بیڈ گورننس کا سال (2)

12

پاکستان کی بیوروکریسی ، سروس اور سسٹم کے حوالے سے یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ اپنی افادیت کھو رہا ہے یا کھو چکا ہے ، اچھے افسروں کی اب بھی کمی نہیں مگر موجودہ سسٹم میں شائد وہ ڈلیور نہیں کر پا رہے یا حکمران انہیں ناکارہ بنانے کا فن جان چکے ہیں ،میری بیوروکریسی ،ان کی بیوروکریسی کے تصور نے بھی ہمارے افسروں اور گورننس کو نقصان پہنچایا ،اگر آپ گزرے سال پر نظر ڈالیںتو اچھی گورننس کی بجائے ہر طرف بیڈ گورننس نظر آتی ہے ، بنیادی وجہ آئین،قانون اور رولز پر عملدرآمد نہ ہونا بھی ہے،اس کی بجائے نوکری پکی کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی راہ نکالنے کا کلیہ استعمال کیا جاتا ہے ،گئے وقت میں بڑے بیوروکریٹس سسٹم کے علاوہ خود بھی آنے والے جونیر افسروں کی تربیت کیا کرتے تھے جو اب خال خال ہی نظر آتی ہے۔
بیڈ گورننس کے حوالے سے میرے پچھلے کالم پرایک اعلیٰ خاتون افسر نے بڑا دلچسپ تبصرہ کیا ،وہ کہتی ہیں” سادہ سا اصول ہے“جیسی قوم ویسی بیوروکریسی”ہم بحیثیت قوم جتنے اچھے ہوں گے اتنے ہی اچھے ہمارے افسر ہونگے، یہ اصول اکثریت کیلئے ہے،چند سر پھرے افسر البتہ قوم کے زوال کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے اور معتوب ٹھہرائے جاتے رہیں گے“ان کا تبصرہ دراصل آئینہ ہے پاکستانی قوم کیلئے اور انہوں نے ایک آفاقی دستور کا حوالہ دیا ہے کہ”جیسی روح ویسے فرشتے“۔
ایک اور مہربان دوست افسر اپنے تبصرہ میں ایک دوسری حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے کہ رہے ہیں ”میکس ویبر نےتو صرف دو قسم کے بیور و کریٹس کا تذکرہ کیا ہے مگر ہمارے ہاں ان کی کئی قسمیں ہیں، ایک قسم وہ ہے جو دیانت دار مگر بے لچک افسروں پر مشتمل ہے،انہیں منفی دیانت دار کہ لیں یہ اپنے سوا سب کو غلط سمجھتے ہیں اس لئے ان کے پاس جو فائل جاتی ہے وہ بار بار اعتراض لگا کر واپس آ جاتی ہے اگر کسی دن ان کے ہاتھ سے کوئی کام ہو ہی جائے تو ماتحت عملہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے ،ایک اور قسم ان افسروں کی ہے جن کے نزدیک باس کا حکم ہی سب کچھ ہے اورکا فامولا انکی کامیابی کی ضمانت ہے، مگر ایسے افسروں کو بعد میں نیب اور دوسری تحقیقات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔میرے اس بیوروکریٹ افسر کے نزدیک سب سے اہم قسم کے وہ افسر ہوتے ہیں جو دیانت داری کے ساتھ زمینی حقائق کو بھی مد نظر رکھ کر کام کرتے ہیں ،وہ رولز پر یقین رکھتے ہیں مگر یہ بھی سمجھتے ہیں کہ رولز انسانوں کے لئے بنے ہیں انسان رولز کے لئے نہیں بنے “۔
بیوروکریسی کے حوالے سے میکس ویبر نے جو اصول بیان کئے ہیں ان میں عقلیت،درجہ بندی،مہارت،قواعد پر مبنی فیصلہ سازی، اصول و ضوابط اور ماتحت عملہ میں کام کی تقسیم کو بیوروکریسی کی نمایاں خصوصیت قرار دیا گیا ہے ،،ویبر کہتے ہیں،اتھارٹی کی درجہ بندی،رسمی اصول و ضوابط،کام کی تقسیم،کیرئر اورئینٹیشن کا عمل بیوروکریسی کے کام کو نکھارتا ہے۔ان کی منطق سے قطع نظر میرے نزدیک ایک عام اصول جو کسی بھی بیوروکریسی کے کام کے نتائج کو یقینی بناتا ہے وہ ”دیانتداری“ہے۔
