بڑا سرپرائز ، اسمبلیاں تحلیل

25

9 ماہ بعد مسلم لیگ ن پنجاب کا قلعہ فتح کرنے نکلی لیکن پھر ناکام ہو گئی چودھری پرویز الٰہی نے 11 جنوری کا دن گزرتے ہی 12 جنوری کی رات کو پنجاب اسمبلی سے پُر اسرار طور پر اعتماد کا ووٹ لے لیا۔ ن لیگ والے حساب لگاتے رہ گئے۔ 3 ارکان ملک سے باہر تھے۔ 5 نے ووٹ نہیں دینے، ایک آزاد رکن سمیت حامی ارکان کی تعداد 191 تھی 8 مائنس ہوئے تو 183 رہ گئے 3 کون تھے جنہوں نے ووٹ دے کر تعداد 186 کر دی، گنتی کے وقت ن لیگ کا کوئی ایجنٹ بھی موجود نہیں تھا۔ اس سوال کا جواب غالب کو بھی نہیں ملا تھا۔ انہوں نے اضطراری حالت میں پوچھا تھا ”پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق، آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا“۔ یہاں بھی ن لیگ رانا ثنا اللہ کی قیادت میں خیمہ زن رہی ایوان میں ن لیگ کے ارکان گنتی کے وقت دروازے توڑ کر واک آو¿ٹ کر گئے۔ چودھری پرویز الٰہی کو واک اوور مل گیا، اعتماد کا ووٹ لیتے ہی وزیر اعلیٰ زمان پارک پہنچے، کپتان نے ان کے دستخط شدہ پیپر پر 12 جنوری کی تاریخ ڈالی اور اوور رائٹنگ کی پروا کیے بغیر پنجاب اسمبلی تحلیل کر دی، تحلیل کا اعلان فواد چودھری نے کیا۔ خود کپتان اور پرویز الٰہی خاموش رہے، ایک چودھری نے اعلان کر دیا کافی ہے۔ ہفتہ کو خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل ہو گئی۔ کپتان نے قلعہ فتح کر لیا۔ ن لیگ کی جھولی ڈولی خالی، اعظم نذیر تارڑ نے کس زعم میں کہا تھا چودھری پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ لیا تو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔ پتا نہیں کیا کریں گے۔ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ پنجاب ن لیگ کو سونپ کر ہی اسلام آباد واپس جاو¿ں گا۔ خالی جھولی واپس چلے گئے البتہ جاتے جاتے کہہ گئے کہ پنجاب کے عوام کو ڈاکو راج سے نجات مل گئی۔ جو ہونا تھا ہو گیا ایسے حالات میں یہی کچھ ہوا کرتا ہے مگر وہ پندرہ یا سترہ باغی ارکان کہاں گئے جہانگیر ترین، علیم خان، چودھری سرور کہاں رہ گئے، باغیوں کو راہ راست پر لانے کے لیے کس نے مجبور کیا۔ مجبور کرنے والے تو نیوٹرل ہو چکے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کسی کو کوئی کال نہیں آئی پھر یہ سب کیسے ہو گیا۔ ایوان میں پورا دن اور رات گئے تک موجود ایک رپورٹر نے بتایا کہ ق لیگ کے ارکان کو چودھری پرویز الٰہی نے یقین دہانی کرائی کہ اعتماد کا ووٹ لے کر اسمبلی نہیں توڑوں گا پی ٹی آئی کے چند ارکان کو بھی یہی بتایا گیا انہوں نے بھی اسی شرط پر ووٹ دیے پھر اسمبلی کیسے ٹوٹ گئی۔ وزیر اعلیٰ نے وعدے کے مطابق نہیں توڑی تو کس نے توڑی۔ ”اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا، اسمبلی کاہے کی ہے خواب ہے دیوانے کا“ چودھری پرویز الٰہی کی تو ساری مقبولیت ترقیاتی منصوبوں پر کھڑی ہے۔ اسمبلی تحلیل ہو گئی تو ساری مقبولیت ریت کی دیوار ثابت ہو گی شاید چودھری صاحب نے کپتان کی بات نہیں سنی کہ ہم آئندہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوں گے تاکہ اتحادیوں کی ضرورت نہ پڑے، ایسی صورت میں دس سیٹوں والے چودھری صاحب کو کون پوچھے گا۔ چودھری پرویز الٰہی دوستوں کی منافقت کا شکار ہو گئے۔ قرین قیاس ہے کہ انہوں نے ایک آدھ مہینہ پہلے کسی بھنک یا یقین دہانی پر اسمبلی تحلیل کرنے کی تحریر دے دی تھی کپتان نے وہ کاغذ سنبھال کر رکھ لیا اور 13 جنوری کو اسی پر تاریخ بدل کر اسمبلی تحلیل کر دی۔ چودھری پرویز الٰہی کو کیا ملا؟ کیا کپتان انہیں 15 اور 25 نشستیں دے دیں گے۔ ان کا تو مطالبہ تھا کہ ق لیگ اتنی نشستوں پر بلے کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑے کیا ق لیگ کے بچے کھچے دس ارکان اپنی شناخت کھو کر گمنام کنویں میں چھلانگ لگانا گوارا کریں گے، سیانے کہتے ہیں ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ اگر کپتان کو قائد اعظم ثانی قرار دینے والے چودھری پرویز الٰہی نے ایسا کیا تو وہ ساتھیوں کی حمایت سے محروم ہو کر تنہا رہ جائیں گے۔ اسمبلیوں
کی تحلیل کے بعد مسلم لیگ ن کیا کرے گی، پی ٹی آئی کا راستہ صاف ہے گزشتہ 8 ماہ سے ن لیگ پے در پے مشکلات کے باعث بیک فٹ پر کھیلنے کے لیے مجبور ہے۔ وفاقی حکومت شبانہ روز کوششوں کے باوجود مہنگائی میں پسے عوام کو اتنی مراعات نہیں دے سکی کہ وہ سکھ کا سانس لے سکیں خدشہ ہے کہ وہ آئندہ مہینوں میں بھی شاید ایسا نہ کر سکے، اس کے برعکس کپتان پر کوئی بوجھ نہیں انہیں اپنی نا اہلی یا کسی مقدمہ میں گرفتاری کے سوا کوئی خوف نہیں، زخمی ٹانگ کے ساتھ زمان پارک میں بیٹھے رہنے کے باوجود وہ دن میں تین تین اجلاس کر رہے ہیں۔ آٹے کا حالیہ بحران بھی دو صوبوں میں سر چڑھ کر بولا ہے۔ جس کا الزام وفاق کی جانب سے گندم کی عدم فراہمی کی صورت میں لگا دیا گیا۔ وفاقی حکومت آنکھیں کھولنے اور الزامات کا جواب دینے میں خاصی دیر لگ جاتی ہے۔ اس عرصہ میں کپتان کا بیانیہ عوام کے دل و دماغ میں سرایت کر چکا ہوتا ہے۔ کراچی سے لاہور، ملتان اور اسلام آباد کے سفر اور قیام کے دوران بیشتر لوگوں سے رابطہ ہوا وہ مہنگائی کا سارا بوجھ موجودہ حکومت پر ڈالتے اور مایوسی کا اظہار کرتے رہے، پونے چار سال کی مہنگائی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان حالات میں موجودہ حکومت نے پنگا کیوں لیا کپتان کو مدت پوری کرنے دیتے۔ لوگ جانے کیوں اس بیانیہ کو تسلیم نہیں کرتے کہ ن لیگ نے ریاست بچانے کے لیے اپنی سیاست قربان کر دی ہے۔ کپتان چومکھی لڑ رہے ہیں۔ پنجاب ان کا مضبوط قلعہ ہے خیبر پختونخوا پر دس سال سے قابض ہیں۔ پنجاب انہوں نے سابق ”مہربانوں اور دوستوں“ کی مدد سے ”دشمن“ سے چھینا ہے یہیں بیٹھ کر وہ دوبارہ اقتدار کے لیے ”جنگ“ لڑیں گے۔ اور آخر وقت تک ”بیانیوں“ کا خطرناک اسلحہ استعمال کرتے رہیں گے۔ ماضی میں بلاشبہ ان کے بیانیے ناکام ہوئے مسترد کیے گئے مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری، جانے انہیں کہاں سے سن گن ملی ہے کہ ان کے نام پر ریڈ لائن لگا دی گئی ہے اور مائنس ون کا فارمولا تیار کر لیا گیا ہے۔ ماضی میں اس قسم کے فارمولے بنانے والے خاموش ہیں۔ کپتان کو مشکل آن پڑی ہے کہ ”ہوئی ہے ٹانگ ہی زخمی نبرد عشق میں پہلے، نہ بھاگا جائے ہے ان سے نہ ٹھہرا جائے ہے ان سے“ مگر وہ زمان پارک کے ”مورچے“ میں بیٹھے تاک تاک کر نشانے لگا رہے ہیں۔ انہوں نے بڑے برہم انداز میں کہا کہ عوام ریڈ لائن مٹا دیں گے حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کپتان کے متعدد مقدمات زیر سماعت ہیں ان میں بیشتر مقدمات ایسے ہیں جن میں بادی النظر میں ریلیف ملنا مشکل ہے۔ سزاؤں کی صورت میں وہ الیکشن سے باہر ہو جائیں گے۔ توہین عدالت کے ایک مقدمہ میں تو الیکشن کمیشن نے ان کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری تک جاری کر دیے ہیں اور انہیں اسد عمر اور فواد چودھری کو پچاس پچاس ہزار کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ توشہ خانہ، فارن فنڈنگ، ٹیریان سمیت ایسے مقدمات کے فیصلے نا اہلی کی صورت میں متوقع ہیں لیکن ان کے وکلا عدالتوں سے لمبی تاریخوں کے حربے استعمال کر رہے ہیں اور لگتا ہے کہ نا اہلی اور پارٹی سربراہی سے محروم کیے جانے والے مقدمات کے فیصلے بھی عام انتخابات کے بعد ہی ہوں گے اور پی ٹی آئی کی کامیابی کی صورت میں ان مقدمات میں راوی سکھ چین ہی لکھے گا۔ جہاں تک عام انتخابات کا تعلق ہے جو سیاسی گند مفاداتی یا تجرباتی طور پر پھیلایا گیا تھا پونے چار سال بعد احساس ہونے پر سمیٹا جا رہا ہے یا سمیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ مکمل صفائی تک ملک میں عام انتخابات نہیں ہوں گے جو فوری انتخابات کے لیے تڑپ رہے تھے دن رات کروٹیں لے رہے تھے انہیں خبر دی جا چکی ہے کہ انتخابات ”وقت“ پر ہی ہوں گے۔ وقت کب آئے گا جب اللہ کو منظور ہو گا۔ سخت پیغام دیا گیا ہے رد عمل جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ صدر مملکت نے اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ مہینے ڈیڑھ مہینے سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ مذاکرات کے لیے مل بیٹھنے پر کوئی تیار نہیں ملاقات کے لیے وقت دینے سے مسلسل انکار جس ”سابق ملازم“ نے تجدید تعلقات کے لیے اپنی خدمات پیش کیں اس پر دروازے بند ”ریکارڈ بے عزتی“ ہوئی۔ دو بنیادی مسئلوں پر فوکس، دہشت گردی کا خاتمہ، معاشی بحالی کے لیے جدوجہد، اس کے بعد ہی انتخابات کی باری آئے گی، تاہم دو اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد کیا ہو گا۔ دونوں صوبوں میں نگراں حکومتیں قائم ہوں گی؟ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ وہ پنجاب میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز سے رابطہ کرے گی اور ان کی مشاورت سے نگراں حکومت قائم کی جائے گی۔ حمزہ شہباز ملک میں نہیں ہیں، ان سے مشاورت ممکن نہ ہوئی یا کامیاب نہ ہو سکی تو فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا نگراں حکومت کیا ان حالات میں دونوں صوبوں میں ضمنی الیکشن کرا سکے گی؟ مشکل سوال ہے اور اس کا جواب انتہائی مشکل ہے۔ پی ٹی آئی اس کے ساتھ ہی قومی اسمبلی سے استعفوں کا ڈول بھی ڈال رہی ہے اور پس پردہ اس کے عزائم یہی ہیں کہ آئندہ قومی بجٹ میں کھال کھینچنے والے ٹیکسوں اور مشکل فیصلوں کے اعلان کے ساتھ ہی عام انتخابات کا اعلان کر دیا جائے تاکہ اسے دو تہائی اکثریت مل سکے، لیکن لمحہ لمحہ بدلتی سیاسی صورتحال میں کیا ہو گا کیا ہو سکتا ہے اوپر سے نازل ہونے والے فیصلوں کا انتظار کرنا ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.