بنیادی خوراک کی قلت اور پلاٹوں کی بہتات

72

غربت اور مہنگائی کا حال یہ ہے کہ آٹے جیسی بنیادی خوراک کے حصول کے لیے عوام سخت سردی میںقطاریں لگائے کھڑے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر یہ خبر پوری دنیا نے دیکھی کہ آٹے کی لائن میں ہونے والی دھکم پیل میں ایک شخص زمین پر گر پڑا اور رش کے باعث دم گُھٹنے اور لوگوں کے پاﺅں کے نیچے آکر ہلاک ہوگیا۔خبر کے مطابق اس کے چار بچے تھے۔ مالی حالت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ سستاآٹالینے کے لیے جان داﺅ پر لگا دی۔ اب اس کے خاندان کی کفالت کیسے ہو گی؟ غربت، یتیمی اور بے آسراپن اس خاندان کی زندگیوں پر کیا اثر ڈالے گا ؟ یہ موضوع اور صورتحال ہمارے ارباب اقتدار و اختیار کی دلچسپی اور توجہ کا موضوع نہیں ہے۔
چند روز قبل لمبی لمبی قطاریں اس وقت بھی دیکھنے میں آئیں جب ایک بہت بڑی ہاﺅسنگ سوسائٹی کی جانب سے کراچی اور حیدر آباد کے درمیان دونوں شہروں سے تقریباً 75 کلومیٹر پر اپنے نئے منصوبے کا آغاز کیا۔ سوسائٹی میں مختلف رقبوں کے پلاٹ شامل ہیں جن کی اوسطاً پیشگی قیمت گیارہ لاکھ روپے ہے۔ان پلاٹوں کی فائلوں کی خرید کے لیے ہزاروں لوگ اربوں روپے لیے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ عوام کو مائل کرنے کے لیے کیر تھر رینج کے پہاڑی سلسلے کی سرکاری زمین پر کچھ علاقہ ہموار کرکے چند کلو میٹر کی سڑک بنائی گئی ہے ۔ سوسائٹی کے سربراہ جن کے ابتدائی پروجیکٹ راولپنڈی اور لاہور میں تھے اس کے بعد انہوں نے کراچی میں اپنی ہاﺅسنگ سوسائٹی کے منصوبے کا آغاز کیا۔ یہ مذکورہ منصوبہ ان کا کراچی میں دوسرا منصوبہ ہے۔ یہ مقام ویران، بنجر، جنگل کا علاقہ ہے۔ جہاں اگلی دو تین دہائیوں تک کسی بنیادی سہولت کی فراہمی ممکن نہیں ہوگی۔ لیکن پرویز مشرف کے دور میں پراپرٹی کے کاروبار کو اس قدر منافع بخش بنا دیا گیا کہ لوگ کارخانوں اور صنعتوں میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے پلاٹوں اور ہاﺅسنگ سوسائٹیوں میں سرمایہ کاری کرنے لگے۔ جس کا ایک نتیجہ تو یہ ہوا کہ زرعی زمین دن بہ دن کم ہونے لگی اور ہمیں بنیادی سبزیاں یا تو دور کے شہروں سے منگوانا پڑ رہی ہیں جن پر ٹرانسپورٹ کے اخراجات کہیں زیادہ آتے ہیں اور مہنگائی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں، یا پھر بیرون ممالک سے درآمد کرنا پڑیں گی۔بدقسمتی سے یہ موضوع اور مسئلہ بھی ہمارے ارباب اقتدر اور اختیار کی دلچسپی کا موضوع نہیں ہے۔ ایک طرف غربت کا حال یہ ہے کہ لوگ سستی خوراک کے لیے قطاروں میں لگے ہیں اور دوسری جانب اربوں روپے لے کر قطاروں میں اس لیے لگے ہیں کہ جنگل میں جا بسیں اور اپنا ”معیارِ زندگی“ بلند کر سکیں۔
ملک کی معیشت کی بحالی کے لیے حکومت قرض کے حصول کے لیے سر توڑ کوشش کررہی ہے۔زرِمبادلہ کے ذخائر انتہائی حد تک کم ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے صنعتی سیکٹر متاثر ہوا ہے۔ خام مال کی عدم دستیابی اور بجلی گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے صنعتوں کی پیداواری صلاحیت متاثر ہورہی ہے جس سے بے روزگاری میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے 165 لگژری گاڑیوں کی امپورٹ کے لیے ایل سیز کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ویسے عجیب صورتحال ہے کہ وزیر داخلہ معیشت پر بیان دے رہے ہیں، وزیر خارجہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات پر بیان دے رہے ہیں، وزیر خزانہ اپنے منجمد اثاثوں کی بحالی کے لیے مصروف ہیں۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل وزارت سے علیحدہ کیے جانے کے بعد انقلابی بننے کی کوشش کر اور ملک میں دولت کی منصفانہ تقسیم کے لیے مختلف تجاویز دے رہے ہیں، یہ بھی اسی قسم کی تجاویز ہیں جو ہر سیاستدان کو اقتدار سے الگ ہونے کے بعد یاد آتی ہیں۔ حکومت کی جانب سے بیان آتا ہے کہ معیشت کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف سے قرضہ لینا انتہائی ضروری ہے۔ کیوں کہ اس کے بعد ہی دوست ممالک قرضہ دیں گے۔ حکومت بتاتی ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ مشکل شرائط پر ملے گا۔ یعنی بین السطور یہ ہی کہنا ہے کہ عوام تیار رہیں۔ ویسے یہ آئی ایم ایف کی شرائط بھی صرف عوام پر ہی ٹیکس لگانے کے لیے ہوتی ہیں۔ ہمارے دوست صاحبزادہ صبغت اللہ خوب کہتے ہیں کہ یہ آئی ایم ایف، وزرائ، اراکین پارلیمنٹ، ججوں، ہر قسم کی بیورو کریسی کی تنخواہوں اور مراعات پر کیوں قدغن نہیں لگاتا؟ یہ ٹیکس کی برق صرف غریبوں پر ہی کیوں گرتی ہے؟ اور بقول حکومت کے کہ دوست ممالک بھی قرضہ اور مدد اسی صورت میں کریں گے جب آئی ایم ایف سے معاملات طے ہوجائیں گے۔ یہ اچھے دوست ہیں جو اپنے دوست کو قرض کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔ شاید ہم تکلف کو بھی اخلاص سمجھ بیٹھے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.