گیارہ جنوری، بدھ کی دوپہر وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر اپنی پوری صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کی طرف سے انیس دسمبر کو آئین کی دفعہ ایک سو تیس کی ذیلی شق سات کے تحت جاری کئے ہوئے، اعتماد کا ووٹ لینے کے، حکم نامے کو غیر قانونی ثابت کررہے تھے۔ گیارہ جنوری کی شام ہی عمران خان تسلیم کر رہے تھے کہ پنجاب میں اعتماد کے ووٹ کے لئے ان کے پاس ارکان کی تعداد پوری نہیں ہے۔اسی شام فواد چوہدری پارلیمانی پارٹی میں شرکت کرنے والے ارکان کی تعداد بتا رہے تھے کہ پی ٹی آئی کے ایک سو اکہتر اور قاف لیگ کے پانچ ارکان نے شرکت کی تاہم یہ واضح تھا کہ قاف لیگ کے دس ارکان متحد ہیں اورمسئلہ صرف پی ٹی آئی کے اندر ہے۔یہ تعداد ایک سو اکاسی بنتی تھی۔ عمار یاسر سمیت تین ارکان بارے انہوں نے وضاحت دی کہ وہ پہنچ نہیں سکے اور یوں یہ تعداد ایک سو چوراسی ہو گئی مگر اب بھی دو ارکان کم تھے جبکہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان، وزیراعظم کے مشیر عطاء اللہ تارڑ اورمنحرف رکن مومنہ وحید سمیت دیگر تاثر دے رہے تھے کہ پی ٹی آئی سے بغاوت کرنے والوں کی تعداد بیس سے پچیس کے درمیان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی طرف سے کہا گیا، چوہدری پرویز الٰہی الٹے بھی ہوجائیں تو اعتماد کے ووٹ کے لئے ارکان پورے نہیں کرسکتے۔
یہی وہ موقع تھا جب عمران خان، پرویز الٰہی اور سبطین خان نے بلائنڈ کھیلنے کا فیصلہ کیا۔یہ فیصلہ ہوا کہ اگر ہمارے پاس (سپیکر کا ووٹ نکال کے) تین ارکان کم ہیں تو ایسا ماحول ہونا چاہئے کہ اپوزیشن کی تھانے داری کے بغیر گنتی ہو۔دو سو کے قریب ارکان میں دو، تین کم بھی ہوں گے تو کس کو پتا چلے گا اور یوں بھی ایوان میں کون سی شناخت پریڈ ہونی ہے۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چوہدری پرویز الٰہی اور راجا بشارت اسمبلی کے کھیل کو کھیلنے کی سب سے بہترین صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ یہ اپوزیشن کے لئے دھچکا تھا جب رات آٹھ بجے یہ خبر بریک ہوئی کہ چوہدری پرویز الٰہی اعتماد کاووٹ لینے والے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر دھچکا یہ تھا کہ گورنر کے اس حکم کی تعمیل ہورہی ہے جس کو وہ پارلیمنٹ سے عدالت اور عوام تک میں وہ غیر آئینی کہہ رہے تھے۔ اب یہ ضروری تھا کہ اپوزیشن کو احتجاج کی طرف ہی رکھا جائے اور وہ ارکان کی گنتی اور شناخت کی طرف نہ آئے۔ اپوزیشن کو بھی یہ ڈر تھا کہ اگر واقعی ارکان پورے ہوگئے اور وہ اس عمل کاحصہ بنے تو ان کا ٹھپہ بھی اس پر لگ جائے گا۔ رات کو بارہ بجکر پانچ منٹ پر نئے ایجنڈے کے ساتھ اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن رکن ملک محمد احمد خان نے اس پرا عتراض کیا مگر طے شدہ حکمت عملی کے مطابق سپیکر نے اس اعتراض کو لینے سے انکار کر دیا جس پر احتجاج شروع ہو گیا۔ اسی احتجاج کے دوران سپیکر نے گنتی شروع کروا دی اور اب اپوزیشن کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا کہ وہ احتجاج جاری رکھتی یا واک آوٹ کر جاتی۔ یہ دونوں صورتیں ہی حکمران اتحاد کے لئے قابل قبول تھیں اور یہی وجہ تھی کہ جب اعتماد کاووٹ لینے کا فیصلہ ہو رہا تھا تو اس وقت اس کا طریقہ کار بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں طے نہیں کیا گیا کہ اگر وہاں معاملات طے ہوتے تو معاملات رولز کے مطابق ہی چلتے، حکمران اتحاد کو بھی گنتی کے موقعے پر تعداد پوری رکھنی پڑتی، بندے اصلی رکھنے پڑتے جس کی اب کوئی ’چیکنگ‘ نہیں تھی۔
