دھرتی ماں کی غیرت

21

پاکستان ایک نعرہ تھا جس کے لیے اگست 1947ء میں دنیا کی سب سے بڑی ہجرت سامنے آئی۔ لاکھوں افراد کو گوشت کے ٹکڑوں میں تبدیل کردیا گیا۔ ہزاروں لڑکیوں کی عزت، بے عزت ہوگئی کیونکہ وہ سب ایک نعرے کے پیچھے چل پڑے تھے۔ پھر کیا ہوا؟ وہ نعرہ دھول بن گیا۔ دھول جس سے بچنے کے لیے سفید پوش اپنے منہ پر کپڑا رکھ لیتے ہیں اور کالے انگریز کالا چشمہ پہن لیتے ہیں تاکہ آنکھوں میں نمی نہ آ سکے مگر غریب منہ پر کپڑا سجاتے ہیں، نہ ہی عینک چڑھاتے ہیں اور یہ دھول ان کے چہرے پر سجی رہتی ہے۔ یہی ہوا، غریب پاکستانی اگست 47ء کے نعرے کو دھول ہوتا دیکھا کئے اور چپ رہے۔ پھر فوجی صاحب بہادر آگئے۔ پاکستان کے پہلے فیلڈ مارشل اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان جو اپنے عہدے کو فیلڈ مارشل تک پہنچانے سے لے اقتدار حاصل کرنے تک سرتاپا بہت Ambitious تھے۔ انہوں نے بھی غریب پاکستانیوں کو ایک نیا نعرہ دیا۔ ترقی کا نعرہ، خوشحالی کا نعرہ، انڈسٹری کا نعرہ، غریب سے امیر ہونے کا نعرہ اور غریب پاکستانی اس نعرے کے پیچھے چل دیئے۔ جنرل ایوب خان سے لوگوں نے محبت کی۔ انہیں پاکستان کا خوبرو اور سمارٹ سربراہ مانا۔ ان کی تصویر اپنے سینوں پر سجائی اور عرصہ دراز تک ٹرکوں اور چھکڑوں پر بھی لگائی لیکن ایوب خان کا نعرہ بھی ایسا ہی تھا جیسے ناگ کے اوپر کالا کپڑا ڈال دیا جائے اور مداری تماشائیوں کو کہے کہ ”دیکھو اس کپڑے میں جان ہے اور یہ جاندار کپڑا قدرت کی شان ہے“۔ تماشائی واہ واہ کریں اور مداری کی جھولی میں حسب توفیق آنے دو آنے ڈال دیں۔ ایوب خان نے بھی سیاست دانوں کو لڑایا، مروایا، ہٹایا اور قوم کے باپ قائداعظمؒ کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو ہرایا جو احترام میں ایوب خان کی ماں تھیں۔ کنونشن لیگ بناکر سیاسی پارٹیوں کو حرام کھانے کی عادت ڈالی۔ عوامی رائے عامہ اور میڈیا کے ساتھ اغوا کی جانے والی لڑکی جیسا سلوک کیا۔ 65ء کی جنگ کے ہیرو بنے مگر بعد میں پتا چلا کہ وہ زیرو تھے۔ اِس خطے میں کمیونزم کو روکنے کے لیے ٹاؤٹ بنے رہے۔ اس طرح وہ اپنے نعرے کی دھول جھونک کر طاقتور کرسی پر تقریباً دس بہاریں گزار گئے۔ غریب پاکستانی ایوب خان کے نعرے کو دھول ہوتا دیکھا کئے اور چپ رہے۔ تحریک پاکستان کے بعد پاکستانیوں کے لیے اب تک کا سب سے مضبوط نعرہ ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا دیا۔ لوگوں کو بولنا اور سوچنا آگیا۔ انہوں نے انسان کی بنیادی ضرورتوں کے اس نعرے کو سرکا تاج بنا لیا اور وہ سب کے سب اس کے پیچھے چل دیئے مگر برسوں بعد بھی لوگ بھوکے تھے، ننگے تھے اور کھلے آسمان تلے تھے۔ انہیں پتا چل گیا کہ یہ نعرہ بھی ایک دھول تھا۔ اس طرح غریب پاکستانی روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کو دھول ہوتا دیکھا کئے اور چپ رہے۔ پھر ایک ڈھنڈورچی آئے۔ انہوں نے ڈھول بجابجا کر بتایا کہ ”میں جنرل ضیاء الحق ہوں۔ اللہ رسولؐ کا سبق مجھ سے سیکھو“۔ انہوں نے بسم اللہ اور قرآنی آیات پڑھ کر قسم کھائی کہ وہ اس ملک پر اسلام کی بابرکت چادر کا سایہ
کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نعرہ یہاں کے بیشتر لوگوں کے لیے بہت ہی محترم تھا اور اُن کے ایمان کا حصہ تھا۔ لہٰذا وہ سب کے سب دل و جان سے اس نعرے کے پیچھے چل دیئے مگر ضیاء الحق کی چالاکیوں کا ”پنا“ کھلنا شروع ہوگیا۔ یہ بھی انٹرنیشنل برخوردار نکلے۔ پوری قوم کے ایمان کو ایکسپولائٹ کرکے ایک سپرپاور کے لیے مشقتی اور قربانی کے بکرے تیار کرتے رہے۔ جب انہوں نے اپنی چالاک ذہنی چابک دستی کا مظاہرہ اُسی سپرپاور کے آگے کرنا چاہا تو وہی ہوا جو بڑے جاگیردار کے پالتو کے ساتھ ہوتا ہے جسے جاگیردار اپنے غلط مقاصد کے لیے کچی جھونپڑی اور گندی جگہوں سے
نکال کر پکے بنگلے اور خوبصورت کالونی تک پہنچاتا ہے مگر جب وہ چھوٹا آدمی یہ سب کچھ اپنا حق سمجھ کر جاگیردار کو چکر دینے کی کوشش کرتا ہے تو عبرتناک طریقے سے مروا دیا جاتا ہے۔ اس وقت وہ چمپئن جنہیں ضیاء الحق نے دودھ پلاپلا کر پھنکارنے کے قابل بنایا تھا وہ بھی ضیاء الحق پر ہی آگ اگل رہے ہیں۔ اور رہا اُن کا نعرہ تو وہ ان کے ساتھ ہی دھول ہوگیا۔ غریب پاکستانی ضیاء الحق کے نعرے کو دھول ہوتا دیکھا کئے اور چپ رہے۔ اس کے بعد ایک اور محب وطن فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے پاکستانیوں کو روشن خیال لبرل لائف اور سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ دیا مگر وہ بہت کچھ کرنے کا اختیار رکھنے کے باوجود مکمل طور پر سیکولر ڈکٹیٹر نہ بنے۔ اس طرح ان سے توقعات رکھنے والوں کو ان کا نعرہ بھی دھول ہوتا نظر آیا۔ پھر پاکستان میں ایک نیا چاند چڑھایا گیا۔ وہ اپنے بڑھاپے تک پلے بوائے ہی رہا تھا لیکن حکومت میں آکر اُس نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا۔ اس نے مزید یہ کہا کہ پاکستان کو لوٹنے والوں کو تلاشی دینا ہو گی۔ ریاست مدینہ اور چوروں کی تلاشی لینے کا نعرہ لگانے والا عمران خان پول کھلنے پر پرانا پلے بوائے ہی نکلا۔ اس سے پہلے پاکستان کو چوروں اور ڈاکوؤں نے لوٹا لیکن بڈھے پلے بوائے عمران خان نے پاکستان کو اپنے گھر کی خواتین اور ان کی سہیلیوں کے ذریعے لوٹا۔ ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والے بڈھے پلے بوائے عمران خان کی آڈیو لیکس نے سب کو سب کچھ بتا دیا لیکن لوگ ہیں کہ اس کے نعرے کو دھول ہوتا دیکھ کر بھی ابھی تک اس کے پیچھے چلنے کو تیار ہیں۔ بشریٰ بی بی کے پاس کوئی مؤکل اور جادو تھا یا نہیں اس کا تو علم نہیں لیکن لگتا یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مؤکلوں کے ذریعے سادہ لوگوں کے ذہنوں پر جادو کرکے پردہ ڈالا ہوا ہے اور لوگ پلے بوائے کے نعروں کو دھول ہوتا دیکھا کئے اور چپ رہے۔ گویا غریب پاکستانیوں کو شروع سے ہی نئے نئے نعروں سے امیدیں دلائی جا رہی ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی لڑکی میلے میں گم ہو جائے اور نوسرباز اسے گھر پہنچانے کی آس دلاکر اپنے ساتھ لے جائیں۔ اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد اسے آگے سے آگے بیچتے جائیں اور لڑکی بیچاری ہر سودے کو اپنے گھر جانے کے لیے ٹکٹ کے پیسے ہی سمجھے۔ پاکستان سے لے کر کھانے اور اس کے نام پر بڑے ہونے والے بیشتر افراد خواہ وہ جاگیردار ہوں، سیاست دان ہوں، بیوروکریٹ ہوں، جج ہوں، دانشور ہوں یا فوجی ڈکٹیٹر، انہوں نے زندہ پاکستانیوں کو چلتی پھرتی لاشوں میں ہی تبدیل کیا ہے مگر ان جھوٹے نعروں کے بیوپاریوں کو کبھی دھرتی ماں کی غیرت نہیں آئی۔ ایسے لوگوں کا حل انقلابِ فرانس ہی ہے لیکن جو غیرت سے نہیں مرتے وہ گولی سے بھی نہیں مرتے۔

تبصرے بند ہیں.