پی ڈی ایم کیا کرسکتا ہے؟

17

کھیلوں گا اور نہ ہی کھیلنے دوں گا کی رٹ لگانے والے پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان کے ایک نئے یوٹرن نے اپوزیشن سمیت خود پی ٹی آئی کے کارکنوں کو بھی ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا ہے ۔ایسے میں اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی ، سو پیاز بھی کھائے اور یا پھر لوٹ کے بدھو گھر کو آئے، کس محاورے کا اطلاق انکے اس اقدام پر ہوتا ہے ؟ یقینا غور طلب سوا ل ہے ۔میرے خیال میں ان میں سے تینوں محاورے کسی نہ کسی طور ان کے اس اشارے پر پورا اُترتے ہیں جو انہوں نے قومی اسمبلی میں دوبارہ جانے کے حوالے سے دیا ہے۔ایسے میں پنجاب اسمبلی کو توڑ کر پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ ایسی ختم کی کہ خود پرویزالٰہی کو کہنا پڑ گیا کہ عمران خان نے اسمبلی ایسے توڑی کہ کسی کے گھر والوں کو بھی پتا نہیں چلا۔گو انہوں نے یہ بیان وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ پر طنزکے نشتر پھینکتے ہوئے دیا تاہم عمران خان نے پنجاب اسمبلی توڑ کر اور خیبر پختونخوا کو اسی طرح کے انجام سے دوچار کرنے کے ارادے کا اظہار کرکے ، خود پرویز الٰہی اور اپنے ساتھیوں کو ایک بڑا جھٹکا دیا ہے ۔وہ پرویز الٰہی کو مسلم لیگ (ق) پاکستان تحریک انصاف میں ضم کرنے کا مشورہ دیگر انکی رہی سہی سیاست کوبھی دیوار سے لگانے کی تمام تیاری مکمل کرچکے ہیں۔ اگر عمران خان قومی اسمبلی میں چلے جاتے ہیں توپی ٹی آئی قومی دھارے کی سیاست میں ایک بار پھر شامل ہوجائے گی یعنی قومی اسمبلی میں عمران خان اور انکی جماعت بھرپور پارلیمانی کردار ادا کرے گی ۔دوسرے لفظوں میں وہ جان چکے ہیں ان کے پاس آخری آپشن قومی اسمبلی میں جانے کا ہی ہے ورنہ قومی اسمبلی مدت بھی پوری کرے گی اور الیکشن بھی وقت پر ہی ہوں گے۔بطور اپوزیشن لیڈر انہیں بہت سی ایسی سرکاری سہولیات بھی فراہم ہونگی جن کی بنیاد پر شاید حکومت انہیں مختلف مقدمات میں جلد گرفتار نہ کرسکے۔
ویسے اگر خان صاحب نے ایسا ہی کرنا تھا تو سڑکوں پر احتجاجی سیاست کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ لانگ مارچ اور اسلام آباد کا گھیراﺅ کرنے اور پاکستانی قوم کو کئی ماہ تک ہیجانی کیفیت میں مبتلا رکھنے کی ناکام ترین سیاسی حکمت عملی اپنا کر انہوں نے کیا حاصل کیا۔ان کی اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ایک کہانی ذہن میں آرہی ہے کہ راجستھان کے مہاراج پور میں ایک تاجر تھا رامنا وہ اونٹوں پر سامان لاد کر دوسرے شہروں میں لے جاتا، وہاں فروخت کرتا۔ اچھا خاصا منافع حاصل ہوتا۔ یہ سلسلہ کئی برسوں تک جاری رہا۔ سفر اکثر ہی رات کو کیا جاتا۔ اونٹ سدھے ہوئے تھے۔ تمام رات چل کر وہ دوسرے شہر پہنچ جاتا۔ رامنا شہر کے باہر کھلے میدان میں ڈیرا ڈالتا۔ سویرے کی ضروریات سے فارغ ہو کر ناشتہ کرتا اور پھر سامان
تجارت لے کر ہاٹ پہنچ جاتا۔ اونٹ آرام کرتا۔ تمام دن ہاٹ میں مصروف رہ کر وہ اپنے اونٹوں سمیت ڈیرے لوٹتا۔ کھانا کھاتا اور واپسی کے سفر کے لئے تیار ہو جاتا ۔ایک مرتبہ رامنا متھرا جانے کے لئے نکلا۔ قافلہ میں دس اونٹ تھے۔ اونٹ ادھر ادھرنہ نکل جائیں اس لئے انہیں ایک دوسرے سے اس طرح باندھا گیا کہ قطار کے پہلے اونٹ کی دم سے دوسرے اونٹ کی دم میں رسی، دوسرے کی دم سے تیسرے اونٹ کی دم میں رسی۔ اس طرح پہلے اونٹ سے آخری اونٹ تک اونٹ ایک دوسرے سے بندھے ہوئے تھے۔ سب اونٹوں کے ساتھ ان کے ساربان تھے۔ قافلہ چل پڑا۔ اونٹوں پر ساربان بیٹھ گئے۔ اونگھنے لگے۔ رامنا بھی اونگھنے لگا۔ آہستہ آہستہ سب سو گئے۔ اونٹ چلتے رہے۔ مہاراج پور سے دو میل آگے جانے کے بعد پہلے اونٹ کو سڑک کی دونوں طرف بیر سے لدے پیڑ نظر آئے۔ بیر کی خوشبو نے اسے بیتاب کر دیا۔ وہ بیر اور پتیاں کھانے لگا۔ پیڑوں کے تنے گول تھے۔ پہلا اونٹ بیر کھاتے کھاتے گھومتا گیا۔ دوسرے اونٹ اس کے پیچھے تھے۔ پیڑ کی گولائی میں بیر کھاتے کھاتے پہلے اونٹ کا رخ مہاراج پور کی طرف ہوگیا۔ دوسرے اونٹ چونکے بندھے ہوئے تھے اس لئے بیر کھاتے کھاتے وہ بھی گولائی میں گھومے اور مہاراج پور کی طرف چلنے لگے۔ سواروں کو پتہ ہی نہیں چلا کسی کی آنکھ کھلی بھی تو اونٹوں کو چلتے دیکھ وہ پھر آرام سے سو گیا۔ سویرا ہوا۔ رامنا کی آنکھ کھلی تو اونٹ مہاراج پور میں داخل ہو رہے تھے۔ وہ ہکا بکا رہ گیا۔ اس کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ غلطی کس کی ہے؟ اس نے اونٹوں کو ایک دوسرے سے باندھ کر غلطی کی یا اونٹوں نے بیر کھانے میں راستے کا دھیان نہ رکھ کر غلطی کی؟ خیر غلطی کس کی تھی یہ جانے بغیر اصل قصہ کی طرف لوٹتے ہیں۔آنکھ موند اور کان بند کرکے محض عمران خا ن کی مدح سرائی کے رسیا بعض سیاسی جگادر جو پہلے عمران خان کی لائن پر لانگ مارچ ،پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک جس میں عمران خان پر مبینہ قاتلانہ حملہ بھی ہوا اور قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے اورپی ٹی آئی کے زیر اثر پنجاب اسمبلی اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کو توڑنے کے عمل کو ملک میں جلد الیکشن کرانے کے لئے ناگزیر بتارہے تھے، عمران خان کی جانب سے اب قومی اسمبلی میں دوبارہ جانے کے عمل کو قوم کے سامنے خان صاحب کی بہترین سیاسی حکمت عملی ثابت کرنے کے ایڑی چوڑی کا زور لگار ہے ہیں۔ان کے لیے خان صاحب کا ہر یوٹرن گویاسیاسی حکمت و دانائی کا کوئی نیا منبع ہے۔
ان کا خیال ہے کہ یوں عمران خان قومی اسمبلی میں پہنچ کر وزیر اعظم شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے دباﺅ ڈالیں گے، جسکے لیے حکومت سے نالاں ایم کیو ایم بھی کسی سٹیج پر انکی حمایت کرسکتی ہے۔جاننے والے جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم تب تک پی ٹی آئی کی حمایت نہیں کرے گی جب تک اسے وہاں سے اشارہ نہیں ملتا جہاں سے اسے چلایا جارہا ہے اور جن کے کہنے پر ایم کیو ایم کے تمام دھڑے اکھٹے ہوئے ہیں۔
ویسے ایسے میں پی ڈی ایم کے پاس یہ آپشن تو ضرور موجود ہے کہ پہلے نہ سہی اب وہ پی ٹی آئی اراکین کے قومی اسمبلی میں دیے گئے استعفیٰ منظور کرکے ایسے کسی بھی دباﺅ میں آئے بغیر چلتا کرے اور اسمبلی کی مدت کو پوری کرے۔ پی ٹی آئی سمیت سابقہ حکومتوں میں لیے گئے قرض میں ملکی معیشت کو عملی طور پر آئی ایم ایف کے پاس گروی بنا چھوڑا ہے۔ ناقابل برداشت مہنگائی اور یوٹیلٹی بلز میں ہوشربا اضافہ نے عوام کے ہوش اُڑا کر رکھ دیے ہیں۔تار پر اگر آپ گیلے کپڑے ڈالتے ہی چلے جائیں گے تو ایک وقت آئے گا جب یہ تار ٹوٹ جائے گا۔ جو اربابِ اختیار یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جوکچھ مرضی چاہیں گے، کرلیں گے عوام باہر نہیں نکلیں گے ، وہ یقینا کسی بڑے مغالطے میں ہیں ۔ کوئی ایک واقعہ بھی عوام کے غیض و غضب کا باعث بن سکتا ہے ۔ اگر ایسا ہوا تو پھر انتشار و ابتری کا ایک خوفناک سلسلہ شروع ہوسکتا ہے ۔

تبصرے بند ہیں.