وقت کی اہم ضرورت

14

پروفیسر جے پی چودھری ماہر سیاسیات ہونے کے ساتھ ساتھ معاشیات اور امن و امان کی صورت حال پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام پر بھی خاصی دسترس کے حامل انسان ہیں وہ ایک جگہ یوں رقمطراز ہیں۔ ”اِس وقت سرمایہ دارانہ نظام عالمی سامراجیَت سے آگے بڑھ کر عالمی ہائپر سامراجیَت (GLOBAL HYPER IMPERIALISM)، عالمی باؤلی سامراجیَت ((GLOBAL RABID IMPERIALISM اور عالمی پاگل سامراجیَت (Global Mad Imperialism) کی منزل میں داخل ہوکر اپنی معاشی، اقتصادی، مالی اور مالیاتی سَیرا بیت کے آخری نقطہ امتلا (THE LAST POINT OF SATURATION) کو چھو رہا ہے۔ لہٰذا یہ اپنے آخری نکتہ عروج پر پہنچ کر اپنے شدید اندرونی معاشی، اقتصادی، مالی و مالیاتی تضادات کے باعث شکست و ریخت سے دوچار ہونے والا ہے۔ اَب سائنسی طور پر آگے عالمی انقلاب کا مرحلہ ہے۔ بڑی اور بڑی ہی حیرت کی بات یہ ہے کہ اِس وقت عالمی انقلاب کے لیے سارے معروضی اور موضوعی شرائط اور حالات مکمل ہو چکے ہیں۔ سو اب دنیا کی کوئی طاقت اِس کرہ ارض پر عالمی انقلاب اور خدا کی لاطبقاتی آسمانی بادشاہت کے قیام کو کسی بھی طرح سے نہیں روک سکتی“۔
من حیث القوم ہمارے اندر افسر شاہی، پروٹوکول، طبقاتی تقسیم، ہیپوکریسی اور بیورکریسی رویے کا ایسا جراثیم جنم لے چکا ہے جس کا تدارک اس باسی جمہوریت کے دور میں ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا اور نہ اس جراثیم کے مرنے کی کوئی قوی امید ہے۔ ہر خاص و عام کی یہ خواہش ہے کہ ان کے پاس بے بہا اختیارات ہوں اور وہ اس کے بے جا استعمال سے اپنے آپ کو منوائے اور اپنے ہونے کا ثبوت دے۔ پاکستان کا ہر بیوروکریٹ، سیاستدان، جرنیل اور جج یہ بات بھول چکا ہے کہ اس کے فرائض کیا ہے؟ اور جس مقصد کے لیے اسے جس مسند پر بٹھایا گیا ہے اس کا مقصد کیا ہے؟ اس کی حدود و قیود کیا ہیں؟ اس کے
اغراض و مقاصد کیا ہیں؟ عوام کے مسائل کیا ہیں اور یہ ملک کس لیے بنایا گیا ہے؟ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ان لوگوں کو اتنا معلوم نہیں کہ ان کا اس کائنات میں ظہور پذیر ہونے کا اور ان عہدوں پر بیٹھنے کا مقصد کیا ہے؟ یہ لوگ اس ذوق سے بھی محروم ہو چکے ہیں کہ انہیں روشنی اور تیرگی میں فرق کیا ہے؟ پچھتر سال کے طویل عرصہ کی کوئی ایک دہائی اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ کہیں آپ کو انسانیت سے محبت، ملک سے الفت، فرائض سے آگاہی، خود سے آگہی، عوام سے رغبت، غلامی سے آزادی کا اور ترقی کا کوئی جذبہ نظر نہیں آئے گا۔ ملک کی دیواروں تک کو چاٹنے کے ہزاروں کیس سامنے آئیں گے۔ مگر ایک بات یاد رکھیے گا جب بلب فیوز ہو جائے تو اسے روشنی کی قدر و قیمت کے ساتھ ساتھ اپنی وقعت کا اندازہ بھی اسی وقت ہوتا ہے مگر اس پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور ہر چیز آپ کے ہاتھ سے نکل چکی ہوتی ہے۔
