شدید سردی اور سیلاب متاثرین

16

حالیہ سیلاب میں پاکستان کا بہت بڑا حصہ پانی کے ریلوں کی نذر ہو گیا۔ تقریباً 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے جبکہ 1700 اموات ہوئیں۔ تقریباً 89 لاکھ لوگوں کو بے گھر ہونا پڑا اور تقریباً 20 لاکھ گھر جزوی یا کلی طور پر تباہ ہو گئے۔ اقوام متحدہ نے یہ تنبیہ کی ہے کہ سیلاب سے متاثرہ کم وبیش 57 لاکھ لوگوں کو اگلے چند ماہ میں غذائی قلت کا سامنا ہو گا جو پاکستان پر ایک بڑا بوجھ بن سکتا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں آلودہ پانی سے ہونے والی بیماریاں اور غذائی کمی کا شکار بچے اور عورتیں پہلے سے ہی متاثر ہیں جبکہ اس یخ بستہ سردی سے ہونے والے امراض اور سانس اور جلدی امراض نے ان کی صحت کو مزید تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ سیلابی ریلوں کی وجہ سے گندم کی کاشت بری طرح متاثر ہوئی ہے اس لئے گندم کی کمی کی وجہ سے غذائی قلت کا بھی امکان ہے اس کمی کو دور کرنے کے لئے گندم درآمد کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ سیلاب کے دوران کروڑوں افراد بے گھر ہوئے، بچے، بوڑھے، نوجوان اور عورتیں خیموں میں رہنے پر مجبور ہو گئے۔ کاروبار رہا اور نہ ہی کوئی وسیلہئ روزگار۔ پچھلے تین ماہ سے آہستہ آہستہ یہ سیلابی پانی پیچھے ہٹتا گیا لیکن بلوچستان کے مشرقی اور سندھ کے شمالی علاقہ جات میں اب بھی لوگ بحالی کے منتظر ہیں۔ یہ لوگ عارضی خیمہ بستیوں، ٹینٹوں اور بڑی بڑی سڑکوں کے کنارے آباد ہیں۔ گھر بہہ جانے کی وجہ سے فی الحال گھروں میں واپسی تاخیر کا شکار ہے۔ آج کل سردی کی ایک شدید لہر آئی ہوئی ہے۔ امریکہ، کینیڈا اور دیگر مغربی ممالک میں برف کے طوفان آنے کا اثر ایشیائی ممالک کی طرف بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں سردی اس وقت اپنے عروج پر ہے اور یہ یخ بستہ ہوائیں سندھ اور بلوچستان کے آفت زدہ علاقوں کا رخ کر رہی ہیں۔ ایسے میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے ساتھ ساتھ مختلف بیماریوں کے حملے بھی ہو رہے ہیں۔ اگر سردی کا مناسب انتظام نہ کیا گیا تو بچے، بوڑھے اور عورتیں مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔ سیلابی ریلے سے ہونے والا جانی نقصان تو چند ہزار تھا لیکن اگر وبائیں پھوٹ پڑیں تو اس تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ خیمہ بستیوں کے گرد موجود جوہڑوں میں پلنے والے مچھروں سے ملیریا اور دیگر بیماریاں بھی بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ خیمہ بستیوں کے گرد موجود جوہڑوں پر Fumigation اور مچھر مار ادویات کا چھڑکاؤ ملیریا میں کمی کے لئے بہت زیادہ ضروری ہے ورنہ ان خیمہ بستیوں میں ملیریا ایک وبائی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ گندہ پانی پینے کی وجہ سے بچے، بڑے اور بوڑھے اسہال، آنکھوں کی سوزنش، جلدی امراض اور دیگر کا شکار ہو رہے ہیں۔ اگر صاف پانی کی فراہمی یقینی نہ بنائی گئی تو گیسٹرو اور ہیضہ تیزی سے ان سیلاب زدہ علاقوں میں پھیل کر بڑی تباہی مچا سکتا ہے۔ انہیں بڑی دوردراز سے صاف پانی لانا پڑتا ہے اور ذخیرہ کرنے کے دوران بھی یہ پانی آلودگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ان علاقوں میں بچے، خواتین اور بوڑھے خوراک کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کا وزن کم ہو رہا ہے، دفاعی صلاحیت ماند پڑتی جا رہی ہے اور یہ اسہال کے ساتھ ساتھ سانس اور دیگر بیماریوں کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ خیمے میں رہنے کی وجہ سے لوگوں میں متعدی خارش پھیل رہی ہے اور اس پر قابو پانا بھی ضروری ہے۔ ٹینٹ کا کپڑا اتنا باریک ہوتا ہے اور وہاں رہنے والے بے یارومددگار لوگ مجبوراً باریک سویٹر اور کپڑوں میں رات گزارنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے انہیں سانس کی مختلف بیماریاں مثلاً نزلہ، زکام، کھانسی، نمونیہ، دمہ یہاں تک کہ تپ دق کے امکانات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر بہت سارے لوگ رات کو سکون کی نیند بھی نہیں سو پاتے اور اس کے ساتھ ساتھ سرکاری ہسپتالوں سے کئی بستیاں کافی دور ہیں اور ان کے پاس ذرائع آمد ورفت بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے علاج معالجے کی سہولیات بھی مہیا نہیں ہو رہیں۔ کئی خیمہ بستیوں میں بچے نمونیہ کی وجہ سے اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ دیگر خیمہ بستیوں میں ٹی بی اپنا سر اٹھا رہی ہے اور یہ خطرہ موجود ہے کہ اگر ان کی غذائی ضروریات کو پورا نہ کیا گیا اور ادویات کی فراہمی یقینی نہ بنائی گئی تو تپ دق کا ایک بڑا حملہ ان خیمہ بستیوں پر ہو سکتا ہے۔ سردیوں کے موسم میں چونکہ نہانے دھونے کا انتظام بھی ان خیمہ بستیوں میں مناسب نہیں اس لئے لوگ مختلف قسم کی جلدی امراض جس میں فنگل اٹیک، ایگزیما اور متعدی خارش کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کی جلدی الرجی شامل ہیں،کا شکار ہو رہے ہیں۔ پیٹ میں کیڑوں کا مرض بھی اکثر بیشتر دیکھنے میں آ رہا ہے۔ زچہ اور بچہ کی صحت کو بہتر بنانے کے لئے ہر خیمہ بستی کے قریب ایک زچہ بچہ سینٹر بنانا یا گائنی اور امراض بچگان کے ڈاکٹر کی موجودگی کو یقینی بنانا بھی بہت ضروری ہے۔ نوزائیدہ بچوں کو اس موسم میں سب سے بڑا خطرہ سردی سے ہے۔ اگر بچے کو مناسب درجہ حرارت نہ دیا جائے اور گرم کمرے میں نہ رکھا جائے تو اس کی زندگی کو خطرات بڑھ جاتے ہیں۔صحت کے ان تمام مسائل کو دیکھتے ہوئے ضرورت ہے کہ ایک جامع حکمت عملی تیار کی جائے۔ سیلاب اور اس سے ہونے والی تباہ کاریوں کو روکنے کے لئے امدادی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کی صحت اور بیماریوں سے بچاؤ کے لئے خاطرخواہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ پانی کو سٹور کرنے کے لئے چھوٹے بڑے مختلف سائزوں کے واٹر کولر ان خیمہ بستیوں میں فراہم کئے جانے چاہئیں اور روزانہ کی بنیاد پر فلٹر کیا ہوا پانی ان لوگوں کو فراہم کیا جائے۔ ہر بستی کے قریب صاف ستھرا واش روم اور نہانے کی جگہ تعمیر کی جائے جہاں لوگ اپنی صفائی کا خیال رکھ سکیں۔ خیمہ بستیوں میں کوئلوں پر جلنے والی انگیٹھیاں بھی مہیا کی جائیں تاکہ درجہ حرارت کو مناسب رکھا جا سکے۔ نئی آبادیوں کی تعمیر کا عمل جلد ازجلد مکمل ہونا چاہئے تاکہ لوگ اپنے مستقل مکانات کی طرف جا سکیں۔ ان خیمہ بستیوں میں موجود عورتوں اور بچوں کو مختلف قسم کے ملٹی وٹامنز اور آئرن کی گولیاں فراہم کی جائیں۔ انہیں خوراک میں تازہ دودھ، پھل اور متوازن غذا کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ ہفتے میں ایک مرتبہ لوگوں کو میڈیکل کیمپ کی سہولیات دی جائیں جس میں ڈاکٹر، پیرامیڈیکل سٹاف اور سرکاری سطح پر ادویات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ سیلاب زدہ بھائیوں کو فوری طور پر ریسکیو کرنا اور بیماریوں سے بچانا بے حد ضروری ہے۔ ایسے میں حکومت کے ساتھ ساتھ غیرسرکاری تنظیموں اور رضاکاروں کا کردار بھی بہت اہم ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت، رضاکار اور غیرسرکاری تنظیمیں مل کر ایک دوسرے کے تعاون سے امدادی کارروائیاں جاری رکھیں تاکہ اس وقت ہر شخص کو صحت اور علاج معالجے کی سہولیات میسر ہوں اور انہیں ہر طرح کی بیماریوں سے بچایا جا سکے۔ یہ امدادی کارروائیاں دن یا ہفتوں کے لئے نہیں بلکہ کئی مہینوں کے لئے ضروری ہیں۔ صحت کے حوالے سے یہ سپورٹ جاری رہنی چاہئے۔ کئی خیمہ بستیوں میں لوگ اپنی تباہ حالی اور زرعی زمین اور کاروبار کے نقصان کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہیں اور ان میں خودکشی کرنے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں اس لئے ان کو سائیکالوجسٹ اور سائیکاٹرسٹ تک رسائی دینا بھی ضروری ہے تاکہ جسمانی صحت کے ساتھ ذہنی صحت کو بہتر کیا جا سکے۔

تبصرے بند ہیں.