عارضی ملازمین کے بھی حقوق ہونے چاہئیں

26

حکمران طبقہ میں صرف وہ لوگ شامل نہیں جو مسند اقتدار پر براجمان ہیں بلکہ وہ بھی شامل ہیں جو حصول اقتدار کے انتظار میں ہیں یابڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز ہیں اور سرکاری وسائل سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہو رہے ہیں۔حتیٰ کہ ان لوگوں کے بڑے سے لے کر چھوٹے لیول کے چمچے بھی اپنے آپ کو حکومت ہی سمجھتے ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ مذکورہ بالا لوگوں میں سے زیادہ تر ایک منافقانہ اور دوہرے معیار کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کسی جلسے جلوس میں یا عام پبلک میٹنگز میں یہ لوگ غریب پروری کا دم بھرتے نظر آتے ہیں، ان سے بات ہو تو لگتا ہے کہ ان سے بڑا غریبوں کا ہمدرد ہی کوئی نہیں، لیکن عملی طور پر ان کے عمل اور رویے اس کے بالکل برعکس ہیں۔
گزشتہ روز پی ایچ اے (پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی) کے ایک انتہائی نچلے درجے کے ملازم سے بات ہوئی۔ غربت،افلاس، مجبوری اور بے بسی کے پیکر نے باتیں تو کئی کیں لیکن ایک بات نے تو دل پر ہاتھ ڈال لیا۔ کہنے لگا کہ شکر اللہ تعالیٰ نے کچھ نہ کچھ معاملات اپنے ہاتھ میں ہی رکھے ہوئے ہیں۔ اگر’ان‘ ظالموں کے بس میں ہوتا تو شائد یہ ہمارے منہ کا نوالہ تک چھین لیتے۔یقینا اس کا اشارہ ان کرداروں کی جانب تھا جو سالہا سال سے اس کا اور اس جیسے دیگر ہزاروں ملازمین کا معاشی استحصال کر رہے ہیں۔ چند سال پہلے تک باغ جناح کے علاوہ تمام چھوٹے بڑے پارکس اور گرین بیلٹس ایل ڈی اے (لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کے تحت آتے تھے۔ پھر ہم سب کے ہر دل عزیز اور ہر حکومت کے قریب سمجھے جانے والے کامران لاشاری صاحب کی تجویز پر پی ایچ اے کا محکمہ وجود میں آیا اور لاشاری صاحب ہی اس کے
پہلے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔ ابتدائی طور پر تو پی ایچ اے کا محکمہ اپنے ملازمین کے لیے بہت اچھا رہا اور یہاں زیادہ تر ملازمین سرکاری نوکری کے بھرپور مزے اڑاتے رہے لیکن پھر رفتہ رفتہ یہاں معاملات بگڑتے چلے گئے اور اب، خاص طور پر نچلے گریڈ کے ملازمین کا، یہ عالم ہے کہ وہ یہاں پر نوکری صرف اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔
ہمارے حکمران جو سیاسی جلسوں میں تو غریب پروری کے بڑے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں ان کی حقیقت یہ ہے کہ صرف پی ایچ اے میں اس وقت تین ہزار سے زائد ملازمین ڈیلی ویجز پر کام کرتے ہیں اوران میں سے اکثر وہ ہیں جنہیں اس غیر یقینی کیفیت میں کام کرتے ہوئے بیس برس سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ اس مدت میں آمریت بھی رہی اور مختلف سیاسی پارٹیوں کی حکومت بھی رہی لیکن ان بیچارے ملازمین کے حقوق کا کسی کو خیال نہیں آیا۔
کیا یہ موجودہ اور سابقہ حکومتوں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ نہیں کہ ہزاروں لوگ سالہا سال سے ایک سرکاری ادارے میں کام کر رہے ہیں (ان سے کچھ تو تقریباً بیس سال سے ڈیلی ویجز پر ہی چلے آ رہے ہیں) لیکن ان کے لیے نا کوئی نوکری کا تحفظ ہے، نہ انکریمنٹ، نہ کوئی ریٹائرمنٹ کے فوائدحتیٰ کہ کوئی ہفتہ وار چھٹی تک نہیں۔ یعنی اگر کسی مجبوری میں کوئی چھٹی کر لی ہے تو اس دن کی تنخواہ نہیں ملے گی۔ اتنے مخدوش حالات تو شائد گھریلو ملازمین کے بھی نہیں ہوتے۔
ہم نے دیکھا کہ ڈاکٹر، نرسیں، ٹیچرز اور کلرک وغیرہ اپنے حقوق کے لیے مظاہرے کرتے ہیں اور دھرنے وغیرے دیتے ہیں اور اس ذریعے سے حکومت سے کسی نہ کسی حد تک اپنے مطالبات منوا بھی لیتے ہیں۔ لیکن ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے یہ بے چارے سرکاری ملازمین تواپنے معاشی مسائل کی وجہ سے اس قدر بزدل اور مجبور ہو چکے ہیں کہ تمام تر استحصال کے باوجود کم ترین تنخواہ اور ایک بے یقینی کی کیفیت میں سالہا سال سے کام کیے چلے جا رہے ہیں لیکن اپنے حقوق کے لیے آواز تک اٹھانے کی جرأت نہیں کرتے۔ واضح رہے کہ اسی پی ایچ اے میں بہت تگڑی ورکرز یونین بھی ہے جو الیکشن سے پہلے تو ان مجبور ملازمین کو بھر پور انداز میں سبز باغ دکھاتے ہیں لیکن الیکشن جیتنے کے بعد تو کون اور میں کون۔ شائد سی بی اے والے بھی یہ رویہ اپنے ان قومی راہنماؤں کی تقلید میں اختیار کرتے ہیں جو پوری بے شرمی اور ڈھٹائی سے باتیں تو غریب پروری کی کرتے ہیں، ان کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں بھی پہنچنا چاہتے ہیں اور پھر جھنڈے والی گاڑی میں بھی گھومنا چاہتے ہیں لیکن ان کی حقیقی بہبود کے لیے کچھ کرتے ہوئے ان کی جان پر بن آتی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ مخالفین سے کوئی چھوٹا موٹا تنازع بھی ہو تویہی سیاسی لیڈرکسی بھی ٹی وی ٹاک شو میں جانے سے پہلے پورا آئین اور متعلقہ قوانین زبانی یادکرلیتے ہیں لیکن ان بیچارے ڈیلی ویج ملازمین کے حقوق سے متعلق اگر کوئی بات کی جائے تو گم سم سے ہو جاتے ہیں اور اس بنیادی قانون کے بارے میں اگر پتا بھی ہے تو لاعلم بن جاتے ہیں جو کہتا ہے کہ کوئی بھی شخص اگر کسی ادارے میں نوے دن سے زائد تعینات رہے گا تو وہ ریگولر ملازم تصور ہو گا۔ اگر کئی سال سے جاری اس استحصال اور جبرکو ایک غلطی بھی تسلیم کر لیا جائے تو کیا اب یہ میاں شہباز شریف، چوہدری پرویز الٰہی، میاں محمود الرشید اور پی ایچ اے کے ڈائریکٹر جنرل کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری نہیں کہ ان ڈیلی ویج ملازمین کو فوری طور پر ریگولر کیا جائے۔

تبصرے بند ہیں.