عوامی اور جمہوری ہونے کی دعویٰ دار سیاسی جماعت نے تعلیم یافتہ شہر میں بلدیاتی انتخاب کے انعقاد کے لئے جو سانپ اور سیڑھی کا کھیل شروع کیا تھا وہ بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا،صوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن کے مابین بلی اور چوہے کی اس دوڑ میں سرکار کوہی شکست کا سامنا کرنا پڑا، اصولی طور پر تو الیکشن کو دوسال قبل ہی منعقد ہونا تھا کیونکہ انکی مدت اگست2020 میں ختم ہو چکی تھی، آئینی طور پر چار ماہ کے دوران وہاں کے عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار ملنا تھا، مگر سندھ سرکار اس میں لیت ولعل سے کام لیتی رہی ،ان کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے مختلف بہانے تراشے گئے، کبھی حلقہ بندیوں کے نام پر التوا کیا گیا تو کبھی قدرتی آفات کو جواز بنا کر دو مرتبہ ان کے شیڈول میں تبدیلی کی گئی، مخالف جماعتوں کوہر اُس در پر دستک دینا پڑی جہاں سے ریلیف ممکن تھا۔
کراچی شہر میں کئی دہائیوں تک بلا شرکت غیرے اقتدار کے مزے لوٹنے والی لسانی جماعت بھی عوام کو یہ حق دینے کے لئے تیار نہ تھی، حلقہ بندیوں کے نام پر وہ بھی عدالت جا پہنچی تاکہ مقامی انتخاب کو کسی صورت بھی منعقد نہ ہونے دیا جائے، ان کے قائدین نے تلخ لہجہ اپنا کر کہا کہ وہ یہ الیکشن نہیں ہونے دیں گے، لیکن ایم۔کیو۔ایم کو عدالتی محاذ پر بھی ناکامی ہوئی، آخری حربہ کے طور پر رات کی تاریکی میں اس نے انتخاب میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا، اس غیر یقینی صورت حال کے باوجود الیکشن کے انعقاد کا سہرا الیکشن کمیشن کے سر ہے۔تاہم الیکشن کے بعد بر وقت نتائج کی فراہمی میں تاخیر نے بہت سے سوالات اٹھا دیئے۔
جماعت اسلامی کی جانب سے مئیر کے امیدوار محترم حافظ نعیم الرحمن نے الزام عائد کیا کہ حکمران جماعت کو پہلی پوزیشن پر لانے کے لئے بیوروکریسی نتائج میں ردوبدل کرنے میں مصروف ہے، اس لئے آر او حضرات متعلقہ انتخابی فارم پر تحریر مکمل نتیجہ پولنگ ایجنٹ کو فراہم نہیں کر رہے ہیں، ان کے خدشات اس وقت درست ثابت ہوئے جب دوبارہ گنتی میں کچھ نشستوں پر انکی جماعت کو کامیابی ملی جس کا تذکرہ سوشل میڈیا پر ہوتا رہا۔
اگرچہ اس انتخاب سے باہر رہنے والی جماعت کا کہنا ہے کہ مئیرشپ جس کو بھی ملے گی وہ
بائیکاٹ کی صورت میں ایک خیرات ہی ہو گی، مگر الیکشن میں شامل جماعتوں نے اس نظریہ کو رد کردیا اور دلیل دی کہ باربار الیکشن کے التوا نے عوام کو شش و پنج میں رکھا لیکن اس کے باوجود عوام نے شرکت کرکے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نے کہا کہ عوام نے بائیکاٹ پر کان نہیں دھرے، امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن میں جماعت اسلامی نے ایم۔ کیو۔ ایم سے تین تہائی ووٹ زیادہ حاصل کیے تھے۔عوامی موڈ دیکھ کر یہ پارٹی الیکشن سے راہ فرار کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔
دنیا کی آبادی کے اعتبار سے 12 وےںبڑے شہر میں مجموعی طور پر پر امن انتخاب بڑی کامیابی ہے، یہ ایسا شہر تھا جہاں ماضی میں گن پوائنٹ پر ووٹ لئے جاتے تھے،عوام خوف کے مارے گھروں سے باہر نہیں نکلتے تھے مگر ان کا ووٹ بھی نتائج میں شامل ہوتا تھا، 89سالہ مقامی حکومت کی تاریخ رکھنے والے روشنیوں کے شہر کا 28واں مئیر اگلے ہفتہ تک منتخب ہوجائےگا۔
جماعت اسلامی کی انتخابی لحاظ سے اس شہر میں واپسی بڑی تبدیلی ہے، یہ کریڈٹ محترم حافظ نعیم الرحمان کو جاتا ہے، ہر محاذ پر عوام کی جنگ انھوں نے لڑی ہے،واٹر بورڈ میں پانی چوری کا مسئلہ ہوا وہ ساتھ تھے، بجلی، پانی، گیس کے ایشو پر عدالتوں کے در پر دستک دی۔بحریہ ٹاﺅن کے متاثرین نے جب ان سے مدد طلب کی وہ سب سے آگے تھے انھوں نے طاقت ور سمجھی جانے والی ایک شخصیت سے رقم لے کر سماج کے مجبور افراد کو دی۔
