حکومت اور آئی ایم ایف: ”دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی“

28

پاکستان پر دیوالیہ ہونے کی جو تلوار گزشتہ سال سے لٹک رہی تھی وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ حقیقت سے قریب تر ہوتی جارہی ہے مگر نہ تو حکومت کے پاس کوئی تدبیر ہے اور نہ ہی اپوزیشن کے پاس اس کا کوئی حل ہے مگر دونوں ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہیں حالانکہ وہ دونوں ہی اس کے ذمہ دار ہیں اس وقت حالت یہ ہے کہ حکومت سمجھتی ہے کہ جب تک آئی ایم ایف پروگرام بحال نہیں ہوگا ڈیفالٹ سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی امداد کے بعد بھی ایسی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ ہم اس سے بچ نکلیں گے۔
اس سارے منظر نامے میں عوام کیلئے کیا ہے یہ ایک مشکل اور تکلیف دہ سوال ہے جس کا جواب یہ ہے کے عوام کے لیے کچھ بھی نہیں سوائے مہنگائی،بے روزگاری اور ذلت کے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کو پیغام بھجوا دیا ہے کہ ہم آپ کی چاروں شرائط ماننے کیلئے تیار ہیں۔ آپ سٹاف لیول مذاکرات کے لیے اگلے ہفتے اپنا وفد بھیجیں۔ یہ4 شرائط کیا ہیں۔
سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ ڈالر کی قیمت کم از کم 10 روپے بڑھا دی جائے گی جس سے امپورٹ بشمول پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہو گا صنعت کیلئے خام مال کی امپورٹ میں اضافہ پاکستانی مینوفیکچر نگ سیکٹر کی ہر پراڈکٹ میں اضافے کا باعث ہوگا۔ اس کے بعد بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ بھی پروگرام کا حصہ ہے جبکہ آخری شرط 200 ارب روپے کے نئے ٹیکس ہیں جس کے لیے منی بجٹ بھی آئے گا اور ہر چیز مزید مہنگی ہوتی چلی جائیگی۔ پرائس میکانزم پہلے ہی فیل ہو چکا ہے کسی چیز کی کنٹرول کرنے کا ریاستی نظام اپنا وجود ہی نہیں رکھتا جس کی وجہ سے آٹے کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
حکومت بظاہر کہہ رہی ہے کہ نئے ٹیکس کا عام آدمی پر اثر نہیں پڑے گا مگر جب امپورٹ پر ٹیکس لگتا ہے یا ڈالر کی وجہ سے امپورٹ مہنگی ہوتی ہے تو سب سے پہلے پٹرول مہنگا ہوتا ہے جس کے ساتھ ہی
پورے ملک میں طوفان آ جاتا ہے بلکہ اس دفعہ آئی ایم ایف کے کہنے پر امپورٹ پر Flood levy کے نام سے جو ٹیکس متعارف کرایا جا رہا ہے اس کا سارا وزن عوام پر گرنا ہے لہٰذا سب سے زیادہ متاثرہ طبقہ غریب ہوں گے جو پہلے ہی دو وقت کی روٹی کیلئے فکر مند ہیں۔
ملک میں جب معاشی ایمر جنسی کی صورتحال طاری ہے تو حکومت کا یہ حال ہے کہ کسی بھی طرح سے سرکاری اخراجات میں کمی کیلئے کچھ نہیں کیا گیا وزیر اعظم شہباز شریف کو تاریخ کی سب سے بڑی کا بینہ تشکیل کرنے کا اعزاز حاصل ہے اس طرح سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ کے سٹاف کے لوگوں کو بھی اپنے بیٹے بھائی یا داماد کو مشیر اور خصوصی معاون بنوانے کا موقع ملا جن کا درجہ صوبائی وزیر کے برابر ہوتا ہے۔ گجرات اور منڈی بہاؤ الدین کیلئے 127 ارب روپے جاری کئے جا چکے ہیں اب اگر وزیر اعلیٰ گھر چلے گئے ہیں تو بھی کوئی بات نہیں وہ فنڈ ٹرانسفر کر کے گئے ہیں لہٰذا گجرات میں ان کے حلقوں کو کوئی خطرہ نہیں اس فنڈر میں آدھے سے زیادہ پیسہ تو کسی نہ کسی شکل میں ان کے پاس واپس آئے گا جو الیکشن جیتنے کے کام آئے گا۔
