انگریزی ادب میں ایک نئے رجحان کی تخلیق کرنے والے مشہور شاعر ولیم وڈزورتھ نے 1978 میں اپنی شہرہ آفاق نظم we are seven لکھی جو زندگی اور موت کے درمیانی فاصلے کا احاطہ کرتی ہے۔ اس میں شاعر کا گزر ایک ایسے گاؤں کے پاس سے ہوتا ہے جس سے ملحقہ ایک قبرستان ہے جس کے قریب ہی جھونپڑی میں ایک آٹھ سالہ بچی اپنے کنبے کے ساتھ رہتی ہے۔ وہ بچی سے پوچھتا ہے کہ آپ کتنے بہن بھائی ہیں وہ کہتی ہے کہ we are seven یعنی ہم سات ہیں۔ شاعر کہتا ہے کے گنتی کر کے بتاؤ، بچی کہتی ہے، ان میں سے دو تو سمندر میں گئے ہوئے ہیں اور دو قریبی گاؤں ہی رہتے ہیں جبکہ ایک بہن اور ایک بھائی ہماری جھونپڑی کے پاس ہی دو قبروں میں دفن ہیں وہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔ شاعر کو بچی کی بات چونکا دیتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ جو مر چکے ہیں ان کو کیوں اپنے میں شمار کرتی ہو۔ بچی بہت معصوم ہے جسے زندگی اور موت کے مابین فرق کا شعور نہیں وہ اصرار کرتی ہے کہ ہم سات ہیں کیونکہ میں روزانہ ان کی قبروں پر جا کر وہاں کھیلتی ہوں وہاں بیٹھ کر سویٹر بنتی ہوں ان کو گانے سناتی ہوں اس لیے پھر وہ مردہ مردہ کیسے ہو گئے وہ زندہ ہیں اور ہمارے ساتھ ہیں اس نظم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اگر مرنے والے آپ کے دلوں میں زندہ ہیں تو پھر مرتے نہیں بلکہ زندہ رہتے ہیں۔ اس کے برعکس آپ کے وہ رشتے جو زندہ ہیں مگر لا تعلقی کی وجہ سے آپ سے کچھ علاقہ نہیں رکھتے تو وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی مر چکے ہیں۔
وڈزورتھ کی یہ نظم یوں لگتا ہے جیسے ہمارے لیے لکھی گئی ہے۔ نئے سال کا پہلا تیر ہمیں اپنی اکلوتی بہن کی بے وقت موت کی صورت لگا ہے یہ ایک خنجر کی طرح دل میں اتر گیا ہے ایک عجیب کشمکش کا عالم ہے۔ جینے اور مرنے پر انسان کا اختیار ممکن ہوتا تو تم یا تو اپنے مرنے والوں کو روک لیتے یا پھر ان کے ساتھ ہی مر جاتے مگر قدرت کے
نظام میں یہ دونوں صورتیں ناممکن میں لہٰذا ہر انسان اپنی مدت پوری کرنے پر مجبور ہے۔ بقول اقبال آسمان مجبور ہے شمس و قمر مجبور ہیں۔ گلشن طاہرہ عمر میں مجھ سے تین سال چھوٹی تھی لیکن اپنی فراست اچھائی اور سچائی میں اس کا درجہ بہت اوپر آتا ہے خلوص نیت، تحمل، صبر، استقامت اور برداشت میں اس کا کوئی مقابل نہیں تھا۔ ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک، محبت اور رواداری اس کے خون میں شامل تھی اور یہ وراثت اسے اپنی ماں سے منتقل ہوئی تھی۔ جہاں تک رشتوں کے ساتھ وفاداری اور نیاز مندی کی بات ہے تو اس نے عمر بھر مروت اور ایثار اور قربانی کو اپنا شعار بنائے رکھا اور مرتے دم تک ہر ایک کے ساتھ نیکی بھلائی اور حسن سلوک کو اپنی جان سے بڑھ کر سمجھا وہ اپنی پوری زندگی اپنے نام کی طرح باغ و بہار یعنی گلشن بھی تھی اور طاہرہ تھی۔
