!….جاڑوں کے وہ دن

120

(گزشتہ سے پیوستہ)
ذکر ہو رہا تھا کہ ساٹھ پینسٹھ برس قبل پنڈی میں ملازمت کا آغاز ہوا تو اس وقت اور اس کے بعدبھی کئی برس تک گاؤں سے پنڈی اور پنڈی سے گاؤں جانے کے سفر میں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔خاص طور پر سردیوں کے موسم میں جب دریائے سواں کے یخ بستہ پانی میں سے پیدل گزرتے تو کتنی تکلیف ہوتی۔ پاؤں اور جسم کا جو حصہ پانی میں ڈوبا ہوتا سُن ہو جاتا۔ پھر پنڈی اور گاؤ ں کے درمیان چلنے والی لاری کا سفر بھی کچھ ایسا آرام دہ نہیں ہوتا تھا۔ ڈسٹرکٹ ٹرانسپورٹ سروس کی تیس پینتیس سیٹوں والی پرانے ماڈل کی اس لاری کا پنڈی میں اڈّہ گوالمنڈی میں تھا۔یہاں سے اسی ٹرانسپورٹ سروس کی کچھ اور لاریاں دوسرے مقامات تک بھی چلا کرتی تھیں۔ ہمارے والی لاری کا رُوٹ اگرچہ گاؤ ں تک کا تھا لیکن یہ گاؤں جانے کے بجائے دریا کے اِس طرف گاؤ ں سے تقریباً دو اڑھائی کلو میٹر کے فاصلے پر”رتی دند“ والی کھلی جگہ پر رُک جایا کرتی تھی۔ وہاں سواریاں اُتارنے کے بعد ڈرائیور صاحب اسے دو اڑھائی کلو میٹر پیچھے اپنے گاؤں لے آیا کرتے تھے جہاں یہ رات بھر کھڑی رہتی اور صبح ڈرائیور صاحب سواریوں کو لینے کے لئے”رتی دند“ والی جگہ (سٹاپ) پر لے جاتے۔ ڈرائیور صاحب پُرانے فوجی اور مزاج کے سخت تھے۔جلد غُصے میں آ جاتے اور سواریوں کے ساتھ اُن کا رویّہ کسی حد تک تُرش ہوتا۔
”رتی دند“کا ٹیلہ کئی برس تک اس لاری کا سٹاپ بنا رہا۔ یہ ٹیلہ اب بھی موجود ہے لیکن اتنا بڑا نہیں رہا کہ ہاؤسنگ سوسائٹی والوں نے اسے بلڈوزروں سے بڑی حد تک کھود اور کاٹ کر اس کی مٹی کو اِدھر اُدھر پھیلا دیا ہے۔ ”رتی دند“کا نام اسے اس کی سُرخی مائل مٹی کی وجہ سے مِلا ہوا تھا۔ اب شاید یہ نام اتنا معروف نہیں رہا۔ یہاں سے لاری کو پکڑنا اور اس میں سیٹ حاصل کرنا جوئے شیر لانے
کے مترادف ہوتا تھا۔ سواریاں زیادہ اور سیٹیں کم اور پھر ڈرائیور صاحب نے کچھ سیٹیں خالی بھی رکھی ہوتی تھیں تا کہ راستے میں آنے والے دیہات کی اپنی جاننے والی سواریوں کو بٹھا سکیں۔ اس صورت میں میری طرح کے لڑکوں بھالوں کو چھت پر بیٹھنا پڑتا تھا۔ میں لاری کی چھت پر بیٹھنے کو ترجیح دیتا کہ اس زمانے میں لاری کے اندر بیٹھ کر سفر میں مجھے اکثر قے ہو جایا کرتی تھیں۔ چھت پر سفر میں بھی کئی طرح کے مسائل ہوتے تھے۔ ایک تو چھت پر ہوا وغیرہ زیادہ لگتی تھی۔ سامان وغیرہ لداہونے کی وجہ سے جگہ کم ہوتی تھی۔ کچی سڑک پر گڑھے ہونے کی وجہ سے لاری اِدھر اُدھر ڈولتی تو چھت پر جھٹکے بھی زیادہ لگتے۔ان سے بڑھ کر خطرناک بات یہ تھی کہ کئی جگہوں پر سڑک کے کناروں پر شیشم کے بڑے بڑے درخت ہوا کرتے تھے جن کے ٹہنے اور خشک شاخیں وغیرہ سڑک پر جھکی ہوتی تھیں۔ لاری کی چھت پر بیٹھے ہوئے سفر کے دوران اس بات کا خطرہ اور ڈر رہتا تھا کہ کہیں سر یا جسم کا کوئی حصہ ان ٹہنیوں یا شاخوں سے ٹکرا کر زخمی نہ ہو جائے اس طرح بڑا خبردار اور سمٹ سمٹا کر بیٹھنا پڑتا تھا۔ ٗیہ ڈر خدشات مسائل اور ڈر اپنی جگہ لیکن پھر بھی ہمراہوں کے ساتھ گپ شپ، ہنسی مذاق اور کچھ دوسرے پہلو ایسے تھے کہ جو دلچسپی کا باعث تھے اور ایک پہلو انتہائی فکرمندی کا باعث بھی ہوا کرتا تھا کہ اگر ”رتی دند“ کے سٹاپ سے لاری نہ پکڑی جا سکی یا لاری پر نہ بیٹھ سکے تو پھر پنڈی تک کا آگے کا اٹھارہ بیس میل (موجودہ بتیس چونتیس کلو میٹر) کا سفر پیدل طے کرنا ہو گا۔ کم از کم دو بار ایسے ہوا کہ لاری نہ ملنے یا نہ پکڑے جا سکنے کی بنا پر میں نے اپنے والد گرامی محترم لالہ جی حاجی ملک محمد خان مرحوم و مغفور کے ساتھ پنڈی پیدل سفر کیا۔ ہاں جی! کوئی یقین کرے یا نہ کرے واقعی پیدل سفر۔ یہ سفر کب کیے گئے اور ان میں محترم لالہ جی مرحوم و مغفورکی کتنی شفقت و محبت اور ایثار شامل رہا اور انہوں نے اس دورا ن خو د کتنی تکالیف اٹھائیں۔ اتنے عشرے گزرنے کے باوجودیہ سب کچھ میرے دل پر نقش ہی نہیں بلکہ اسے میں جب بھی یاد کروں میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ان کا تذکرہ آئندہ کسی کالم میں۔ فی الوقت لاری کے سفر کی طرف آتے ہیں۔
لاری کی چھت پر یا اس کے اندر بیٹھ کر سفر کے دوران راستے میں ایک دو مقامات ایسے آتے کہ چھت پر بیٹھی سواریوں کوہی نیچے نہیں اُترنا پڑتا بلکہ لاری کے اندر بیٹھی مرد سواریوں کو بھی نیچے اتر کر لاری کو خالی کرنا پڑتا بلکہ بعض اوقات لاری کو دھکے بھی دینا ہوتے۔ جیسے میں نے پہلے کہا کہ سڑک کچی تھی۔ اس پر گڑھے وغیرہ ہوتے تھے۔ کیچڑ اور گڑھوں میں لاری بعض اوقات پھنس جاتی، مرد سواریوں کو اس میں سے اترنا پڑ جاتا تا کہ لاری آگے نکل سکے۔ اس طرح کے معاملات کبھی کبھار ہی پیش آتے لیکن ان سے ہٹ کر سواریوں کا اس سے اتر کر نیچے آنا اور اسے خالی کرنا ایک روز مرّہ کا معمول بھی تھا۔ وہ اس طرح کہ اس دور میں ہماری یہ لاری جس سڑک پر چلا کرتی تھی وہ موجودہ اڈیالہ روڈ پر پنڈی سے تقریباََ بیس بائیس کلو میٹر فاصلے پر واقع قصبے خصالہ خورد سے الگ ہو کر بائیں طرف آگے خصالہ کلاں، ڈھوک راجہ، چیر پڑھ کے پہاڑی سلسلے کے آخر میں گھنیری کسّی کی پہلے اُترائی اور پھر ستواں چڑھائی سے گزرکر آگے میال اور دھمیال گاؤں سے ہوتی دھمیال کیمپ کے سامنے سے گزرتی ہوئی بکرا منڈی اور بائیس نمبر چونگی تک پہنچتی تھی۔اس سڑک پر چیر پڑھ کے شرقاََ غرباََ پھیلے تقریباََ چار پانچ کلو میٹر طویل کم بلندی کی عمودی کھڑی چٹانوں کے سرے پر گھنیری کسّی وہ جگہ تھی جہاں لاری کی چھت پر بیٹھی سواریوں کی ہی نہیں بلکہ لاری کے اندر بیٹھی مرد سواریاں بھی نیچے اتر آتیں۔ تا کہ لاری پر بوجھ کم ہو اوروہ گھنیری کسیّ کی گہرائی سے اٹھنے والی عمودی چڑھائی پر آگے بڑھ سکے۔یہاں بعض اوقات لاری کو پیچھے سے دھکا بھی لگانا پڑتے۔ بظاہر اس میں سواریوں کو تکلیف ہوتی لیکن ہنسی مذاق میں یہ سب کچھ اتنا پُر لطف ہوتا کہ ذرا بھی محسوس نہیں ہوتا۔ چیر پڑھ، گھنیری کسّی وغیرہ کی وضاحت اور آگے کے سفر کی کچھ تفصیل ان شاء اللہ آئندہ کالم میں …… (جاری ہے)

تبصرے بند ہیں.