑ کر جب اس کی کہنی پر بیٹھتی ہے تو وہ ہلکی سی جھرجھری لیتا ہے جس سے متعلقہ بازو سے کچھ گرد اڑتی دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح وہ پہلی مرتبہ مکھی کا نوٹس لیتا محسوس ہوتا ہے۔ مکھی بازو سے اڑ کر دوسرے ہاتھ کی شہادت کی انگلی پر جا بیٹھتی ہے۔ وہ اپنی مشینی انگلی کو آہستہ آہستہ ہلاتا ہے۔ مکھی شہادت کی انگلی کو چھوڑ کر ران پر ٹکے اس کے پاؤں کے تلوے پر جا بیٹھتی ہے۔ اب وہ
اپنے چہرے کو دائیں اور پھر بائیں موڑتا ہے جس سے تاثر ملتا ہے کہ وہ مکھی اڑانے جیسے معمولی کام کے لیے اردگرد سے کسی کو بلانا چاہتا ہو لیکن مایوس ہوکر واپس اپنی پہلی والی پوزیشن پر آجاتا ہے۔ مکھی چھوٹی سے فلائٹ لیتی ہے اور دوبارہ اسی تلوے پر آجمتی ہے۔ اب کے مکھی کو ایک اور مشغلہ مل جاتا ہے۔ وہ تلوے پر چہل قدمی شروع کردیتی ہے۔ تلوے کی جلد پر مکھی کے چلنے سے بت کے جسم میں جھرجھریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی چھ ہاتھوں والے بت کے سر پر روشنی کی چمک دکھائی دیتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بت مکھی کے معاملے کو اب سنجیدگی سے لینے لگا ہے۔ جس پاؤں کے تلوے پر مکھی بیٹھی ہوتی ہے وہ اس پاؤں کی انگلیوں کو دو تین مرتبہ اوپر نیچے کرتا ہے۔ مکھی نہیں اڑتی۔ تب وہ پاؤں کو زور زور سے جھٹکے دیتا ہے جس سے مکھی اڑ کر اس کے ایک ایسے ہاتھ کی ہتھیلی پر جا بیٹھتی ہے جو تمام ہاتھوں میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ہاتھ کی ہتھیلی پر ایک آنکھ ہوتی ہے۔ مکھی اس آنکھ کی کالی پُتلی پر جا چمٹتی ہے۔ بت پریشانی اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں اپنے باقی پانچوں ہاتھ اُس ہاتھ کی ہتھیلی پر اکٹھے دے مارتا ہے۔ بت مکھی کو پکڑنے یا مارنے کی اپنی اس کوشش کا نتیجہ جاننے کے لیے ہاتھوں کو باری باری اٹھاتا ہے۔ جب وہ مرکزی ہاتھ کے اوپر سے آخری ہاتھ اٹھاتا ہے تو مکھی ایک دم سے اڑ جاتی ہے۔ بت مکھی کی اس چالاکی پر احمقوں کی طرح چاروں طرف اپنا سر گھماتا ہے او ر گھبراہٹ میں اپنے سب ہاتھ اِدھر اُدھر چلانا شروع کردیتا ہے۔ اس عمل سے اُس کے چھ کے چھ ہاتھ آپس میں الجھ جاتے ہیں اور انہیں گرہ لگ جاتی ہے۔ مکھی اب اس کے ہونٹوں پر جا پہنچتی ہے۔ بت کے ہاتھ الجھے ہونے کے باعث ناکارہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے چہرے کو نیچے جھکاتا ہے تاکہ ہاتھوں کے قریب کرسکے لیکن بے سود۔ مکھی نہیں اڑتی بلکہ اوپر کی طرف اپنا سفر شروع کردیتی ہے اور سیدھی اس کی ناک میں جا گھستی ہے۔ اس سے بت کو زور کی چھینک آتی ہے جس سے وہ سارے کا سارا ہل جاتا ہے اور اس کے الجھے ہوئے ہاتھ خودبخود کھل جاتے ہیں۔ بت اب وحشی ہو جاتا ہے۔ مکھی دائیں طرف تانبے کے فریم پر جابیٹھتی ہے۔ وہ پوری قوت سے اپنے سارے ہاتھوں کے پنجے اس پر مارتا ہے۔ مکھی صاف بچ نکلتی ہے اور فریم کے بائیں طرف جا بیٹھتی ہے۔ بت غصے سے آگ بگولا ہوکر اٹھی ہوئی ٹانگ سے اس پر زور سے کک مارتا ہے۔ مکھی کو تو کچھ نہیں ہوتا البتہ تانبے کا فریم ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔ مکھی اڑ کر اس کی ناک کے سوراخ میں چلی جاتی ہے اور دوسرے سوراخ سے نکلتی ہے۔ مکھی کو یہ کھیل پسند آتا ہے۔ وہ ایک سوراخ میں داخل ہوتی ہے اور اندر ہی اندر ہوتی ہوئی دوسرے سوراخ سے نکل کر پھر پہلے سوراخ میں گھس جاتی ہے۔ بت مکھی کی ان حرکات سے پاگل ہو گیا ہوتا ہے۔ وہ دونوں سوراخوں کو اپنی انگلیوں سے بند کردیتا ہے۔ کچھ دیر بعد جب وہ ایک انگلی ہٹاتا ہے تو مکھی اڑ کر دوبارہ فریم پر جا بیٹھتی ہے۔ بت اس پر مکا اور اپنا سر مارتا ہے جس سے اسے اچھی خاصی چوٹیں لگتی ہیں۔ مکھی پھر بچ نکلتی ہے اور اس کے اردگرد اڑنا شروع کردیتی ہے۔ بت اپنے جسم کا ایک ٹکڑا توڑتا ہے اور مکھی کو دے مارتا ہے مگر نشانہ خطا ہوتا ہے۔ بت اپنے سارے ہاتھ ہوا میں گھما گھما کر اڑتی ہوئی مکھی کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ اچانک مکھی اس کے ایک ہاتھ میں آجاتی ہے۔ وہ مٹھی بند کرلیتا ہے۔ بت اس انٹرنیشنل کامیابی پر جھوم اٹھتا ہے اور مست ہوکر ناچنے لگتا ہے۔ ناچتے ناچتے وہ قیدی مکھی کو فاتحانہ انداز سے دیکھنے کے لیے مٹھی کھولتا ہے اور عین اسی وقت مکھی اس کے ہاتھ سے فرار ہو جاتی ہے۔ بت کے لیے یہ ایک ناقابلِ یقین شکست ہوسکتی ہے۔ اس لیے وہ مکھی کو پکڑنے کے لیے آگے لپکتا ہے۔ ایک پاؤں پر کھڑا، چھ ہاتھوں والا، متوازن، طاقتور بت اپنا توازن کھو دیتا ہے اور نیچے گمنام گہرائیوں میں جاگرتا ہے۔ بت کے گرجانے سے فریم کے اندر خلاء پیدا ہوتا ہے جہاں ایک مکڑی نمودار ہوتی ہے، اپنا جالا بُنتی ہے اور وہی شرارتی خودسر مکھی جونہی اس جالے پر بیٹھتی ہے، مکڑی اسے اپنے منہ میں دبوچ لیتی ہے۔ مکھی کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ یوں فلم ختم ہوتی ہے۔ حکمران جتنے بھی مضبوط ہوں، اُن کے چاروں طرف جتنی بھی انٹرنیشنل سپورٹ موجود ہو، ان کے طاقتور ہاتھ جتنے بھی زیادہ ہوں، وہ اگر دوسروں کے بنائے ہوئے ہیں، اپنی دھرتی اور عوام سے دور ہیں تو ایک مکھی کو بھی کیفرِکردار تک نہیں پہنچا سکتے کیونکہ چھوٹی سے چھوٹی شے کو بھی پکڑنے کے لیے جاندار ہونا ضروری ہے۔ بت تو بت ہوتا ہے، خواہ کتنا لمبا چوڑا اور مضبوط ہی کیوں نہ ہو، اس میں جان نہیں ہوتی جبکہ چھوٹی سی مکڑی اپنے شکار کو آسانی سے پکڑ لیتی ہے کیونکہ مکڑی جاندار ہے۔

تبصرے بند ہیں.