ملک معاشی تباہی کے دھانے پر ہے مگر کیا مجال ہے کے حکومت اور اپوزیشن میں کسی سطح پر ذاتی مفادات سے آگے سوچا گیا ہو۔ پی ٹی آئی نے حکومت کو الیکشن پر مجبور کرنے کیلئے پنجاب حکومت کو تحلیل کرایا دوسری طرف منافقت کا یہ حال ہے کہ ایک طرف صوبائی اسمبلیاں توڑ رہے ہیں دوسری طرف قومی اسمبلی میں واپس آنے کا اعلان کر دیا حکومت کا ضمیر چونکہ اسی خام مال سے بنا ہے انہوں نے بھی جو استعفے 9ماہ سے التواء میں رکھے تھے وہ منظور کرنا شروع کر دیئے۔ اتنے برے حالات میں بھی دونوں سائیڈ پر صرف سیاست اور ذاتی مفاد کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔
پاکستان میں پولٹری کے شعبے میں آنے سے 15 سال پہلے کنٹرول شیڈ Control Shed ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی جس سے پولٹری فار مرز کی سرمایہ کاری اور اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا جس سے چکن قیمتیں مزید مہنگی ہو گئیں۔ اسی طرح پاکستانی کی پارلیمنٹ بھی کنٹرول شیڈ جیسی ہے جس میں کرسی حاصل کرنے کیلئے سرمایہ کاری کے ریٹ بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں اور یہ سیٹیں جتنی مہنگی ہوتی جا رہی ہیں عوام پر حکمرانی کا بوجھ اتنا ہی بڑھتا جارہا ہے عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے اپنے لیے آمریت کا انتخاب کرتے ہیں جو ووٹ لینے کے بعد عوامی امنگوں سے مکمل طور پر منقطع ہوتے ہیں کوئی ممبر اپنی پارٹی کو نہیں کہتا کہ اتنی مہنگائی سے اس کے ووٹر ہلاک ہو جائیں گے بلکہ حالت یہ ہے کہ ایم این اے اور سینیٹرز کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے ہر پارٹی میں روسی پولٹ بیورو کی طرز پر چند مٹھی بھر افراد ملک کی تقدیر کے فیصلے کر رہے ہیں معیشت اس لیے تباہ ہو رہی ہے کہ ان میں سے کسی کے پاس بھی معاشیات کا علم یا فہم نہیں سے یہ فیصلہ کرتے ہیں پھر عمل درآ مد کرتے ہیں اور پھر اس کا رد عمل دیکھتے ہیں تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے پالیسیاں سب کی پے در پے فیل ہو رہی ہیں اور اب حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کسی کے پاس کوئی پالیسی نہیں صرف اور صرف آئی ایم ایف کی بات تسلیم کرنی ہوتی ہے آپ کی ساری معیشت کے فیصلے آئی ایم ایف کرتی ہے حکومتیں صرف ان کے واچ مین یامنشی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ملک میں مڈل کلاس طبقہ کا خاتمہ ہو چکا ہے یا تو غربت کے کچلے ہوئے لوگ ہیں یا پھر امیر ترین ہیں جو پارٹیوں سے ٹکٹ خرید کر اسمبلیوں میں بیٹھتے ہیں۔ یہ سسٹم زیادہ دیر نہیں چل سکتا یہاں تک پہنچانے کیلئے سب نے برابر حصہ ڈالا ہے دیکھنا یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کے ڈیفالٹ کی کوکھ سے کوئی ایسے لوگ جنم لیں جو ملک کا انتظام سنبھال کر اس کو تعمیر نو کی راہ پر ڈال سکیں مگر ایسے کسی معجزے کے امید بہت کم ہے کیونکہ یہ تجربہ بھی تحریک انصاف کی شکل میں try کیا گیا مگر بری طرح ناکام ہوا۔ اب فوری طور پر اس طرح کا کوئی تجربہ دوبارہ نہیں ہو سکتا۔ ’سٹیٹس کو‘کے اندر سے اگر کوئی ضمیر کی چنگاری کسی ادارے سے اٹھے تو اور بات ہے۔

تبصرے بند ہیں.