قاضی صاحب! آپ سے بچھڑ کر لوگ افسردہ ہیں

12

قاضی حسین احمد صاحب آپ کو گئے نہ جانے چند لمحے ہوئے یا دس سال بیت گئے۔ صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے آپ کے ساتھ گزرا وقت ابھی بھی سفید موتئے کے پھول کی طرح تازہ اور خوشبودار ہے۔ آپ کو سوچ کر یوں لگتا ہے کہ آپ ابھی یہیں کہیں تھے مگر 6جنوری 2013ء کے بعد ظالم کیلنڈر کی قطار در قطار تاریخوں پر انگلی پھیرنی شروع کریں تو اداسی کے دس لمبے برس پھن پھیلاکر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ قاضی صاحب آپ ایسی شخصیات میں سے ایک تھے جن کے سیاسی اور فکری نظریات سے شدید اختلاف کے باوجود بھی اُن کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ آپ کسی نتیجے پر پہنچ کر فیصلہ کرنے کا کمال فن رکھتے تھے۔ آپ نے جماعت اسلامی کو دوسری بڑی سیاسی جماعتوں کی بچہ پارٹی سے نکال کر علیحدہ شناخت کے لیے کھڑا کیا۔ جماعت اسلامی اب تک یہی کررہی ہے۔ آپ مخالفین کے سامنے مدلل سکالر ہونے کے ساتھ ساتھ ناقابل تسخیر مزاحمت کار بھی تھے جس کی کڑوی یادیں اب بھی پرویز مشرف جیسے حکمرانوں کے منہ کا ذائقہ خراب کردیتی ہوں گی۔ دلائل، مزاحمت کاری اور اپنے نظریات سے اخلاص کے باعث اپنوں اور غیروں میں عزت پاجانے والے قاضی صاحب اگر آپ ایوب خان کی 60ء کی دہائی میں فرنٹ لائن پر ہوتے تو اُس دور میں کسی دوسرے سیاسی لیڈر کا جادو اکیلے سرچڑھ کر نہ بولتا۔ اگر آپ 70ء کی دہائی میں فرنٹ لائن پر ہوتے تو حکمرانوں کو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء سے پہلے عوامی قاضی حسین احمد کا سامنا کرنا پڑتا۔ قاضی صاحب آپ 80ء کی دہائی میں پورے چاند کی مانند ظاہر ہوئے جب پاکستان میں اسلامی مارشل لاء اور افغانستان میں اسلامی جہاد دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا۔ ہسٹری کے کچھ صفحات اور اکیسویں صدی کے جدید سیاسی نظریات آپ کو جہاد افغانستان کا خفیہ نیوکلیس ہونے کا الزام دیتے ہیں جبکہ آپ جہاد افغانستان کو اپنا اعزاز سمجھتے تھے۔ قاضی صاحب آپ پاکستان میں دھرنوں کے موجد تھے۔ آپ نے ضدی پرویز مشرف کے سامنے اُس وقت دھرنے دیئے جب غیرملکی زعم میں ڈوبے ہوئے پرویز مشرف کسی
کی اونچی ہچکی بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ قاضی صاحب آپ کے اُس وقت کے دھرنے ڈکٹیٹر کے سامنے مزاحمت کاری کے ایک رول ماڈل ہیں جبکہ آج کل دھرنوں کو امپائر کی انگلی اٹھانے کے لیے ایک ذریعے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ قاضی صاحب آپ حریفوں کے ساتھ بھی شائستگی اور تہذیب روا رکھتے جبکہ ناشائستگی اور بدتہذیبی اپنوں میں بھی پسند نہ کرتے تھے۔ جب پرویز مشرف دور میں عمران خان کو پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلباء کے کارکنوں نے پکڑکر زدوکوب کیا تو آپ نے نہ صرف عمران خان سے معذرت کی بلکہ اسلامی جمعیت طلباء کے اُن کارکنوں کی سرزنش بھی کی حالانکہ اسلامی جمعیت طلباء آپ کی پارٹی جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم ہے۔ قاضی صاحب آپ کے جانے کے بعد آئین کی بالادستی اور جمہوری اقدار کے لیے بڑے دعوے کئے گئے۔ اِن بڑے دعوے کرنے والے بڑوں نے پاکستان کی سیاست کو خاندانی سیاست بنا دیا ہے۔ جمہوریت کے یہ دعوے دار جانے سے پہلے اپنے بچوں کے سرپر خاندانی سیاست کا تاج سجاتے ہیں۔ آپ کے جانے کے بعد معاشی ترقی کی منصوبہ بندی کی جاتی رہی۔ ہرطرف سی پیک جیسی ”لکشمی دیوی“ کے چرچے رہے۔ جگہ جگہ بجلی گھر لگے۔ شہرشہر پُرآسائش میٹروبس سروس چل نکلی، اورنج ٹرین کا انجن بھی انگڑائیاں لینے لگالیکن قاضی صاحب آپس کی بات ہے یہ سب سرمایہ داروں کا کھیل ہے اور سرمایہ داری کے نظریئے میں انویسٹمنٹ ہوتی ہے، کارخانوں کی چمنیاں خوب دھواں اڑاتی ہیں، مِلوں کی مشینیں دن رات ٹھکا ٹھک چلتی ہیں، سرمایہ کار امیر سے امیرتر ہوتا جاتا ہے لیکن غریب مزدور بیمار سے بیمارتر ہوتا جاتا ہے اور جوانی میں ہی بوڑھا ہوکر کھانس کھانس کرمر جاتا ہے۔ آپ کے جانے کے بعد معاشی ترقی کے بہت منصوبے بن گئے لیکن آپ کے پاکستان کے کروڑوں بچے ابھی بھی سکول نہیں جاتے، اُن کے پاس ابھی بھی دو جوڑے کپڑے اور ایک جوڑاجوتی نہیں ہے، وہ ابھی بھی سخت سردیوں میں جانوروں کے ساتھ بیٹھ کر گرمی حاصل کرتے ہیں، وہ ابھی بھی گرمیوں میں پیاس سے مرجاتے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ دس برسوں میں انسانی حقوق کے حوالے سے بہت قانون سازی ہوئی لیکن پھر بھی ایک جج کے گھر میں دس سالہ ملازمہ کے ہاتھ جلا دیئے گئے۔ ابھی بھی یہاں کمزور انسانوں کو چوہے سمجھا جاتا ہے اور اُن کے حقوق کی سربلندی کے لیے کالی بلیوں کو تعینات کیا جاتا ہے۔ قاضی صاحب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فروخت ہونے والا دودھ ایسے زہروں سے بھرا ہوتا ہے جو شاید دنیا کے بدترین عقوبت خانے گوانتا ناموبے جیل کے دودھ میں بھی شامل نہیں کئے جاتے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بچوں کے لیے تیار کی جانے والی ٹافیوں وغیرہ میں ایسے زہریلے کیمیکل شامل کئے جاتے ہیں جو شاید اسرائیل کی جیل میں قید فلسطینی بچوں کوبھی نہ دیئے جاتے ہوں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہرگھر میں استعمال ہونے والے مرچ مصالحے میں ایسے زہریلے رنگ ملائے جاتے ہیں جو شاید سوویت یونین نے جہاد افغانستان کے دوران پکڑے جانے والے اپنے دشمنوں کے کھانوں میں بھی نہ ملائے ہوں۔ اب تو پولٹری فارمز میں مرغیوں کو دی جانے والی خوراک کے بارے میں بھی یہ کہا جارہا ہے کہ یہ خوراک کھانے والی مرغیوں کے گوشت سے کینسر جیسی موذی بیماری پھیل سکتی ہے۔ قاضی صاحب آپ نے سیاست کے ساتھ ساتھ معاشرتی برائیوں کے خلاف عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے باقاعدہ تحریکیں چلائیں۔ آپ معاشرتی برائیوں کے خلاف صرف بیان بازی تک محدود نہیں تھے لیکن قاضی صاحب پلیز برا مت مانئے گا، اب آپ ہی کی پارٹی جماعت اسلامی معاشرتی برائیوں کے خلاف محض بیان بازی تک محدود ہے، وہ اب صرف میڈیا پر زندہ رہنے کے لیے مختلف سیاسی ایونٹ ترتیب دے لیتی ہے۔ قاضی صاحب ہمارے ہاں ایک چھوٹا ادارہ ہو یا پورا ملک، چھوٹی جماعت ہویا بڑی سیاسی پارٹی، شخصیات کے جاتے ہی ان کے رنگ کیوں بدل جاتے ہیں؟ قاضی صاحب بات دور نکل گئی، لکھنا یہ تھا کہ آپ کا تعلق دیوبند مسلک سے تھا لیکن آپ کو بریلویوں کی محبت کے انداز میں یاد کیا جاتا ہے۔ بس کہنا یہ ہے کہ قاضی صاحب آپ وزیراعلیٰ یا وزیراعظم نہیں رہے لیکن پھربھی آپ سے بچھڑ کرلوگ افسردہ ہیں۔

تبصرے بند ہیں.