ایک ہاو¿سنگ سوسائٹی میں رہائش کے لیے ایک بڑا افسر آیا، جو تازہ تازہ ریٹائر ہوا تھا یہ بوڑھا بڑا ریٹائرڈ افسر حیران اور پریشان، ہر شام سوسائٹی پارک میں گھومتا، دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا اور کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ ایک دن وہ شام کے وقت ایک بزرگ کے پاس باتیں کرنے کے لیے بیٹھ گیا اور پھر اس کے ساتھ تقریباً روزانہ بیٹھنے لگا۔ اس کی گفتگو کا ہمیشہ ایک ہی موضوع رہتا تھا۔ ”میں اتنا بڑا افسر تھا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا اور نہ پوچھ سکتا ہے، یہاں میں مجبوری وغیرہ میں آیا ہوں“۔ اور وہ بزرگ اس کی باتیں سکون سے سنتے تھے۔
ایک دن جب ”ریٹائرڈ“ افسر نے دوسرے ساتھی کے بارے میں کچھ جاننے کی خواہش کی تو اس بزرگ نے بڑی انکساری کے ساتھ اسے جواب دے کر دانشمندی کی بات بتائی۔ اس نے وضاحت کی: ”ریٹائرمنٹ کے بعد ہم سب فیوز بلب کی طرح ہو جاتے ہیں اس کی اب کوئی اہمیت نہیں رہتی کہ یہ بلب کتنی وولٹج کا تھا، کتنی روشنی اور چمک دیتا تھا، فیوز ہونے کے بعد اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے جاری رکھتے ہوئے کہا ”میں گزشتہ 5 سال سے سوسائٹی میں رہ رہا ہوں اور کسی کو یہ نہیں بتایا کہ میں دو بار پارلیمنٹ کا ممبر رہا ہوں۔ یہاں ایک اور صاحب ہیں وہ ریلوے کے جنرل منیجر تھے، یہاں فلاں صاحب ہیں فوج میں بریگیڈیئر تھے، پھر وہ سامنے والے صاحب ہیں جو ایک کمپنی کے کنٹری ہیڈ تھے، انہوں نے یہ باتیں کسی کو نہیں بتائیں، حتیٰ کہ مجھے بھی نہیں لیکن ہم سب جانتے ہیں“۔ فیوز کے تمام بلب اب ایک جیسے ہیں۔ چاہے وہ صفر واٹ، 40، 60، 100 واٹ، ہیلوجن ہو یا فلڈ لائٹ کے ہوں، اب کوئی روشنی نہیں دیتا اور بے فائدہ ہیں اور ہاں اس بات کی آپ کو جس دن سمجھ آ جائے گی، آپ معاشرے میں سکون سے زندگی گزار سکیں گے۔ ہمارے ہاں طلوع اور غروب آفتاب کو یکساں احترام دیا جاتا ہے، لیکن اصل زندگی میں ہم طلوع آفتاب کی قدر زیادہ کرتے ہیں جتنی جلدی ہم اس کو سمجھیں گے اتنا جلد ہی ہماری زندگی آسان ہو جائے گی۔
لہٰذا فیوز بلب ہونے سے پہلے…. جتنی بھی خیر کی زیادہ سے زیادہ روشنی پھیلا سکتے ہو…. پھیلا دو…. تا کہ کل کو جب اندھیرے کمرے میں جاؤ…. تو یہی روشنی کام آئے…. ورنہ جانا تو ہے…. اس سے پہلے کہ آپ جائیں یا آپ فیوز ہو جائیں۔ اپنے حقوق کو جانئے۔ اپنے فرائض کو پہچانئے۔ اپنے ملک کا حق ادا کیجئے۔ اپنے بزرگوں اور پرکھوں کی قربانیوں کی تجدید کیجئے۔ اپنے دین کو بچایئے۔ اپنی عوام کی فلاح و بہبود کا سوچئے۔ حالات کی سنگینی کو جانئے۔اپنے نفس کو پہچانئے اور اپنی خودی کی لاج رکھیے۔ یہی ہمارے عہدوں کا نصب العین ہے اور یہی ہماری ذمہ داریوں کا حق بھی ہے۔یہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

تبصرے بند ہیں.