ایک طرف ملک کی ساری قیادت سیاسی معاملات میں الجھی ہوئی ہے ایسا لگتا ہے کہ ملک کو شطرنج کی بساط بنایا ہوا ہے جس میں ایک لیڈر اپنی صوبائی حکومت گرا کر فتح کا اعلان کرتا ہے تو دوسرا لیڈر نو ماہ پرانے استعفے قبول کر کے اپنی فتح کا اعلان کر دیتا ہے۔ ن لیگ کی قیادت میں پی ڈی ایم جماعتی پچھلے سال اپریل میں سیاست نہیں ریاست بچاو¿ کا نعرہ لگا کر حکومت میں آئی تھی مگر اب بھی نو ماہ کا وقت گزرنے کے بعد ن لیگ کی سیاست دوراہے پر کھڑی ہے۔ لگتا ہے کہ ن لیگ اب ایسی مشکل میں پھنس گئی ہے کہ اپنی سیاست قربان کر کے ملک کو بچایا جائے یا اہم فیصلوں میں تاخیر کر کے اور ملکی سلامتی کو داؤ پر لگا کر سیاست بچایا جائے۔ اہم بات یہ ہے کہ پچھلے چار ماہ سے اہم معاشی فیصلوں میں تاخیر اور حکومت بچانے کی کوششوں کے بعد ایک بار پھر ملک کی سلامتی کے لیے ناگزیر فیصلہ کر لیا ہے، حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط مان کر آئی ایم ایف کو دوبارہ ٹریک پر لایا جائے تاکہ ملک کو ڈیفالٹ کے خطرات سے نکال کر محفوظ راہ پر گامزن کیا جائے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی مشکل شرائط ماننے کے بعد کیا جو مہنگائی کی صورت میں ایک اور مسئلہ سر اٹھائے گا اور جو نتائج سامنے آئیں گے، اس کے بعد ن لیگ الیکشن میں جانے کا فیصلہ کر سکے گی؟
یہ سوال اس لیے اہم ہے کیونکہ پچھلے کچھ عرصے سے جاری اس مسئلہ کی وجہ سے یہ تاثر عام ہو
رہا ہے کہ ن لیگ الیکشن سے بھاگ رہی ہے، ملک میں ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلا رہا ہے اور دیکھنے میں صاف لگ رہا ہے کہ حکومت اہم فیصلے کرنے میں بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ اگر دیکھیں تو حکومت مسلسل معاشی مسائل سے نکلنے کے لیے دوست ممالک کی طرف دیکھ رہی ہے اور دوست ممالک بین الاقوامی ادارے آئی ایم ایف کی طرف دیکھ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف تین دن میں پاکستان پہنچ رہا ہے مگر آئی ایم ایف کا وفد بنگلہ دیش تو چلا گیا ان کا معاہدہ بھی طے ہو گیا مگر پاکستان آنے کا کوئی نام و نشان ابھی تک موجود نہیں ہے۔ پاکستان کے پاس اس وقت صرف سوا چار ارب کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں وہ بھی دوست ممالک سے ادھار لیے ہوئے ہیں اور درآمدات اور ترسیلات زر دونوں گر رہے ہیں جبکہ بنگلہ دیش کے 34 ارب روپے کے زرمبادلہ کے اپنے ذخائر کی وجہ سے ترسیلات زر مستحکم ہے اور برآمدات ہر ماہ نیا ریکارڈ بنا رہی ہیں۔ پچھلے مہینے دسمبر میں بھی بنگلہ دیش نے نیا ریکارڈ قائم کیا تھا اس کے باوجود بنگلہ دیش کے آئی ایم ایف سے معاملات طے پا گئے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق پاکستان کے لیے مشکل ہے کہ ورلڈ بینک نے اس مالی سال کے لیے 1 ارب ڈالر منظور کیے تھے اس میں اگلے سال تک تاخیر کر دی ہے۔ حکومت کو امید تھی کہ امداد کے 45 کروڑ ڈالر کی ایک قسط اس ماہ جنوری میں پاکستان آ جائے گی اس کے بعد مزید 45 کروڑ ڈالر ایشین انفراسٹرکچر بینک دے گا جبکہ اس نے اپنا قرضہ ورلڈ بینک سے منسلک کیا تھا مگر ورلڈ بینک کی طرف سے تاخیر کیے جانے کے بعد حکومت کو اس مالی سال میں مزید دس ارب ڈالر کی کمی کا سامنا ہے کیونکہ اس مالی سال میں 30 سے 32 ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے حکومت نے 2.9 ارب ڈالر بینکوں سے ملنے کا تخمینہ لگایا تھا۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے مزید پیسے دینے کا اعلان کیا ہے۔ حکومت ابھی تک اس پر جائزہ نہیں لے سکی اور جو سیاسی ہلچل ہے وہ بھی عروج پر ہے پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد جب بھی ن لیگی رہنماؤں سے الیکشن پر بات کی گئی وہ کنارہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، الیکشن کی بات بھی کرتے ہیں تو اگر مگر قانونی رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہیں۔
سارے مسائل کی بات جو آئی ایم ایف کی شرائط ہیں، ان سے جو مہنگائی کا طوفان سر اٹھائے گا اس سے عوام کو اللہ ہی بچائے گا کیونکہ ن لیگ بھی ہر چیز جانتی ہے کہ مہنگائی مزید بڑھی تو ان کے اقتدار میں آنے کی پوزیشن بہت کمزور ہو جائے گی۔ عوام گزشتہ پانچ سال سے بہت کچھ برداشت کر چکے ہیں، مہنگائی کا طوفان آنے کو تیار کھڑا ہے، سیاستدانوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ آگے چلنا کیسے ہے، آئی ایم ایف اپنی کیا شرائط رکھے گا کیا پاکستان ان شرائط پر پورا اتر سکے گا اور اگر شرائط پر عمل کیا تو عوام مہنگائی سے بچ سکیں گے؟
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.