سندھ کے شہر کراچی و حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات میں قومی الیکشن یا عام صوبائی انتخابات کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ کراچی منی پاکستان کہلاتا ہے آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی 3 کروڑ سے متجاوز ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی معیشت کا مرکز و محور بھی ہے۔ ٹیکس ادائیگیوں کے حوالے سے بھی شہر کراچی سب سے بڑا کہلاتا ہے۔ یہاں پاکستان کی سب سے زیادہ قومیتیں بستی ہیں۔ اس حوالے سے یہ کاسموپولیٹن شہر کہلاتا ہے یہاں کے باسی اپنی سیاسی مہم اور فراست کے حوالے سے بھی قائدانہ کردار کے حامل مانے اور جانے جاتے ہیں۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو دیکھتے ہوئے آنے والے دنوں میں ہونے والے صوبائی و قومی انتخابات کا موڈ اور نتیجہ دیکھا جاسکتا ہے۔
آمدہ نتائج کے مطابق کراچی اور حیدرآباد میں پی ٹی آئی عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے جبکہ جماعت اسلامی نے ”شاندار کارکردگی“ کے ذریعے بہترین واپسی یعنی ”کم بیک“ کیا ہے۔ ایم کیو ایم بائیکاٹ پر تھی اس لئے ان کی عوامی پذیرائی پر بات کرنا درست نہیں ہے۔ زیربحث بلدیاتی انتخابات کا سیکنڈ راﺅنڈ بڑی مشکل سے منعقد ہو پایا ہے پیپلز پارٹی انتخابات کرانے کے لئے ہرگز تیار نہیں تھی۔ ایم کیو ایم کو ووٹر لسٹوں پر اعتراض تھا پی ٹی آئی چیف الیکشن کمشنر کو جانب دار قرار دیتی تھی لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان طے شدہ شیڈول کے مطابق الیکشن کرانے پر تلا بیٹھا تھا انتظامی و قانونی جنگ و جدل کے بعد بالآخر انتخابات منعقد ہو گئے۔ دو جماعتیں یہ الیکشن جیت گئیں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی فاتح بن کر سامنے آئی ہیں جبکہ پی ٹی آئی بری طرح شکست کھا چکی ہے ایم کیو ایم نے فی الوقت اپنی شکست کو بائیکاٹ کے پردے میں چھپا لیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جیتنے اور ہارنے والے دونوں گروہ الیکشن نتائج سے مطمئن نہیں ہیں۔ دونوں دھاندلی کی باتیں کر رہے ہیں۔
جہاں تک تعلق ہے پی ٹی آئی کا اس کا انتخابی نتائج اور طریق کار پر اعتراض تو روٹین کی کارروائی نظر آتی ہے وہ تو ایک عرصے سے بلکہ طویل عرصے سے تصادم اور افتراق و تفریق کی پالیسی پر عمل پیرا ہے الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد ان کی اسی پالیسی کا مرکزی نقطہ ہے۔ انہوں نے تو قومی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے بھی اپنی پالیسی بیان کر دی ہے عمران خان کہہ چکے ہیں کہ وہ اس وقت تک حکومت میں آنا قبول نہیں کریں گے جب تک انہیں دوتہائی اکثریت نہیں مل جاتی ہے گویا وہ انتخابی نتائج کو اس وقت تک تسلیم نہیں کریں گے جب تک انہیں دوتہائی اکثریت نہیں ملتی۔ گویا دھاندلی کا شور مچانے کا آپشن تحریک انصاف کی حکمت عملی کا حصہ ہے اگر وہ جیت
جائیں تو سب کچھ ٹھیک لیکن اگر انہیں عوام ٹھکرا دیں تو دھاندلی کا شور مچایا جائے۔ عمران خان کی سیاست کا ریکارڈ ان کی اس پالیسی پر دلالت کرتا ہے اور وہ اسی پالیسی پر عمل پیرا رہنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی الیکشن کمیشن کی صفائی بھی پیش کر رہی ہے انتخابی عمل پر اطمینان کا اظہار بھی کر رہی ہے اور نتائج کی تاخیر پر انتخابی عمل بارے شکوک و شبہات کا اظہار بھی کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی پیپلز پارٹی پر ان کی واضح لیکن سادہ اکثریت کو تبدیل کرنے کا الزام لگا رہی ہے۔ جی ڈی اے بھی انتخابی نتائج پر مطمئن نظر نہیں آ رہی ہے اور وہ انتخابی عمل پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہی ہے جبکہ جمعیت علما اسلام بھی کچھ ایسا ہی کہہ رہی ہے اور پیپلز پارٹی کے طرز عمل پر شاکی ہے۔ ایسے ماحول کا کیا کہا جا سکتا ہے جس میں ہر کوئی نتائج ماننے کے لئے تیار نظر نہیں آ رہا ہے۔ اس مبینہ دھاندلی کا الزام پیپلز پارٹی پر عائد کیا جا رہا ہے جبکہ آر او آفس کو اس دھاندلی میں شراکت دار کہا جا رہا ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے نتائج نے کچھ تاریخی حقائق ظاہر کر دیئے ہیں۔ کراچی و حیدرآباد میں جماعت اسلامی اور جمعیت علما پاکستان کی اکثریت کو تتر بتر کرنے کے لئے ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ایم کیو ایم تخلیق کی پھر ایم کیو ایم کا دھڑن تختہ کرنے کے لئے یہاں پی ٹی آئی کو نمائندگی دلائی گئی۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ پہلے جے یو پی کو ختم کرنے میں تو کامیاب ہو گئی لیکن جماعت اسلامی لوہے کا چنا ثابت ہوئی۔ ان بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ کراچی کے عوام نے جماعت اسلامی کو اپنا حق نمائندگی ایک بار پھر دے دیا ہے جماعت کی کارکردگی کے حوالے سے عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کا دورِ میئر شپ یادگار کارکردگی کا حامل شمار کیا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم تتر بتر ہوتی نظر آ رہی ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق کردہ پی ٹی آئی کا بھی یہاں صفایا ہو گیا ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی تخلیقات بشمول ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی نے شہر کراچی کو نہ صرف تباہ و برباد کرنے میں کردار ادا کیا بلکہ کراچی کے عوام کا مینڈیٹ بھی ہائی جیک کئے رکھا۔ اب جبکہ انہیں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کی آزادی ملی تو انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق کردہ جماعتوں کو رد کر کے اپنی من پسند جماعتوں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کو حق نمائندگی سے سرفراز فرمایا ہے۔
ایسے لگ رہا ہے کہ جماعت اسلامی کراچی اور پیپلز پارٹی حیدرآباد کی میئرشپس حاصل کر لیں گی۔ کراچی کا میئر مخلوط انداز میں چنا جائے گا۔ یعنی پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی مل کر ہی کراچی کے میئر کا انتخاب کر سکیں گی گویا آنے والے دنوں میں کراچی شہر کے عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور شہر کی تعمیروترقی کے کام کا آغاز احسن طریقے سے ہو سکے گا۔ جبکہ حیدرآباد کا میئر خالصتاً پیپلز پارٹی کا ہو گا۔ یہ ایک ایسا منظرنامہ ہے جو آنے والے وقت کے سیاسی منظرنامے کا منی ایچر ثابت ہو سکتا ہے۔
ہاں ایک انتہائی اہم بات: یہ بات طے ہو چکی ہے کہ کراچی ایک تباہ حال شہر ہے اسے کبھی روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ آج وہ بربادی کا منظر پیش کر رہا ہے ایم کیو ایم نے اس شہر کو تباہ و برباد کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہماری اسٹیبلشمنٹ نے اس جماعت کو تخلیق کیا اس کی پرورش کی اور اسے دیو بنانے میں مدد کی پھر یہ جماعت کراچی کو خون میں نہلا گئی پھر اسے ختم کرنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے کاوشیں کیں پی ٹی آئی کو یہاں کھڑا کیا لیکن وہ بھی شہر کو دوبارہ روشنیوں کا شہر نہیں بنا سکے۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سیاسی انجینئرنگ کسی طور بھی قومی مفاد میں نہیں ہے۔ پاکستان معاشی اور سیاسی اعتبار سے آج جس مقام پر کھڑا ہے اس کی کلیدی وجہ پولیٹیکل انجینئرنگ اور اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیاں ہیں اب ہماری اسٹیبلشمنٹ سیاست سے توبہ کا اعلان کر چکی ہے تو عوام اپنے فیصلے خود کرنے لگے ہیں اور بہتری کی فضا نمودار ہونے لگی ہے یہ ایک خوش آئند مستقبل کی نوید ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.