بات صرف پنجاب کے حکمران اتحاد کے اعتماد اور چالاکی کی نہیں بلکہ اپوزیشن کی کمزوری اور نااہلی کی بھی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اپوزیشن کے اتحاد کی طرف سے پی ٹی آئی کے ارکان سے رابطے کئے گئے اور انہیں آئندہ ٹکٹ تک کی آفر کی گئی مگر زیادہ تر آفرز ناکام رہیں کیونکہ نواز لیگ گذشتہ برس جولائی میں ان بیس ارکان کا عوامی اور سیاسی سطح پر دفاع نہیں کرسکی تھی جنہیں حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ بنانے کے موقعے پرساتھ ملا یا گیا تھا مگر اس کے باوجود مومنہ وحید وغیرہ نے لوٹے ہونے کی جرات کی اور اب میں نہیں جانتا کہ اس بی بی کا سیاسی مقدر کیا ہے۔ آئین اور عدالتی فیصلے بتاتے ہیں کہ ایسے موقعے پر ایسٹین کرنے والے یعنی غیر حاضر رہنے والے بھی نااہلی کی زد میں آتے ہیں۔ اپوزیشن اتحاد کو صرف پانچ ارکان کو قابو میں رکھنا تھا مگر وہ دوارکان کو ہی رکھ سکے اور یوں پانسہ پلٹ گیا۔اب کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ نون ان ارکان کے نام لے کر آئے گی جو موجود نہیں تھے مگر میرا خیال ہے کہ پنجاب حکومت کی اس کامیابی کے بعد کسی رکن کا اپنانام استعمال کرنے دینا بہت مشکل ہو گا۔رانا ثناء اللہ نے رات گئے گفتگو میں اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی اپنے ناراض ارکان کو واپس لے گئی اور یہ اس نااہلی کا اعتراف تھا کہ نواز لیگ پی ٹی آئی کے اختلاف کرنے والے ارکان کی حفاظت نہیں کرسکی، عمران خان کی مقبولیت کے شوراور پنجاب حکومت کی طاقت نے انہیں ڈرا دیا۔ایک رکن کی گفتگو زیر گردش ہے جس میں اس نے کہا کہ ہمیں نواز لیگ کی سنجیدگی نظر نہیں آئی۔ وہ بچوں کی طرح کھیل رہے تھے۔ انہوں نے حمزہ شہباز کی عدم موجودگی پر تنقید کی اور کہا کہ نواز لیگ پنجاب حمزہ شہباز کی جاگیر قرار دیتی ہے مگر وہ خود لندن بیٹھے ہوئے ہیں اور یہاں پر اپنی بی ٹیم سے کام چلایا جا رہا ہے، ایسے کام نہیں چلتے۔
ایک بات ہم سب کو ماننی پڑے گی کہ پی ٹی آئی کی بطور جماعت اور عمران خان کی بطور وزیراعظم گورننس جتنی بھی بری رہی ہو مگران کی سیاست بہت کامیاب اور شاندار ہے۔ نواز لیگ کی قیادت اب تک سیاست کو پارٹ ٹائم جاب کے طور پر لے رہی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ہمارے خاتمے کی بات کرنے والے نوے کی دہائی میں بھی بہت آئے اور مشرف دور میں بھی ایسے بہت دعوے ہوئے مگر ہمارا ’کم بیک‘ ہوا او رپوری طاقت سے ہوا مگر میں ماضی کے مقابلے میں ایک فرق دیکھتا ہوں کہ ماضی میں انہیں مارشل لائی کٹھ پتلیوں سے ری پلیس کرنے کی کوشش کی گئی مگر اب انہیں ایک سیاسی جماعت ری پلیس کررہی ہے جو سیاست کو پارٹ ٹائم کا کھیل نہیں سمجھتی۔ کیا یہ دلچسپ نہیں ہے کہ جس دن سے عمران خان کو ایوان اقتدار سے نکالا گیا ہے انہوں نے زخمی ہونے کے باوجود ایک دن بھی چھٹی نہیں کی مگر نواز لیگ کے قائدین کی سیریں ہی ختم نہیں ہو رہیں۔ وہ درست سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے نام پر ’کاٹا‘ لگا دیا ہے مگر انہیں تاریخ کا ادراک بھی رکھنا ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ صرف اسٹیبلشمنٹ ہے، وہ خدا نہیں ہے۔ وہ اس سے پہلے کیا اسی کی دہائی میں بے نظیر بھٹواوراس صدی کے پہلے عشرے میں آصف زرداری اوراس کے بعد نواز شریف کو حکومتیں بنانے سے روک سکی تھی؟
Next Post
تبصرے بند ہیں.