وہی ہے جبر، وہی بے بسی ہماری ہے

36

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پاکستان کو درپیش خطرات اور چیلنجز کا ذکر کر کے کم از کم حکمرانوں پر یہ تو واضح کر دیا کہ ان کی ترجیحات میں اگرچہ یہ چیلنجز شامل نہیں لیکن کبوتر کے آنکھیں بند کر لینے سے بلی واپس نہیں جانے والی۔ آرمی چیف کا یہ کہنا کہ ملک کو معاشی بدحالی سے نکالنے اور دہشت گردی سے بچانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے مل بیٹھ کر سوچنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہو گی، ایک واضح پیغام ہے اور دیکھا جائے تو قومی اصول، آئینی ذمہ داری اور جمہوریت کی پاسداری بھی یہی کہتی ہے مگر پچھلے دس ماہ کی کہانی تو یہ بتاتی ہے کہ سوائے تحریک ِ انصاف اور پاکستان کے عوام کے باقی تمام سیاسی جماعتیں تو پہلے ہی مل بیٹھ کر، اتفاق ِ رائے اور ”حسن ِ عمل“ سے ہی ملک کو باقاعدہ بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے اس حال تک لے کے آئی ہیں۔ یہ جھوٹ بول کر کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے ملک کو برباد کر دیا ہے اور یہ کہ صرف میاں نوازشریف کی اٹل قیادت میں ملک کے انتظامی امور مثالی انداز میں سنبھالنے کی صلاحیت صرف شہباز شریف رکھتے ہیں، جناب اسحاق ڈار سے بڑھ کے دنیا کا کوئی ماہر اقتصادیات پاکستان کو معاشی ترقی کی راہ پر لانے کا اہل نہیں نا ہی بلاول بھٹو زرداری سے زیادہ کوئی اور پاکستان کے خارجہ پالیسی محاذ پر لڑنے کی قابلیت رکھتا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن نتائج سے پتہ چلا کہ ان کے حقیقی مقاصد میں صرف اور صرف اپنے کیسز ختم کرانا، پاکستان کی اچھی خاصی ٹریک پر آتی معیشت کو واپس تباہی کے گڑھے میں پھینکنا اور ہر حال میں اپنے اقتدار کو طول دینا سر ِ فہرست تھا جس میں وہ اتفاق ِ رائے اور متفقہ عمل سے سو فیصد کامیاب رہے۔ اب ان کا اگلا مقصد صرف اور صرف الیکشن کو اس وقت تک ٹال کے اقتدار میں رہنا ہے جب تک ان کو یقین نہ ہو جائے کہ وہ پاکستانی عوام اور عمران خان کو اقتدار میں آنے سے روک کر دوبارہ اقتدار پر قابض ہو سکتے ہیں۔ ماضی کے حالات سے یہ بھی
لگتا ہے کہ وہ اپنے اس مقصد میں بھی ماضی کی طرح کامیاب رہیں گے۔ جب تک پاکستان کا چپہ چپہ بیچ نہیں دیا جاتا اور عوام کو غلامی کی صلیب پر لٹکا کے زمانے بھر کو دکھا نہیں دیا جاتا۔ ان میں اتفاق رائے بھی رہے گا اور عملی یکجہتی بھی۔ یہ سب مل کے اس وقت تک قرض اتارو ملک سنوارو جیسے چکمے بھی دیتے رہیں گے عوام کو گھاس کھانے کے مشورے اور صبر کی تلقین بھی برابر جاری رکھیں گے تاکہ ملک کے حقیقی اور فوری توجہ طلب مسائل تاخیر کا شکار ہوتے رہیں۔
نہ مجھے صبر کی تاکید سے مار
رحم کر حربہئ تاخیر بدل
جب دعاؤں میں نہ دل شامل ہو
عرش پر جاتی ہے تاثیر بدل
