اب دلائل کی ضرورت نہیں

89

وکالت کی شروعات جناب خواجہ جاوید کے چیمبر میں ہوئی حافظ آباد بھی ضلع گوجرانوالہ میں شامل تھا ضیا الحق کا خونیں دور جاری تھا کلاشنکوف عام اور کرپشن بطور پالیسی رائج ہونے کی وجہ سے جرائم اور لوگوں کی ذاتی دشمنیاں حدیں پار کر چکی تھیں۔ پنجاب اسمبلی کی گولڈن جوبلی تھی جس میں ضیا الحق بطور صدر پاکستان مہمان خصوصی تھے، وزیر اعلیٰ میاں نوازشریف اور سپیکر اسمبلی منظور وٹو تھا۔ ضیا الحق نے اپنی تقریر میں کہا کہ ملک کی جیلوں میں 20 ہزار لوگ ایسے ہیں جن پر کوئی مقدمہ نہیں۔ تقریر کا یہ حصہ اخبارات میں شہ سرخیاں بنا۔ میں نے خواجہ جاوید صاحب سے کہا سر، یہ بیان کہ ملک کی جیلوں میں 20 ہزار لوگ ایسے ہیں جن پر کوئی مقدمہ نہیں، یہ تو کسی حکمران کا نہیں بلکہ اپوزیشن لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو یا نواب زادہ نصر اللہ خان کا ہونا چاہئے تھا۔ جس کی ذمہ داری ہے وہی اس بات کا اقرار کر رہا ہے جو اس پر الزام ہے کہ لوگوں کو جیلوں میں بند کر رکھا ہے حالانکہ اس وقت مارشل لا اٹھایا جا چکا تھا اور گرفتاریوں، قیدیوں، جھوٹے سیاسی مقدمات کی وہ شدت اور تعداد نہ رہی تھی جو 5 جولائی 1977 سے 1986 تک تھی۔ بہرحال میری اس بات پر خواجہ صاحب نے ایک واقعہ یاد دلایا خواجہ صاحب گوجرانوالہ میں فوجداری مقدمات میں صف اول کے وکیل تھے۔ ایک قتل کے مقدمہ میں ملزمان کی طرف سے تین وکلا ایک خواجہ صاحب، دوسرے شیخوپورہ تیسرے لاہور کے ایک نامور وکیل تھے۔ جب مقدمہ کی باقاعدہ سماعت ہوتی ہے تو گواہان ایک ہی دن میں ایک ہی سماعت میں بیان اور جرح کے لیے پیش کیے جاتے مثلاً وقوعہ، ریکوری، آلہ جرم وغیرہ۔ گواہان میں سے ایک گواہ کو جرح اور ثبوتوں کے ساتھ ثابت کرنا تھا کہ وہ کنجر ہے اور ویسے بھی قابل بھروسہ نہیں ہے۔ اس کے بعد منظر کے حوالے سے اس کے پاؤں سے زمین سرکانی تھی۔ لاہور کے وکیل صاحب نے اس گواہ پر جرح کا ذمہ لیا۔ ایسی صورت حال میں گواہان کو بعض اوقات وکلا میں بانٹ لیا جاتا ہے، ملزمان بانٹ لیے جاتے ہیں۔ پھر گواہ کو آواز پڑی۔ آواز پڑنے پر گواہ حاضر ہوا، وکیل صفائی نے نام پوچھا، جج صاحب نے بھی نام پوچھا۔ اس نے اپنا نام بتایا، اعجازنوید۔ سوال ہوا ولدیت، اس نے بتایا بشیر اقبال۔ سوال ہوا قوم، میراث۔ اب سب لوگ چوکنے تھے کہ اس گواہ کے متعلق اس کی ہیرا منڈی (بازار حسن) میں دکان، لڑائی جھگڑے کی ایف آئی آرز، کنجروں سے رشتہ داریاں تمام ثبوت کی ایک بڑی فائل وکیل صاحب کے ہاتھ میں تھی۔ ثابت کرنا تھا کہ یہ کنجر ہے، جب نام ولدیت کے بعد قوم کا پوچھا گیا جو کہ ضمنیوں اور ایف آئی آر میں لکھی ہوئی تھی (میں لکھنا مناسب نہیں سمجھتا، کہ لوگ ناراض ہو جائیں گے)۔ بہرحال جب ذات پوچھی گئی تو اس نے واشگاف الفاظ میں بتایا کنجر۔ یہ کہنا تھا کہ جج صاحب کرسی سے آگے کی طرف جھکے۔ وکیل صفائی کو قانون بھول گیا، ریڈر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ عدالت میں موجود دوسرے وکلا اور سائلین، عدالتی و پولیس عملہ ششدر رہ گیا، ورطہ حیرت میں چلا گیا، بے ساختگی سے جج صاحب نے دوبارہ پوچھا، قوم۔ گواہ نے بڑے اطمینان اور ٹھہراؤ سے وضاحت کے ساتھ بتایا، کنجر۔ اس کے بعد وکیل صاحب نے خواجہ صاحب کی طرف پلٹ کر دیکھا کہ میں نے جو ثابت کرنا تھا وہ یہ خود اقرار کر رہا ہے لہٰذا اب میرے دلائل کی ضرورت نہیں البتہ مقدمہ کی نوعیت سے جرح آپ کریں۔ خواجہ صاحب نے کہا کہ ضیا الحق نے 20 ہزار بغیر مقدمہ کے قیدی بتا دیئے ہیں، اب محترمہ بے نظیر بھٹو اور نوابزادہ پر سوال ہے کہ وہ بتائیں مزید کیا بتانا ہے۔ مگر یہ اقرار آج بھی ہے اور اس سے پہلے بھی چلا آ رہا تھا لیکن آج سوشل میڈیا کے دور میں تو اس کی کوئی حد نہیں رہی۔ ساری قوم کہتی تھی کہ پاناما سے اقامہ نکلا ہے اب اس کی روداد آنا شروع ہو گئی۔ ساری قوم کو علم تھا کہ عمران نیازی پراجیکٹ کس نے لانچ کیا ہے اور کب سے کن کن مراحل سے گزر کر لانچ کیا گیا، اب تفصیلات آ رہی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عوام کے علم سے 100 سے ضربیں کھاتی ہوئی تفصیلات آ رہی ہیں۔ ساری دنیا جانتی تھی اور سارے مخالفین ثابت کرتے تھے کہ عمران نیازی پلے بوائے تھا، اب پلے بزرگ ہے۔ ایک دن نیازی صاحب نے خود فرما دیا کہ میں پلے بوائے رہا ہوں۔ اب اقرار کیا کہ شوکت خانم کے پیسے کاروبار میں لگائے تھے۔ تعیناتیاں، احتساب اور دیگر معاملات کی تفصیلات آ رہی ہیں آڈیوز ہیں کہ کوئی سن نہیں سکتا مگر تردید نہیں اور مزید آڈیوز ویڈیو آنے کی باتیں ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس بہاؤ میں بہنے سے کوئی ادارہ بچا، فرد گروہ نہ کوئی جماعت، سب کے سب پھڑے گئے یہاں تک کہ جناب پرویز صالح اور خاقان عباسی ٹروتھ کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کرنے لگے کہ ایک دفعہ اپنے اعمال کا قوم کے سامنے سچ بول کر، معافی مانگ کر، قومی سفر سچائی کے ساتھ نئے سرے سے شروع کیا جائے۔ ویسے تو حلف برداری کی تقریب پر مجھے یہی گمان ہوتا کہ آئین صرف توڑنے، مروڑنے، حلف اٹھانے، مراعات لینے کے لیے ہے۔ کالم ابھی یہاں تک پہنچا تھا کہ ٹی وی کی سکرین پر جناب سید محسن نقوی وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھا رہے تھے اور میں ہمیشہ کہتا ہوں، آئین صرف حلف اٹھانے اور مراعات لینے کے لیے رہ گیا ہے۔ عمران نیازی جو قانون اور آئین کی حکمرانی کی بات کرتا ہے، سب علم ہے کہ اس کا آئین اس کی مرضی ہے۔ سب کو علم ہے کہ یہ نفرت کی سیاست اور جھوٹ کا بیانیہ بیچتا ہے پھر ثنا بچہ نے جو کہا سچ ہی تو ہے، تمام سٹیک ہولڈرز، ادارے اسی کیفیت اور حیثیت میں کہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں نہ دلائی دینے کی، جن کا کام اور ذمہ داری ہے وہ پروا نہیں کرتے اور جن کو اگلا لمحہ کیسے گزارنا ہے کی فکر ہے وہ دن رات دلائل اور بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ آئندہ ماہ خبریں، بیانیے، حالات تبدیل ہو چکے ہوں گے اور یہ سلسلے دہائیوں سے جاری ہیں۔ ایم کیو ایم کو نازی پارٹی کہنے والی پی ٹی آئی کراچی کی میئرشپ کے لیے کبھی پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کو تباہی کی ذمہ دار سمجھنے والی پی ٹی آئی سے رابطے میں، کراچی کی میئرشپ کے لیے چوہا دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔ چند دن بعد یہ بھی سامنے آ جائے گا، لہٰذا دلائل کی ضرورت نہیں، ثابت شدہ ہیں۔

تبصرے بند ہیں.