عمران خان کوایک مشورہ جو وہ مانیں گے نہیں

18

مشورہ اپنی ذمہ داری سمجھ کر دیتا ہوں اب اُسے کوئی مانے یا نہ مانے ٗاس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اسے دینے میں میرا کوئی فائدہ نہیں اورکسی کے نہ ماننے سے بھی میرا کوئی نقصان بھی نہیں البتہ نہ ماننے والا وقت گزرجانے کے بعد اس پر پچھتاتا ضرور ہے کہ کاش! اُس وقت وہ مشورہ مان لیا جاتا۔ عمران خان کو 2026ء میں تحریک انصاف بنائے 30 سال ہو چکے ہوں گے لیکن تنظیم اُس کے پاس اُس وقت بھی نہیں ہوگی اگر تحریک انصاف حوادثِ زمانہ کا شکار ہونے سے بچ گئی کہ جس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔اپریل 2006ء میں پاکستان تحریک انصاف کے 10 ویں یومِ تاسیس پر عمران خان نے قاضی حسین احمد کو مہمان خصوصی بلوا لیا عمران خان کے ذہن میں جماعت اسلامی اور جمعیت کی ہیرو شپ کی دھاک بٹھانے میں حفیظ اللہ نیاز ی کا کردار کلیدی رہا ہے۔ قاضی حسین احمد بڑے رکھ رکھاؤ والے انسان تھے اورتمام تر نظریاتی اختلافات کے باوجود میں اُن کا احترام اس لئے بھی کرتا تھا کہ انہوں نے جماعت اسلامی اورجمعیت کے بہت سے بند دروازے اورکھڑکیاں کھولیں جن کا اُس سے پہلے کوئی تصور نہیں تھا او ر اُن کے بعد امیر جماعت اسلامی بننے والے کامریڈ منور حسن کی انتہا پسندی تو پوری قوم دیکھ چکی ہے۔ قاضی حسین احمد کو اسلام آبادمیں پاکستا ن تحریک انصاف کے سٹیج پر دیکھ کر وہ تمام لوگ جو معرا ج محمد خان کے ساتھ تحریک انصاف میں اپنی انقلابی جماعت پاکستان قومی محاذ آزادی (جوسوشلسٹ تنظیم تھی) ضم کرکے شامل ہوئے تھے اُن پر سکوتِ مرگ طاری ہو گئی۔ اُس زمانے میں ٗ میں تحریک انصاف لاہور کاجنرل سیکرٹری تھا ٗ صوبائی دارالخلافہ کی تنظیم کے صدورنے لازمی تقریر کرنا تھی۔ شبیر سیال اُس وقت لاہور کے صدر تھے اورشبیر سیال سے میرا بھائیوں والا تعلق تھا کہ اُس نے پارٹی پر اپنا کاروبار اورکاروباری مصروفیات سب قربان کردیا تھااور عمران خان نے وزیراعظم بننے کے بعد اُسے زکوٰۃ و عشر کمیٹی لاہورکا چیئرمین بنا دیا بالکل اُسی طرح جیسے ڈاکٹر عاطف الدین جیسے ایچیسن کالج کے استاد کو پنجاب قبرستان کمیٹی کا چیئرمین اقتدارکے آخری دنوں میں بنا دیا گیا۔ شبیر سیال کے حوالے سے عمران خان کے تعلیمی تحفظات ہو سکتے ہیں لیکن ڈاکٹر عاطف الدین تواُسی کالج میں 10سال بطور استاد خدمات سرانجام دیتے رہے جہاں خود چیئرمین تحریک انصاف طالبعلم رہے ہیں۔ انہیں
قبرستان کمیٹی پنجاب کا چیئرمین بنانا اور اُن کی صلاحیتوں کو کھڈے لائن لگانے سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ تحریک انصاف یا تو بالادست طبقے یا پھر ریٹائرڈ او ر شکست خوردہ جرنیلوں کے بچوں کیلئے بنائی گئی ہے اور اس میں عا م آدمی کے بچے کیلئے کوئی باعزت مقام نہیں ہے خواہ وہ ایچیسن کا استاد ہی کیوں نہ ہو۔بہرحال تھوڑی سی گفتگو کے بعد دوستوں نے طے یہ کیا کہ تقریر جمشید کرے گا۔ اُس وقت عمر سرفراز چیمہ سٹیج کے ایک کونے میں ڈائس کے پیچھے بیٹھا مجھے دیکھ رہا تھا لیکن چونکہ 2002ء میں وہ مسلم لیگ قاف میں چلا گیا تھا سو عمران خان کے زیر عتاب تھا یہ الگ بات ہے کہ عمران خان کے مسلم لیگ قاف میں جانے یا قاف لیگ کو بلانے پر عمر سرفرازچیمہ نے اعتراض نہیں کیا کیونکہ وہ بھی رنگروٹ فیملی سے ہے اوریہ رنگروٹ کسی کے مستقل دوست نہیں ہوتے حالانکہ 2004ء میں کینٹ لاہورکے ضمنی الیکشن میں ٗ میں نے عمر سرفراز چیمہ کی ٹکٹ کیلئے سرتوڑ کوشش کی اور نہ صرف اُسے ٹکٹ دلوائی بلکہ جون اورجولائی کی گرمی میں بڑے جلسوں کا انعقاد کیا جن سے عمران خان خود خطاب کرتے رہے۔ بہرحال میں نے اپنی تقریر میں قاضی حسین احمدسے ایل۔ایف۔ او سائن کرنے پر نہ صرف گلہ کیا بلکہ چیئرمین سے بھی پوچھ لیا کہ آپ تو ایل۔ایف۔ او سائن کرنے والوں کو غدار سمجھتے ہیں تو پھر یہ غداریہاں کیا کررہا ہے؟ میں نے اپنی تقریر میں عمران خان کو مخاطب کرکے کہا کہ جیسے آپ نے مشرف کی حمایت کرکے قوم سے معافی مانگی ہے۔ایک دن آپ کوجماعت اسلامی کے ساتھ روابط بڑھانے پر بھی قوم سے معافی مانگنا ہو گی۔ وہاں موجود ہزاروں ورکرز نے اس بات کو سنا اور اکثریت نے میری بات کی حمایت کی۔اکبر ایس بابر نے مجھے کہاکہ ”جمشید تم نے بات ٹھیک کی ہے لیکن اب چیئرمین کو کیسے فیس کرو گے۔“ میں نے کہا بابر بھائی:”میں نے جواب سوچ کر ہی تقریر کی ہے۔“ چند دنوں بعد ہمارے ایک تنظیمی ساتھی خالد صاحب کے بیٹے کا پیٹرول پمپ پر قتل ہوگیا تو چیئرمین تحریک انصاف اُن کے گھر فاتحہ خوانی کیلئے تشریف لائے۔جب وہاں سے رخصت ہونے لگے تومجھ پر نظر آن پڑی اور ساتھ ہی اسلام آباد کی تقریر بھی یاد آ گئی۔ بانی رکن پاکستان تحریک انصاف احمد علی بٹ صاحب میرے ساتھ کھڑے تھے۔انہوں نے کہا کہ ”چیئرمین تمہاری طرف اشارہ کررہا ہے۔“ میں نے کہا:”کوئی بات نہیں آنے دیں“۔عمران میرے پاس آیا اور اپنا سر پکڑکر کہنے لگا:”تم نے قاضی کو اڑا کررکھا دیا ہے“۔ میں نے سنجیدگی سے پوچھا:”کیا یہ آپ کا بیانیہ نہیں کہ جو ایل ایف اوسائن کرئے گا وہ غدار ہے؟“عمران نے کہا:”بے شک میں نے کہا ہے لیکن وہ میرے معززمہمان تھے“۔ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:”جناب چیئرمین! اگروہ آپ کے معززمہمان تھے تو آپ گھر لے کر جاتے ہمارے یومِ تاسیس پرکیوں لے آئے اور اگرلانا ہی تھا تو ہمیں اطلاع بھجوا دیتے تاکہ ہم نہ آتے۔“ عمران نے غصے سے میری طرف دیکھ کر کہا:”تمہیں اللہ ہی سمجھا سکتا ہے۔“ اورسیف اللہ نیازی کو گاڑی چلانے کا اشارہ کردیا۔ یہ واقعہ میں نے اس لئے لکھا کہ ایک تو یہ ریکارڈ پرآ جائے اوردوسرا میرے مشورے کو تقویت مل جائے کہ وہ شخص جو جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اتحاد کا کبھی حمایتی نہیں رہا وہ آج عمران خان کو جماعت اسلامی کے ساتھ چلنے کا مشورہ کیوں دے رہا ہے۔ سندھ کے الیکشن نے عمران خان کی دو تہائی اکثریت کا پول تو کھل کر رکھ دیاہے اورتحریک انصاف سندھ میں تیسرے نمبر پر صرف اس لئے آئی ہے کہ دوسرے یا پھرتیسرے نمبر کی جماعت ایم کیو ایم نے الیکشن کا بائیکاٹ کردیا تھا۔ اِن حالات میں میرا چیئرمین تحریک انصاف کو مستقبل کی سیاست کیلئے ایک مشورہ ہے جسے وہ مانیں گے نہیں لیکن اگر وہ مان کر جماعت اسلامی کوراضی کرلیں تو پاکستان میں جماعت اسلامی کا ”اسلامی انقلاب“ اور عمران خان کی ”ریاست مدینہ“ دونوں بن سکتی ہیں۔ گزشتہ ستائیس سال میں عمران خان پاکستان تحریک انصاف کی تنظیم سازی کرنے میں بالکل ناکام رہے ہیں اوراب بقیہ زندگی میں اُن کے پاس اس کی تنظیم سازی کیلئے وقت اور حالات دونوں نہیں ہوں گے۔سو اِن حالات میں اگر جماعت اسلامی عمران خان کو اپنا امیر بنا لے تو اُن کا قیادت کے فقدان کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور ایک پاپولر ٗ عوامی اور بنا بنایا لیڈر انہیں مل جائے گا اورعمران خان تحریک انصاف جماعت اسلامی میں ضم کردیں توعمران خان کو وہ تنظیم مل جائے گی جس کے بغیر اُس کے خواب کی تعبیر ممکن نہیں۔ یہ کا م بھی انتہائی آسانی سے ہو جائے گا اگراس کیلئے آپ اپنے اردگرد نظر دوہرائیں توسابق ناظم جمعیت طلباء اسلام اورموجود ہ پولیٹکل سیکرٹری حافظ فرحت عباس ٗ جس نے 2007ء میں عمران خان پر بدترین تشدد کرایا ٗ اُسے ڈیپارٹمنٹ میں بند کرکے ذلت آمیز سلوک کیا ٗ آپ کے بہت کام آسکتا ہے۔ میں نے حفیظ اللہ نیازی کا اس لئے نہیں لکھا کہ وہ پہلے بھی آپ کو پنجاب یونیورسٹی لے جا کر پٹوا چکا ہے سو وہ اتنا قابلِ اعتماد ذریعہ نہیں مگر آپ اگر میرے مشورے پرعمل کریں تو پاکستان کا ایک دیرینہ مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے اوردونوں سیاسی جماعتوں کو اپنے خوابوں کی تعبیر بھی مل جائے گی کہ اب صرف یہی کھیل باقی رہ گیا ہے۔

تبصرے بند ہیں.