ملک میں روزانہ کی بنیاد پہ جس تسلسل سے بْری خبروں کا سیلاب جاری و ساری ہے گھروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو یہی لگ رہا ہے، آج گئے کہ کل۔ یونان اور سری لنکا کے حالات خوفناک بھوت بن بن کر باشعور لوگوں کی نیندیں حرام کرچکے ہیں۔ دہشت گردی کا ہتھیار بْرے وقت میں ہمیشہ غاصب حکمرانوں کے کام آتا ہے سو اب اس کا چرچا اور وہ بھی عین وقت پر کسی اچنبھے کی بات نہیں۔ قرضہ فروش مالیاتی اداروں کی ریشہ دوانیاں تو ویسے ہی سدا سے عروج پر رہی ہیں جس کا مال بالآخر ہمیں نظر آنا اور سمجھ بھی آنا شروع ہوچکا ہے۔ اب اتنے نامساعد حالات میں کہیں سے کوئی چھوٹی موٹی اچھی خبر بھی آجائے تو ملک پر ہانپتا کانپتا ایمان پھر سے قائم ہوجاتا ہے۔ پچھلے دوتین برسوں میں وزارت ِ اطلاعات و ثقافت پنجاب نے جس طرح صوبے میں شعر و ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے دن رات انتھک کام کیا ہے اس سے پہلے کبھی ایسی مثال نہیں ملتی۔ پورے صوبے میں آرٹ کونسلوں کا قیام، نوجوانوں کے تربیتی پروگرامز، گھروں میں بیٹھ بیٹھ کے تنگ آچکی خواتین اور بچوں کے لیے ثقافتی میلوں کا اہتمام، ادبی اداروں کی تعمیر و ترقی پر ترجیحاتی توجہ اور ہر مثبت سرگرمی میں بڑھ چڑھ کر حوصلہ افزائی کی وجہ سے تاریخ رقم ہوتی نظر آئی۔ سیکریٹریٹ لیول پر تقرر و تبدل کی غیر ضروری تیزی کے باوجود وژن اور ورک میں کہیں بھی تساہل سے کام نہیں لیا گیا۔ اگرچہ وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے نادر شاہی اقدامات کے تواتر سے سسٹم کو درہم برہم کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رکھی ہے لیکن پھر بھی کہیں کہیں بہتر اقدامات بھی نظر آتے ہیں۔ نئے آنے والے سیکریٹری بلال آصف لودھی نے محبوب عالم چوہدری، اور دیگر افسران پر مشتمل ٹیم کیساتھ کم از کم اپنی وزارت کی سطح پر قلیل ترین وقت میں بھی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اور ظاہر ہے ان کے کام کا کریڈٹ چوہدری پرویز الٰہی کو بھی جائے گا، حالانکہ مجلس ترقی ادب جیسے ادارے سے ایک بڑے ادیب اور ویژنری ایڈمنسٹریٹر کو ہٹا کر اس قابل احترام اور سورج کی طرح پھر سے طلوع ہوتے ادارے پر سوالیہ نشان ایستادہ کرچکنے میں چوہدری صاحب نے جتنی تیزی اور پھر اس پہ ”ثابت قدمی“ کا مظاہرہ کیا ہے اس نے ہر پڑھے لکھے پاکستانی کو دکھ پہنچا ہے لیکن ادیب برادری پاکستان کے نامخدوش حالات کو سمجھتے ہوئے اس پر وقتی وقتی طور پر صبر کرکے بیٹھ گئے ہیں۔ حالیہ خوشی کی خبر یہ سننے میں آئی ہے کہ وزارت اطلاعات و ثقافت پنجاب نے آرٹس کونسل اور دیگر محکموں میں کنٹریکٹ پر بھرتی ملازمین کو مستقل کردیا گیا ہے۔ کنٹریکٹ پر تقرریاں کرنے کی پالیسی سرمایہ دارانہ نظام کا وہ خوفناک ٹول ہے جو معاشرے کے ہنرمند اور پروفیشنل افراد کو معاشی عدم تحفظ کی سْولی پر لٹکائے رکھنے کی نیت سے بنایا گیا تھا اور ہم نے اس کے پیچھے چھپے غیر انسانی سماج دشمن مقصد کو سمجھے بغیر ہیومن ریسورس مینجمنٹ پرنسپل کے طور پر اپنا لیا۔ آئے دن کنٹریکٹ پر بھرتی کیے گئے اساتذہ، ڈاکٹرز اور دیگر ملازمین طے شدہ مدت ملازمت ختم ہونے پر یا اس سے کچھ عرصہ قبل کبھی عدالتوں کی طرف بھاگتے ہیں تو کبھی حکمرانوں کے درِ اقدس پر نوحہ زاری کرتے نظر آتے ہیں۔ موجودہ حالات اس وقت پوری قوم کو جس بے یقینی کی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں ایسے میں جہاں کہیں بھی کسی پاکستانی کو تھوڑا سا بھی سکھ کا احساس ہوتا ہے تو اسے غیرمعمولی قرار دیا جانا ہرگز بے جا نہیں ہوگا۔ ویسے بھی گزشتہ سالوں میں آرٹس کونسل میں ابرار عالم، پیلاک میں صغراء صدف اور مجلس ترقی ادب میں منصور آفاق نے جو کارکردگی دکھائی ہے اس طرح کے معجزے ہمارے ہاں کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کیونکہ عام طور پر ایسے عہدوں پر بیٹھے نوکری مزاج افسران پرفارمنس کو اپنے لیے خطرناک ہی سمجھا کرتے ہیں اور کچھ کر دکھانے پر نیویں نیویں ہو کر نوکری کرتے رہنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیشہ سے تنقید کا نشانہ بنتی آئی بیوروکریسی میں بیٹھے زیادہ تر افسران سیاسی و سماجی دباؤ کے باوجود مثبت اور تعمیری کام کرکے ملک و قوم کا حق ادا کرنے میں دیر نہیں لگاتے بلکہ ہمیشہ کچھ اچھا کرنے کی نیت سے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور انہیں جہاں بھی کہیں گنجائش ملتی ہے ملک و قوم کی خدمت کے جذبے سے اپنا حصہ ضرور ڈالتے ہیں۔ پنجابی زبان اور کلچر پہ ڈاکیومینٹریز کی سیریز، پنجابی ٹی وی پراجیکٹ اور فلم سٹوڈیو کی تعمیر ایسے منصوبے ہیں جو بلاشبہ دنیا بھر میں پاکستان کے پرامن اور ثقافتی امیج کو بہتر کرنے میں بہت مدد کر سکتے ہیں۔ جنگوں اور دہشت گردی کی لپیٹ میں آئی قوموں کے لیے ثقافتی ترویج و ترقی داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر بقاء اور ارتقاء کی ضامن ہوا کرتی ہے۔ اگرچہ کتاب کی اہمیت و افادیت کبھی کم نہیں ہوئی لیکن دور ِ حاضر میں ویوئل آرٹس خصوصاً ویڈیوز کی اہمیت کتاب سے بھی بڑھ چکی ہے کہ اب کتاب کے تعارف اور پرموشن کے لیے ویڈیو کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ایسے میں وزارت ثقافت کا ڈاکیومینٹریز کی طرف آنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینے کی پالیسی بھی ایسی ہی پالیسیوں میں سے ایک تھی۔ پوری دنیا اپنے ٹورزم کو فروغ دینے کے لیے ایسی ڈاکیومینٹریز کا سہارا لیتی ہے اور اس پر اربوں ڈالرز خرچ کرکے کھربوں ڈالرز کماتی ہے۔ اگرچہ پاکستان حسب ِ سابق ایک بار پھر نازک ترین صورتحال سے گزر ہے مگر مشکل حالات میں کام اور نظام کو جاری رکھنا ہی حقیقت میں کارنامہ کہلاتا ہے ورنہ اچھے حالات میں تو شہبازشریف نے بھی جیسے تیسے کام چلا ہی لیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ وزیراعظم بن کر انہوں نے اپنے پچھلے کیے کرائے پر بھی ایسا پانی پھر ہے کہ رہے رب دا ناں۔ کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل سٹیٹس ملنے پر بہت بہت مبارکباد۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.