غریب عوام کی سنیے!

35

لوگ مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان تو ہیں مگر کیا کریں کسے آواز دیں اہل اقتدار نے شاید تہیہ کر رکھا ہے کہ انہوں نے ان کی طرف دیکھنا ہے نہ ان کی کوئی بات سننی ہے لہٰذا مایوسی ہے کہ آخری حد کو چھونے لگی ہے اور جب مایوسی آخری حد عبور کرتی ہے تو پھر صورت حال یکسر تبدیل ہو جاتی ہے۔ حکمران طبقات کو اس بات کا یقینا ادراک ہوگا مگر انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی کیونکہ وہ اپنے مسکن کہیں اور بنا چکے ہیں ان کے کاروبار بھی ادھر ہیں لہٰذا عوام نے ہی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہے خود ہی درپیش مسائل کو حل کرنا ہے۔ انہیں اب کسی بھی حکمر ان سے کسی نئی صبح کی امید نہیں باندھنی چاہیے۔ انہوں نے ماضی میں ان کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہائیں نہ مستقبل میں وہ ایسا کچھ کر سکیں گے۔ ان کے دل میں جو تھوڑا بہت عوام کے لیے درد تھاوہ بھی رخصت ہو چکا ہے اب فقط ان کے پاس خالی نعرے ہیں اور وعدے ہیں عملاً وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں انہیں مزید طمع و لالچ نے اپنے حصار میں لے لیا ہے لہذا ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی جبکہ غربت روز بروز بڑھ رہی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ مخیر حضرات کے گھروں کے باہر کھڑے ہونے والے غریبوں کی تعداد میں دو گنا اضافہ ہوگیا ہے گدا گروں کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے اور وہ تو ایک طرح سے زبر دستی خیرات وصول کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور بعض تو جب کوئی دس بیس روپے ان کو نہیں دیتا تو وہ برا بھلا کہتے ہوئے دور چلے جاتے ہیں۔
اس غربت سے چوریاں ، ڈکیتیاں، ٹھگیاں اور دھوکا دہی کے واقعات میں ہوشربا اضافہ ہو گیا ہے چند روز پہلے ہماری گلی کے باہر سے ایک ہمسائے کی موٹر سائیکل چوری ہو گئی اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ”مختاریا گل ودھ گئی اے“ ہمیں اس خیال سے خوف آ رہا ہے کہ کل کیا ہو گا۔ یہاں ہم یہ بھی عرض کرتے چلیں ہر مسئلے کا ذمہ دار حکومت کو نہیں ٹھہرانا چاہیے کیونکہ وہ کسی کو اشیائے ضروریہ مہنگا کرنے کو نہیں کہتی پھر وہ بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے نو کریاں، ملازمتیں نہیں دے سکتی کیونکہ ابھی ہم ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ نہیں کہ وہاں ملیں فیکٹریاں سرکاری ذرائع اور نجی کاروبار عام ہیں لہٰذا ان کے لیے بے روز گاری کا مسئلہ بھی شدت اختیار نہیں کرتا لہٰذا لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ خود انحصاری کی کی طرف آئیں چھوٹے موٹے کاموں کا آغاز کریں تاکہ انہیں غربت سے نجات مل سکے۔
بہر حال عوام اور حکمرانوں کے مابین فاصلے بڑھ چکے ہیں وہ ایک دوسرے پر اعتبار و اعتماد کرنے کو تیار نہیں لہٰذا معاملات الجھتے چلے جارہے ہیں۔ سیاست و معاشرت میں پیچیدگیاں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ بد گمانیوں نے پورے سماج کو جکڑ لیا ہے کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ وہ کیسے سفر حیات کو جاری رکھے ایک ہلچل ایک افراتفری کا ماحول جنم لے چکا ہے اگر چہ پہلے بھی ایسا تھا مگر جوں جوں وقت گزر رہا ہے۔ بے چینی شدید ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ لوگوں کے مزاج بھی تبدیل تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔
سماجیات کی گویا چُولیں ہل چکی ہیں خونی رشتے پانی کے رشتوں میں بدل گئے ہیں بدل رہے ہیں بھائی بھائی سے دھوکا کر رہا ہے اور قریبی رشتہ داربھی چکر دیتا ہوا دکھائی دیتا ہے جہاں پیسا نظر آجاتا ہے اس پر حریص نگاہیں جم جاتی ہیں یعنی دھوکا بازی اس قدر ہے کہ اس سے کسی کا بچنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو گیا ہے۔ مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکتا کیونکہ ہم کسی بہت بڑی تبدیلی کی طرف جا رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک روز وہی لوگ جو ناجائز ذرائع سے پیسے کی دوڑ میں شریک ہیں اکتا جا ئیں گے اور خود کو بدلنے کی خواہش کا اظہار کرنے لگیں گے پھر تخت گر سکتے ہیں اور تاج اچھل سکے ہیں لہٰذا حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ایک نئی سوچ کے ساتھ میدان سیاست میں اتریں عوامی مشکلات و مسائل بارے سوچیں۔ہم یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ جب حکمران عوام کی بھلائی و بہتری کے لئے سوچیں گے تو ساٹھ فیصد مسائل با آسانی حل ہو جائیں گے ، رشوت، سفارش، ملاوٹ مہنگائی اور نا انصافی کہیں نظر نہیں آئیں گے مگر یہ کیسی ان کی حکمت عملی ہے کہ عوام کو اندھیرے میں رکھو انہیں غربت سے نہ نکالو ایوانوں میں نہ آنے دو بے اختیار رکھو تاکہ وہ ان کے مدمقابل نہ آسکیں یونہی سسکتی تڑپتی اور مضطرب زندگی بسر کریں مگر ہمارا تجزیہ ہے کہ انہیں بدلنا ہو گا کیونکہ انہیں سیاست کے باغ میں گھومنا ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ مالی سے بنا کر رکھی جائے یعنی عوام کو اپنے ہمراہ لیا جائے جو انہیں باغ تک لے جاتے ہیں ان کے بغیر ”بادشاہ گر“ بھی کسی کو نہیں پوچھتے لہٰذا حکمرانوں کے لیے جو کام کرنے کا ہے وہ ہے عوام کی قربت و محبت جن سے وہ فی الحال کافی حد تک محروم ہیں کیونکہ وہ پچھتر برس گزرنے کے باوجود انہیں وہ آسائشیں اور سہولتیں میسر نہیں آسکیں جو حکمرانوں یا اہل زر کو دستیاب ہیں لہٰذا اگر وہ (حکمران) چاہتے ہیں کہ انہیں عوام کی حمایت حاصل رہے تو وہ ان پر ٹیکسوں کی یلغار کرنے سے اجتناب برتیں انہیں آئی ایم ایف کے چنگل سے چھٹکارا دلائیں انصاف سستا اور آسان دلائیں میرٹ پالیسی پر سختی سے عمل در آمد کرائیں۔ یہ پہلو بھی ان کو پیش نظر رکھنا ہوگا کہ اب پرانے طریق سیاست کو انہیں خیر باد کہنا ہوگا اب لوگ باخبر ہیں، اور با شعور بھی انہیں سب معلوم ہو گیا ہے کہ اب تک انہیں کیسے بیوقوف بنایا جاتا رہا ہے اورکس طرح ان کے بنیادی حقوق سلب کیے جاتے رہے ہیں لہٰذا تاریکیوں کو بھگانے اور روشنیوں کو لانے کا وقت آ گیا ہے کہ ہم سب نے یہیں رہنا ہے یہیں پے مرنا ہے ہمیں اپنی دھرتی بہت پیاری ہے اس سے ہمیں جڑے رہنا ہے اس کے خزاں رسیدہ گلستانوں میں بہار کے مناظر دیکھنا ہیں لہٰذا ہمارے اہل اقتدار و اختیار کو چاہیے کہ وہ پچھلے شکووں کو بھلا دیں اس کے بغیر دوسرا کوئی راستہ نہیں کیونکہ حالات کی دھند گہری ہوتی جا رہی ہے موسموں میں تبدیلی آچکی ہے جن کو سامنے رکھتے ہوئے ضروری ہو گیا ہے کہ حکمران قومی جذبے کے تحت بقا وسلامتی کے لیے ایک میز پر آن بیٹھیں۔ عوام کو حقیر نہ جانیں ان کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کے لیے فلاحی ورفاہی منصوبوں کا آغاز کریں آخر کیوں وہ عوام سے بیزار ہیں یا ان سے نفرت ہے۔ چلتے چلتے یہ بھی عرض کر دیں کہ وہ اگر عوام سے اپنا تعلق خاطر قائم کر لیتے ہیں تو انہیں کبھی مایوس نہیں ہونا پڑے گا یوں وہ ایک جمہوری معاشرہ کی تشکیل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور یہی لوگ ہوں گے جو ان کے گیت گائیں گے انہیں سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔وہ اس بات کو بھی پیش نظر رکھیں کہ ارتقائی عمل آگے بڑھتا ہے اور ایک جیسی کیفیت کبھی نہیں رہتی لہٰذا اگر ان کا یہ خیال ہوگا کہ وہ کچھ دیر اور اسی طرز سیاست کے ذریعے حکمرانی کے مزے لوٹ لیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔اب ہم ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں جس میں اس سفاک نظام حیات کو بدلنے کے لئے صدائے احتجاج بلند ہو رہی ہے۔

تبصرے بند ہیں.