آج وہ اس عارضی دنیا کے سارے رشتے ناتے توڑ کر اور اپنے بچوں کو روتا چھوڑ کر جنت مکانی ہو گئی ہیں تو ان کو شاید اندازہ ہی نہیں ہے کہ ان کے پس ماندگان پر کیا گزری ہے اور ہمارا باقی ماندہ زندگی کا سفر کیسے کٹنا ہے۔ طاہرہ کی بائیو گرافی بہت لمبی ہے۔ میں اُس کی زندگی کے ایک ایک لمحے کا زندہ گواہ ہوں ہم نے بچپن سے شعور کی ماری منزلیں ساتھ ساتھ طے کی ہیں وہ بچپن سے ہی ہم پر جان قربان کرتی تھی اور یہ سلسلہ آخری سانس تک جاری رہا۔
گاؤں میں ہمارے والد صاحب کا آموں کا باغ تھا ہم گرمیوں کی چھٹیوں کی دوپہر اکثر وہاں مل کر جاتے تھے آج کے دور میں یہ افسانوی بات لگتی ہے مگر حقیقت ہے کہ ہم آم کے درختوں پر پینگ یا جھولے کا مزہ لیتے تھے۔ گاؤں سے پرائمری پاس کر کے ہمیں شہر میں پڑھنے کیلئے ماموں کے گھر بھیج دیا جاتا تھا فیصل آباد سول لائن کے علاقے میں علی گڑھ گرلز سکول میں میں اسے اکثر سائیکل پر بیٹھا کر چھوڑ نے جاتا تھا مجھے اس کا سکول یونیفارم اس کی پر اگریس رپورٹ حتیٰ کہ اس کی سہیلیوں اور ٹیچرز کے نام تک یاد ہیں۔ پھر ہم نے اس کی شادی کی جس دن وہ دلہن بن کر ہمارے گھر سے رخصت ہوتی تھی تو ہم سب بہت روئے تھے اس کے بعد اس کی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوا اللہ تعالیٰ نے اسے تین بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا۔ مال اور اولاد اللہ کی بہت بڑی نعمت ہوتی ہے اور یہ ساری نعمتیں اللہ نے اس پر تمام کر دیں مگر اس کے باوجود اس کی تربیت اور درویشی کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ نہایت سادہ زندگی بسر کی اور عاجزی و انکساری کو اپنا شعار بنایا۔ شادی کے بعد کسی بھی لڑکی کیلئے اپنا گھر اور اپنے بچے پہلی ترجیح ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنے میکے والوں پر اپنی جان نچھاور کر دیتی تھی اور کسی معمولی سے معمولی موقع پر بھی کر ایک کی چھوٹی سے چھوٹی خوشی یا غمی میں برابر سے بھی بڑھ کر شریک تھی۔ طمع لالچ خود غرضی یا اس طرح کی پھر منفی باتوں سے اس کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ اپنے وقار اور کردار میں اپنی ماں کی عملی تصویر یا ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی تھی۔وہ گزشتہ ایک سال سے جگر کے سرطان جیسے موذی مرض میں مبتلا تھی اور زندگی اور موت کی اس کشمکش میں آخری سانس تک جنگ کرتی رہی اس عرصہ میں اپنے بڑے بیٹے اسامہ کی شادی بھی کی اور ایک ایک بچے ایک بچے کے کالج یونیورسٹی کے داخلوں کے بارے میں ہر طرح کی فیصلہ سازی کی جب بچوں کے مستقبل کی بات آتی تھی تو وہ اپنی بیماری کو بھول جاتی تھی حال تو نام کی قربانی کا ہے۔ لیکن یہ اللہ کے فیصلے ہیں کہ ان کی فیملی اور بچوں کو جب ان کی بہت زیادہ ضرورت تھی تو اُسے اللہ نے اپنے پاس واپس بلا لیا:
تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں
تو جدا ایسے موسموں میں ہوا
گلشن طاہرہ کو ہم نے آج دوسری بار رخصت کیا ہے پہلی دفعہ وہ ہمارے گھر سے رخصت ہوئی تھی جب اس کی ڈولی اٹھی تھی اب وہ اس دنیا سے بھی رحمت ہو گئی یہ جدائی دائمی اور مستقل ہے اب اگلی ملاقات کیلئے ہمیں قیامت تک کا انتظار کرنا پڑے گا مرزا غالب نے کہا تھا کہ
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
تبصرے بند ہیں.