بیوروکریٹ جس ادارے سے منسلک ہے اس کا نفع نقصان دیکھ کر دیانتداری سے اس سوچ کیساتھ فیصلہ کرے کہ اس ادارہ کا مالک وہ خود ہے،اس کا نفع بھی اس کا اور نقصان بھی اگر ہو گا تو اسی کا ہو گا،مگر اس کیلئے بیوروکریسی کو فیصلوں کا اختیار دینا ہو گا،اسی بات کو ویبر نے یوں بیان کیا ہے کہ”بیوروکریٹک تنظیم کے دو بنیادی اجزا ہوتے ہیں،”چین آف کمانڈ “ اور کسی بھی تنظیم میں ”با اختیار“ہونا،یہ دو اجزاوہ تنظیم تشکیل دیتے ہیں جسے اتھارٹی کی درجہ بندی کہا جاتا ہے،یہی اتھارٹی احکامات صادر کرنے کیلئے باقاعدہ اصول فراہم کرتی ہے، ایک مثالی بیوروکریسی میں رسمی قواعد و ضوابط وہ رہنماءخطوط ہیں جو بتاتے ہیں کہ معاملات کو کیسے ڈیل کرنا اور فرائض منصبی کو کیسے ادا کرنا ہے،”افراد کی تقسیم کا اصول بہت اہم عمل ہے،درست جگہ پر درست شخص کی بر وقت تعیناتی کسی بھی بیوروکریٹ کی قوت عمل کا ثبوت ہوتی ہے،ماتحت عملہ میں مناسب کام کی تقسیم کسی بھی ادارے کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے،اس عمل سے ذہین اور محنتی افراد کی نشاندہی بھی ہوتی ہے اور ایک کار آمد ٹیم کی تشکیل میں بھی آسانی،کام کا معیار بھی بہتر ہوتا ہے وقت اور وسائل کی بھی بچت کی جا سکتی ہے،مقاصد حاصل کرنے کیلئے بیوروکریسی کو خود مختار اور غیر جانبدار ہونا چاہئے،اپنے کام میں مہارت، قابلیت اور صلاحیت اضافی خوبیاں شمار ہونگی۔
اسی طرح مثالی بیوروکریسی میں کیرئر سازی کا اصول یہ ہے کہ ملازمین کو کیرئر بنانے کے مواقع فراہم کئے جائیں،ایک کلیدی اصول یہ بھی ہے کہ انتظامیہ کارکنوں کی ملازمت کو تحفظ دے اور اچھی کاکردگی پر انعامات تفویض کرے تاکہ محنت کرنے اور دلجمعی سے فرائض کی انجام دہی کا جذبہ پیدا ہو، طویل مدتی کیرئیر کی ترغیب دینے سے بھی ایک اچھی ٹیم تشکیل دینے میں مدد مل سکتی ہے،ہر شخص ہر کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہر کسی کی دلچسپی بھی جدا ہے اورانہیں اس کے مطابق کام تفویض کیا جائے۔
بیوروکریسی در اصل حکومتی تنظیم میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کیلئے قواعد و ضوابط کا نام ہے،بیوروکریسی اس لئے بھی اہم ہے کہ وہ کسی بھی ادارے یا حکومت میں ریاست،حکومت اور عوام کے مفادات کی نگران ہوتی ہے،بیوروکریسی قواعد قوانین پر عملدرآمد کا نام ہے،اور اگر اس کیلئے خود کوئی ضابطہ قاعدہ نہ ہو تو وہ ادارہ یا حکومت بہتر انداز سے نہیں چلائی جا سکے گی،اس کیلئے ضروری ہے کہ بیوروکریسی کو اختیار،اعتماد، اور مناسب مہلت دی جائے،اس حوالے سے ہمارے ہاں بھی قوانین اور اصول و ضوابط موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد کم ہی ہوتا ہے،مثال کے طور پر چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے لئے چار سال،سیکرٹریز، سپیشل سیکرٹریز، ایڈیشنل سیکرٹریز، ڈپٹی سیکرٹریز اور سیکشن آفیسرزکی تعیناتی کے لئے تین سال کی مدت تعیناتی کا کہا گیا ہے مگر حکمران معمولی سی بات پر قبل از وقت ان کا تبادلہ کر کے ان کے سب کئے کرائے پر پانی پھیر دیتے ہیں اور نئے آنے والے پھر زیرو سے شروع ہو جاتے ہیں،کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز اور علاقائی دفاتر کے سربراہان کی تعیناتی کی مدت 3سال ہے،مگر شائد کوئی خوش قسمت افسر ایسا ہو جس نے اپنی مدت تعیناتی کسی حکومت میں مکمل کی ہو،اسی وجہ سے ہمارے ہاں کا بیوروکریٹک سسٹم مضبوط نہیں ہو سکا،اس طرز عمل سے بیوروکریسی ٹیم بن سکی نہ ہی ماہر افراد کی کھیپ تیار کی جا سکی ہے، بیوروکریسی کو طاقت،اختیار،درجہ بندی،اور سماجی عدم مساوات کے مسائل کو حل کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے،بیوروکریسی ریاست سمیت کسی بھی تنظیم کی ترقی،خوشحالی،استحکام میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے،بلکہ ان مقاصد کیلئے ناگزیر ہوتی ہے،مگر ہم نے اس فورس کو استعمال کر کے عوام کو ریلیف دینے، ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔

تبصرے بند ہیں.