صاف نظر آ رہا ہے کہ فوج اور عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے دہشت گردی اور افغانستان دونوں کو پاکستان کے خلاف متحرک رکھا جائے گا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس بار ہندوستان استعمال ہونے سے انکار کر دے کیونکہ ایک تو وہ پورے خطے کی بدلتی ہوئی سیاست اور معاشی پیراڈائم شفٹ کو سمجھ رہا ہے اور دوسرا چین سے سرحدی تنازعات خود اس کے اپنے لیے درد ِ سر بنے ہوئے ہیں۔ بھارت کی تو یہ سوچ بھی بہت واضح ہے کہ جب پاکستان اپنی موت آپ مر رہا ہے تو انہیں کیا ضرورت ہے مفت میں اپنا وقت، وسائل اور انرجی ضائع کرنے کی۔ بات ہے بھی درست پچھتر سالہ دشمنی، متعدد جنگوں اور پراکسیز کے باوجود ہندوستان ہمیں وہ نقصان نہیں پہنچا سکا جو ہم نے خود اپنے ملک کو پہنچایا ہے۔ سیاست اور اقتصادیات کے ایک معمولی سے طالب علم کی حیثیت سے میرا مشاہدہ و مطالعہ یہ کہتا ہے کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج اقتدار کی ہوس میں اندرونی بیرونی قوتوں سے ہر طرح کی سودے بازی کے لیے تیار شخصیات اور خاندان ہیں۔ کیونکہ ان کی مداخلت یا موجودگی میں کسی چیلنج سے نمٹنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے اور یہ مافیاز اتنے طاقتور ہیں کہ جب چاہیں کسی کو مجرم بنا دیں اور جب چاہیں مجرم سے مظلوم بن کر دندناتے ہوئے عدالتوں سے باہر آ جائیں۔ کتنی سادہ سی بات ہے کہ اگر یہ خاندان اور مافیاز جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو الیکشن سے فرار کیوں حاصل کر رہے ہیں اور اگر الیکشن سے بھاگ رہے ہیں تو ثابت ہوا کہ یہ سب جمہوری نہیں بلکہ فقط بچے جمورے ہیں جو کسی اور کے اشاروں پر ناچتے ہیں اور ملک و قوم کو نچا کے رکھتے ہیں۔ پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کرنے والے اور چیلنجز پیدا کرنے والے چیلنجز کا سامنا کرنے اور ان پر قابو پانے کے لیے کیوں مل بیٹھیں گے۔ اس وقت ملک و قوم کی اس ڈوبتی کشتی کو بچانے کی سب سے بھاری ذمہ داری خود آرمی چیف پر آ پڑی ہے۔ ایک طرف پاکستان دشمن بین الاقوامی قوتیں اور اقتدار کے پجاری کرپٹ سیاستدان ہیں اور دوسری طرف بے بس پاکستان اور اس کے مجبور و بے کس عوام ہیں۔ خطرات حد سے زیادہ ہیں اور بچ نکلنے کے لیے جرأت اور رب کے بھروسے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ پاکستانی عوام کا بھروسہ مجروح اور اعتماد متزلزل ہے۔ آدھے سے زیادہ تو اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر چکے ہیں اور باقی کسی معجزے کے انتظار میں ہیں۔
وہی ہے جبر، وہی بے بسی ہماری ہے
وہی خدا ہیں، وہی بندگی ہماری ہے
نہ دکھ ہیں بدلے، نہ دکھ دینے والے بدلے ہیں
وہی نصیب، وہی زندگی ہماری ہے
ہے کب کسی کے کہیں آنے جانے سے بدلی
یہ مستقل ہے، جو لاچارگی ہماری ہے
ہمیں پتہ ہے، نہیں ہے بہادری اس کی
ہمیں پتہ ہے کہ یہ بزدلی ہماری ہے
شکم کی آگ کے آنکھوں سے بہہ نکلنے میں
کسی کا دوش نہیں کج روی ہماری ہے
ہمارے وہموں کی ترتیب کو نہ چھیڑے کوئی
کہ اب، حضور! اسی میں خوشی ہماری ہے
عدالتیں ہوں یا سرکار ہو یا دیگر ہوں
سبھی ہے انکا، فقط شاعری ہماری ہے
بلند و برتر و اعلیٰ براے عز و جلال
اسے بھی دیکھ جو بے مائیگی ہماری ہے
خدائے غم تری تقسیم کو سمجھتے ہیں
خوشی ہے اوروں کی آذردگی ہماری ہے
تمہارے ظلم کا انجام ہونے والا ہے
ہمیں یقین ہے اگلی صدی ہماری ہے

تبصرے بند ہیں.