پنجاب جیسے صوبے میں گندم کی قلت،یقین نہیں آ رہا تھا اور چند کلو سستے آٹے کے حصول کے لئے لمبی لمبی قطاریں اور شہریوں کی جانیں چلی جاناایک المناک سانحہ تو ہے ہی مگر ہماری انسانیت کہاں مر گئی تھی؟ انتظامیہ کہاں سو رہی تھی؟ موجودہ پنجاب حکومت میں عام شہری کو سہولیات،ریلیف دینے کیلئے متعدد منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے،عوامی بہتری اور بھلائی کیلئے ریکارڈ قانون سازی بھی کی گئی مگر اس بات پر غور نہ کیا گیا کہ ایسے فقیدالمثال اقدامات کے باوجود عام شہری کی زندگی میں کوئی بدلاؤ کیوں نہ آسکا؟وہ کیا وجوہات ہیں کہ قانون بھی موجود ہے حکومت بھی اقدام کو تیار ہے مگر غریب شہری کی زندگی پہلے سے زیادہ مشکل ہوتی جا رہی ہے،اس حوالے سے راقم بے شمار مرتبہ حکمران طبقہ کی توجہ مبذول کرا چکا ہے کہ قوانین کا انبار لگا دیں، غریب کو ریلیف دینے والے اقدامات بروئے کار لے آئیں،جیسے مرضی خوش کن اعلانات کر دئیے جائیں جب تک قوانین پر عملدرآمد اور پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے والی کوئی مناسب فورس نہیں ہو گی تبدیلی ناممکن ہے،عوام کو ریلیف نہیں دیا جا سکے گا،امن،تحفظ،انصاف،روزگار تو بہت دور کی بات دو وقت کی روٹی بھی آسانی سے فراہم کرنا ممکن نہ ہو گا،ملکی حالات سامنے ہیں،جس کی لاٹھی، بھینس بھی اسی کی ہے،سرمایہ دار،صنعتکار،جاگیردار،بڑے تاجروں کے اپنے قوانین ہیں،کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں،زرعی ملک میں اجناس کی قلت پیدا کی جا رہی ہے اور اس آڑ میں قیمتوں کو صبح و شام بڑھایا جا رہا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں،پولیس کلچر وہی ہے جو کبھی تھا مگر کوئی پوچھنے والا نہیں،ڈاکو،چور،رسہ گیرسر عام وارداتوں میں مصروف ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں،ہر دکاندار حتٰی کہ چھابڑی فروش کا اپنا ریٹ ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔
کوئی شبہ نہیں کہ چیف سیکرٹری عبداللہ سنبل،ایڈیشنل چیف سیکرٹری کیپٹن اسد اللہ خان،انسپکٹر جنرل پولیس عامر ذوالفقار کی شکل میں ٹاپ پر ایک بہترین انتظامی ٹیم کام کر رہی ہے مگر سیاسی خرابیوں نے انتظامی معاملات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے،آئے روز تبادلوں نے انتظامی بحران پیدا کیا ہوا ہے،وافر گندم کی موجودگی میں بھی گندم اور آٹے کی نایابی کا کیا مطلب ہے؟ کہیں نہ کہیں مسئلہ تو ضرور ہے؟ سیکرٹری انڈسٹری سہیل اشرف کے اس حوالے سے چیف سیکرٹری کی ایک میٹنگ میں پیش کئے جانے والے اعداد وشمار آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ساہیوال کے کمشنر جاوید اختر محمود اس ماحول میں بھی بہتر کارکردگی پر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ مثالی کام کر رہے ہیں،سرگودھا کی خاتون کمشنر مریم خان اور کمشنر لاہور عامر جان بھی محنت کر رہے ہیں، سابق کمشنر ڈیری غازی خان لیاقت چٹھہ نے بارشوں اور فلڈ ریلیف کے لئے بہترین کام کیا مگر نجانے کس سیاسی شکایت کی انہیں بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
یادش بخیر، ملک میں ایک مجسٹریسی نظام تھا جو فوری فیصلے کرتا تھا، مجسٹریٹ خود مارکیٹوں کے دورے کرتے،چھاپے مارتے،شکایات کا نوٹس لیتے اور شہریوں کو ریلیف بھی ملتا،امن اور تحفظ بھی،ایک معمولی سی بات جو کوئی خفیہ راز نہیں مگر حکمرانوں نے دانستہ ادھر سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں،کم سے کم تنخواہ اس وقت25ہزار روپے ماہانہ اور دن میں آٹھ گھنٹے کام لینے کا قانون موجود ہے مگر سرمایہ دار،صنعتکار یہاں تک کہ ورکشاپس اور عام مارکیٹوں کارخانوں میں کوئی اس پر عمل نہیں کرتا اور دس دس بارہ بارہ ہزار پر لوگوں کی محنت کا استحصال کیا جا ررہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں،یوں لگتا ہے حکومت ایسے اعلانات کر کے غریبوں کو راضی کرتی ہے اور عملدرآمد نہ کر کے امیر لوگوں کو مٹھی میں رکھتی ہے،اگر مجسٹریسی نظام بحال ہوتا تو عام شہری ان کو بغیر وکیل شکایت کرتا اور وہ چھاپہ مار کر کارروائی بجا لاتے تو اس قانون پر عملدرآمد سے کروڑوں شہریوں کا فائدہ ہو جاتا، صوبہ جن گونا گوں حالات سے دوچار ہے اس میں بڑی ضرورت مجسٹریسی نظام کی بحالی کی ہے ورنہ قانون بنتے رہیں گے،پالیسیوں کا اعلان ہو تا رہے گا لیکن غریب شہری محروم ہی رہیں گے۔
موجودہ وقت میں مجسٹریسی نظام کی غیر فعالیت سے جہاں ذخیرہ اندوزوں، تجاوزات اور مہنگائی مافیا کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے، نچلی سطح تک ہر کوئی من مرضی کر رہا ہے کسی کو قانون کی پروا ہے نہ ضابطوں کی،سچ یہ کہ قانون کا خوف ہی تحلیل ہو چکا ہے،حال یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ بھی معاملات کو سدھارنے میں ناکام ہے بلکہ مسلسل ناکامی کے بعد تھک ہار کر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ رہی ہے اور تماشا دیکھے جا رہی ہے، بعض حضرات کے خیال میں ایگزیکٹو مجسٹریسی نظام میں بہت سی خامیاں ہیں،ضرور ہوں گی مگر عشروں کی آزمائش نے اسے آزمودہ نظام بنادیا اور تسلسل سے اگر یہ نظام رائج کیا جائے تو اس کی خامیوں کو دور کرنا مشکل نہیں ہو گا،،کہا جاتا ہے کہ صوبے کی سطح پراگرایگزیکٹو مجسٹریسی کا نظام بحال کیا جائے تو گرانفروشی، ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کی صورتحال میں بہت حد تک بہتری آسکتی ہے،مجسٹریٹس کا کام صرف قیمتیں چیک کرنا نہیں ہوتا بلکہ یہ گڈ گورننس اور حکومت کی کارکردگی کو عوامی سطح تک پہنچانے میں ایک پل کا کرار ادا کرتے ہیں، مصنوعی طریقے سے پیدا کی گئی مہنگائی اور اجناس کی مصنوعی قلت کو اگر قانون کے دائرے میں رہ کر حل کرنے کا سوچا جارہا ہے تو مجسٹریٹی نظام اس کیلئے بہت ضروری ہے، تاہم راتوں رات مجسٹریٹ سسٹم بحال کرنے سے بہتری کے آثار نظر نہیں آئیں گے کیونکہ اس سسٹم کے خاتمہ سے کافی مسائل پیدا ہوچکے ہیں،ماضی میں ڈپٹی کمشنر کا کردار بہت مضبوط تھا وہ نہ صرف ایک منتظم ہوا کرتا تھا بلکہ ریونیو کلیکٹر کے فرائض بھی انجام دیا کرتا تھا پھربحیثیت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اس کے پاس انتظامی اختیارات بھی ہوا کرتے تھے یوں امن و امان کنٹرول کرنا اس کی ذمہ داری ہوتی تھی۔
موجودہ دور میں امن و امان اب ثانوی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور شہریوں کی پہلی ترجیح دو وقت کی روٹی ہے،جس کا حصول آٹے کی فراہمی سے مشروط ہے مگر منافع خور مافیا نے آٹے کی اور گندم کی سمگلنگ،گندم کی درآمد اور پھر اس پر سبسڈی حاصل کرنے کیلئے قلت پیدا کر رکھی ہے اور اس کی آڑ میں قیمت آسمان پر پہنچا دی گئی،ان حالات میں مجسٹریسی نظام فعال ہوتا تو سمگلنگ ہوتی نہ ذخیرہ اندوزی سے قلت اور نہ قلت کی آڑ میں قیمت میں اضافہ،اب بھی غور کریں، مجسٹریبی نظام کی بحالی کی ماضی سے زیادہ ضرورت ہے ڈی سی کو بااختیار بنانا ضروری ہے اس سے بے لگام پولیس بھی قابو میں آجائے گی، گورننس کنٹرول کرنے کیلئے بھی مجسٹریسی رول انتہائی اہم ہے اگر مجسٹریٹس کے پاس عدالتی اختیارات تھے تو آئین اور قانون کے مطابق ہی تھے، مجسٹریل سسٹم کی بدولت اوورسائٹ کا نظام موجود تھا جب یہ نظام ختم ہوا تو گورننس خراب ہوتی چلی گئی ظاہر ہے جب قانون اور طاقت کا استعمال ٹھیک طریقہ سے نہ ہو تو گورننس خراب ہوتی جاتی ہے چنانچہ آج مجسٹریسی نظام ناگزیر ہے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.