!…..جاڑوں کے وہ دن

83

ہر ہفتے پنڈی سے گاؤں جاتے ہوئے گاؤں کے قریب اس طرف شمال مشرق میں دریائے سواں پر بنے پل پر سے گزرتے ہوئے اکثر خیال تیس چالیس سال قبل بلکہ اس سے بھی پہلے کے زمانے کی طرف چلا جاتا ہے۔ جب سواں پر پُل نہیں بنا تھا اور دریا کے پانی میں سے پیدل گزر کر آیا جایا کرتے تھے۔ بلا شبہ دریا میں سے گزر کر آر پار آنا جانا انتہائی مشکل، صبر آزما اور تکلیف دہ ہوا کرتا تھا، خاص طور پر سردیوں کے موسم میں جب جاڑا اپنے جوبن پر ہوتا تو دریا کے یخ بستہ پانی میں سے گزرنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ جسم کے اعضا جو پانی میں ڈوبے ہوتے تھے لگتا تھا کہ وہ کٹ گئے ہیں۔ اسی طرح برسات کے موسم میں جب دریا میں اکثر طغیانی آئی ہوتی تو بھی دریا کو پیدل عبور کرنا جان خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوتا تھا۔
میں ذہن کے نہاں خانے میں موجود اس دور کی یادوں کو کریدوں تو مجھے ساٹھ پینسٹھ سال قبل کا زمانہ یاد آتا ہے جب میں اپنے گاؤں سے کچھ فاصلے پر واقع قصبے ادھوال کے ہائی سکول میں زیرِ تعلیم تھا۔ میرے کئی ایسے طالب علم ساتھی بھی تھے جن کا تعلق دریا کے پار دوسرے دیہات سے تھا اور اُنہیں اپنے گاؤں سے سکول آتے جاتے ہوئے راستے میں دریائے سواں کو عبور کرنا پڑتا تھا۔ سردیوں کے دنوں میں وہ خاص طور پر ذکر کیا کرتے کہ دریا کے تقریباً منجمد یخ بستہ پانی میں سے گزرتے ہوئے اُن کے پاؤں اور ٹانگیں سُن ہو جاتی ہیں اور وہ دریا کے کنارے گھانس پھونس اور سرکنڈوں وغیرہ کو آگ لگا کر تاپنے کے بعد چلنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ بلا شبہ دریائے سواں پر پُل نہ ہونے کی وجہ سے آمدورفت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ بھلا ہو سابق رُکن قومی اسمبلی و سابق وفاقی وزیر چوہدری نثار علی خان کا جو ہمارے حلقے سے مسلسل آٹھ بار قومی اسمبلی کے رُکن ہی منتخب نہیں ہوتے رہے ہیں بلکہ ایک زمانے میں مسلم لیگ ن کے اہم راہنما و سابق وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کے ایک قریبی ساتھی کے طور پروفاقی کابینہ کے اہم رُکن بھی رہے۔ اُن کی کوششوں اور کاوشوں سے پچھلی صدی کے آخری عشرے کے شروع کے برسوں میں دریائے سواں پر پُل کی تعمیر کا یہ بھاری بھرکم منصوبہ مکمل ہوا۔ دریائے سواں پر اس پُل کی تعمیر سے ہمارے گاؤں اور ملحقہ دیہات کے لوگوں کو ہی نہیں بلکہ ان سے ہٹ کر دور دراز کے دیہات و قصبات کے رہائشیوں کو بھی پنڈی اسلام آباد آنے جانے کے لیے جہاں بڑی سہولت حاصل ہوئی ہے وہاں موٹر وے M-2اسلام آباد، لاہور تک رسائی حاصل کرنا بھی کافی آسان ہو چکا ہے۔ خیر یہ اب کی باتیں ہیں ورنہ میں پچاس ساٹھ سال قبل کے دور کا ذکر کر رہا تھا۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ پچھلی صدی کے ساٹھ کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں پنڈی میں ملازمت کا آغاز ہوا تو دریائے سواں کے شمال مشرق میں اس پار تک بنی کچی سڑک (جو آج کل پختہ شاہراہ اڈیالہ روڈ کے نام سے معروف ہے) پر بذریعہ لاری اور تین چار بار سائیکل پراور پیدل اور بعد میں کئی برس تک موٹر سائیکل کے ذریعے پنڈی آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دوران سردیوں کے موسم میں دریا کے ٹھنڈے یخ بستہ پانی میں سے گزرتے ہوئے وہی حشر ہوتا تھا جس کا میں نے اس سے پہلے دریا کے پار دیہات سے آنے والے اپنے طالب علم ساتھیوں کے حوالے سے کر رکھا ہے۔ پنڈی آنے کے لیے دریا کے اُس پار سے لاری پکڑنے کے لیے صبح صبح گھر سے نکلنا پڑتا تھا۔ گاؤں کی اور بھی سواریاں ہوتی تھیں۔ جوتے اُتار کر اور شلوار وغیرہ کو گھٹنوں یا اس سے ذرا اوپر تک لپیٹ کر دریا کے پانی میں سے گزرنا ہوتا تھا۔ کوشش ہوتی کہ گہرے پانی سے ہٹ کر ایسے راستے سے گزرا جائے جہاں پانی کم گہرا ہو لیکن ایسے راستے پر پتھر زیادہ ہوتے تھے جن پر پھسلنے کا خطرہ رہتا تھا۔ دریا کے اُس پار جرابیں اور جوتے وغیرہ پہننے سے قبل ٹانگیں اور پاؤں وغیرہ خشک کرنا ہوتے تھے۔ کسی ہمراہی کے پاس ماچس ہوتی، وہاں قریب سرکنڈوں یا خشک گھاس کو آگ لگا دیتے۔ آگ کو تاپتے، ٹانگیں پاؤں وغیرہ خشک ہو جاتے اور پھر جوتے پہن کر ایک آدھ کلو میٹر کے فاصلے پر ”رتی دند“ کے ساتھ کھلی جگہ پر جہاں پر پرانے ماڈل کی لاری سواریوں کو لینے کے لیے کھڑی ہوتی تھی اُس تک پہنچتے اور پھر آگے کا سفر شروع ہوتا۔ ”رتی دند“ کا نام میں نے استعمال کیا اس کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ رتی سرخ کو کہتے ہیں کہ دند بڑے سے ٹیلے کو کہا جاتا ہے۔ ”رتی دند“ ایک بڑا لمبا چوڑا اور کچھ کچھ اونچا ٹیلہ تھا جسے اس کی سرخ مٹی کی وجہ سے یہ نام ملا ہوا تھا۔ ”رتی دند“ یہ ٹیلہ اب اُس حالت میں نہیں ہے کہ وہاں ہاؤسنگ سوسائٹیوں والے بھی پہنچ چکے ہیں، کئی فارم ہاؤسز بن گئے ہیں جن میں اس دور کی کچی سڑک کی زمینیں ضم ہو چکی ہیں۔ (جاری ہے……)

تبصرے بند ہیں.