!……جاڑوں کے وہ دن

69

(گزشتہ سے پیوستہ)
ذکر پچھلی صدی کے ساٹھ کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں گاؤں سے پنڈی آنے جانے کے لیے کچی سڑک پر لاری کے سفر کا ہو رہا تھا کہ کیسے لاری کی چھت پر بیٹھی سواریوں کو اکثر اور اس کے ساتھ لاری کے اندر بیٹھی مرد سواریوں کو کبھی کبھی لاری سے اُتر کر اسے پیچھے سے دھکے لگانا پڑ جاتے تھے۔ یہ نوبت کیوں آتی تھی، اس کے لیے کچھ وضاحت ضروری سمجھی جا سکتی ہے۔ بات دراصل یہ تھی کہ پنڈی کے جنوب مغرب میں کم و بیش تیرہ، چودہ کلومیٹر کے فاصلے پر "چیڑ پڑ” یا "چیر پڑوں ” کے نام سے معروف کم بلندی اور کم چوڑائی والی عمودی کھڑی پتھریلی چٹانوں کا تقریباً چار، پانچ کلومیٹر لمبا ایک سلسلہ ہے جو مغرب (کسی حد تک شمال مغرب) میں چکری روڈ کی معروف شاہراہ پر مورت سٹاپ کے قریب سے شروع ہو کر جانب مشرق (کسی حد تک جنوب مشرق) میں "گھنیری کسّی” تک پھیلا ہوا ہے۔ پنڈی جانے کے لیے ہماری لاری ادھر ہی بنی کچی سڑک سے گزر کر آگے دھمیال گاؤں اور بکرا منڈی وغیرہ تک جاتی تھی۔ پرانے ماڈل کی لاری کو جب "گھنیری کسّی” کے نشیب تک اترتی سڑک پر آگے کچھ کچھ ستواں چڑھائی چڑھنا ہوتی تو لاری میں زیادہ سواریاں اور زیادہ وزن ہونے کی صورت میں یہ خطرہ ہوتا کہ لاری چڑھائی چڑھنے کے بجائے سڑک پر کہیں پیچھے ہی لڑھکنا نہ شروع کر دے۔ اس صورت میں لاری کی چھت پر یا اندر بیٹھی مرد سواریوں کو ڈرائیور صاحب نیچے اترنے کا
کہہ دیتے اور لاری کے ستواں چڑھائی چڑھنے کے بعد سواریاں دوبارہ اس پر سوار ہو جاتیں اور لاری چل پڑتی۔
سطح مرتفع پوٹھوہار کے علاقے میں اس طرح کی کسی یا کسیاں بہت پائی جاتی ہیں۔ ان میں تھوڑا بہت پانی لگاتار بہتا رہتا ہے۔ اگر ایسا نہ بھی ہو بارشوں یا برسات کے دنوں میں آس پاس کے ٹیلوں، ٹبوں اور چٹانوں کی ڈھلانوں سے بہہ کر آنے والا پانی ضرور بہتا رہتا ہے۔ اس طرح کے برساتی پانی یا لگاتار بہنے والے پانی کو روک کر بنائے بنائے چھوٹے چھوٹے ڈیم یا بند بھی اس علاقے میں کئی جگہوں پر موجود ہیں۔ "گھنیری کسّی” جس کا ذکر ہو رہا ہے اس پر بھی مغربی پاکستان سمال ڈیم آرگنائزیشن نے صدر ایوب خان کے دور میں مسریوٹ گاؤں کے قریب ایک چھوٹا سا ڈیم تعمیر کیا۔ اس ڈیم کی تعمیر کی خوب تشہیر کی گئی اور اکتوبر 1963میں صدر ایوب خان گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان نواب آف کالاباغ کے ہمراہ اس ڈیم کا افتتاح کرنے کے لیے تشریف لائے تو راقم بھی آر۔ اے بازار پنڈی سے کرائے کی سائیکل لے کر افتتاحی تقریب کو دیکھنے کے لیے ڈیم کی جگہ پر پہنچا ہوا تھا۔ اس کا احوال پھر کبھی سہی واپس "گھنیری کسّی” کی طرف آتے ہیں کہ یہاں سے گزرتے ہوئے ہماری لاری پر کیا بیتتی تھی۔
"گھنیری کسّی” کے نشیب میں اترائی کے بعد سڑک پر یکلخت ستواں چڑھائی شروع ہو جاتی ہے۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں لاری پہنچتی تو پھر اس کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے مرد سواریوں کو اکثر نیچے اتار لیا جاتا اور کبھی کبھار لاری کو پیچھے سے دھکے لگانے کے بھی نوبت آجاتی تھی۔ یہاں سے آگے کا سفر حیال، بندہ اور دھمیال کے دیہات اور دھمیال کے فوجی کیمپ سے گزرکر لاری بکرا منڈی بر لبِ سڑک پہنچ جاتی۔ یہاں چوہدری نثار علی خان کے والد ِ گرامی بریگیڈیر فتح خان مرحوم کی کوٹھی بھی تھی۔ اس کوٹھی کے گیٹ پر سنگ مرمر کی سل لگی ہوئی تھی جس پر "بریگیڈیر چوہدری فتح خان رئیس اعظم چکری” کے الفاظ کھدے ہوئے تھے۔ پرانی کوٹھی کو گرا کر اب وہاں اپارٹمنٹس بنا دیئے گئے ہیں تاہم سنگ مرمر کی سل اب بھی شاید اسی طرح نصب ہے۔
بکرا منڈی سے آگے 22نمبر چونگی تک پہنچنے سے پہلے لاری کی چھت پر بیٹھی سواریوں کو ایک اور آزمائش سے دوچار ہونا پڑتا تھا انہیں یہ کہہ کر چھت سے اتار دیا جاتا کہ چھت پر سواریوں کے بیٹھے ہونے کی وجہ سے لاری کا چالان ہو سکتا ہے۔ کچھ سواریوں کو لاری کے اندر ٹھونس دیا جاتا اور کچھ کو کہہ دیا جاتا کہ آگے جہاں انہیں جانا ہے خود چلے جائیں۔ اس طرح "رتی دندی "سے شروع ہونے والا لاری کا سفر خصالہ کلاں، ڈھوک راجا، چیر پڑوں، "گھنیری کسّی” اور دھمیال وغیرہ سے پنڈی 22نمبر چونگی تک مکمل ہوتا۔ پنڈی سے گاؤں جانے کے لیے بھی لاری کا یہی روٹ تھا تاہم گوالمنڈی اڈے پر لاری میں بیٹھنے کی گنجائش نہ ہوتی تو سواریوں کو کہہ دیا جاتا کہ وہ بکرا منڈی پہنچ جائیں وہاں سے انہیں لاری کی چھت پر بیٹھا دیا جاتا۔

تبصرے بند ہیں.