مشکلات نسلہ ٹاور کے مکینوں کی ہوں یا معاملہ سٹریٹ کرائم کا ہو،حافظ نعیم الر حمان عوام کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں، کراچی کے تمام مسائل کو اجاگر کرنے اور ارباب اختیار کو آئینہ دکھانے و الی سب سے توانا آواز بھی انکی ہے، انھوں نے یہ خدمات بغیر اقتدار کے انجام دے کر عوامی نمائندگی کا حق ادا کیا ہے، اس لئے ان انتخاب میں ہر طرح کی سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر ہو مردو جواں، خواتین نے انکی آواز پر لبیک کہا ہے، نسل نو کے لئے بنو قابل پروگرام شروع کرکے انھوں ان قوتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ہاتھ جن میں قلم، کتاب ہونی چاہئے تھی، ان ہاتھوں میں کلاشنکوف تھمانے والے ہی اس کے اصلی مجرم ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ 1979 سے 2016 تک چھ مئیر منتخب ہوئے تھے، ان میں سے تین کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا، عبدالستار افغانی دو دفعہ مئیر بنے جبکہ تین کا تعلق ایم کیوایم سے تھا، لیکن سیاسی مخالفین بھی مانتے ہیںکہ کراچی کو پرامن، ترقی یافتہ بنانے میں جماعت اسلامی کے میئرز نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس کے باوجود ہر آمر نے ان قوتوں کے سر سر پر دست شفقت رکھا جنہوں نے اس شہر کو بوری بند لاشیں، بھتہ خوری،ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ کچھ نہیں دیا، ہر سیاسی عہد میں یہ سرکار کا حصہ رہے ہیں مگر اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرنا ہی ان کا مقصد حیات رہا ہے، قریباً تین دہائیوں سے پیپلز پارٹی اس صوبہ میں حکمرانی سے لطف اندوز ہو رہی ہے، مگر بنیادی سہولیات سے یہ شہر محروم چلا آرہا ہے، روشنیوں کے شہر کی شناخت ٹوٹی،پھوٹی سٹرکیں، پینے کے لئے گندا پانی،غیر معیاری ٹرانسپورٹ اب اسکی پہچان ہے، جب کپتان وزیر اعظم اور انکے اتحادی” نفیس لوگ “تھے تو تحریک انصاف نے ایک بڑے پیکیج کا اعلان شہر کراچی کے لئے کیا تھا، مگر یہ بھی اہل کراچی کی قسمت بدلنے میں ناکام رہا ہے۔
قومی سطح پر جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے ان پر دھاندلی کی باز گشت سنائی نہیں دی، مگر پیپلز پارٹی جو اٹھتے بیٹھتے جمہوریت کا راگ الاپتی ہے اسکی زیر نگرانی لوکل گورنمنٹ کے الیکشن پر دھاندلی کی آواز اٹھنا قابل مذمت ہے،اس لئے حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ وہ جماعت اسلامی کے مینڈیٹ پر ڈاکہ مارنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے۔جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ شہر کے مرکزی علاقہ جات کی یونین کونسلز سے انکی جماعت نے کلین سویپ کیا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ جنرل مشرف کے دور میں پولیس،صحت، تعلیم،مقامی ریونیو جمع کرنے، واٹر بورڈ، شاہرات کی تعمیر کے سارے اختیارات مئیر کے پاس تھے، ان میں کمی پیپلز پارٹی کے دور میں ہوئی، جماعت اسلامی کے مئیر کے امیدوار اختیارات کی بحالی کے لئے بھی آواز اٹھا چکے ۔
دیکھنا یہ ہے کہ شہر کراچی کا 28واں مئیرکس جماعت سے منتخب ہو گا، کیونکہ کوئی بھی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہیں کر پائی ہے، اُمید ہے کہ اگلے ہفتہ یہ مرحلہ طے پائے گا، تاہم ہمارا گمان ہے کہ ماضی کی سنگینیوں کو دیکھتے ہوئے عوام بھی حافظ نعیم الرحمان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی حمایت کرے گی، کیونکہ مئیر کے اس امیدوار کا تعلق نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے اس قبیلہ سے ہے جنہوں نے کراچی کے بجٹ کوبغیر ٹیکس 4ارب سے44ارب تک پہنچایا اورکمیشن کلچر کو بھی مات دی تھی۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.