رواں سال غروب ہو رہا ہے جبکہ ایک اور نیا سال بانہیں کھولے سامنے کھڑا مسکرا رہا ہے،آنے والے سال سے امیدیں ہی باندھی جا سکتی ہیں مگر جاتا ہوا سال ہمیں بہت کچھ بتا گیا ہے ،اس کے بتائے ہوئے کو سامنے رکھ کرآنے والے کل کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔اس جاتے ہوئے سال گورننس بھی ڈوبتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے،بیوروکریسی،انتظامی معاملات،تقرر تبادلوں کو دیکھتے ہوئے دل خون کےآنسو رو رہا ہے، سردی اور دھند میں سوچنے سمجھنے کے ساتھ ساتھ پڑھنے پڑھانے کا موقع کچھ زیادہ ہی مل رہا ہے ، بیوروکریسی ،انتظامی معاملات کے متعلق پڑھنا اور ان سے جڑے لوگوں سے ملنا مجھے پسند ہے۔ امید کرنی چاہئے کہآنے والا سال بیوروکریسی اورانتظامی معاملات کے حوالے سے بہتر ہو مگر رواں سال اس سلسلے میں کوئی اچھی مثالیں چھوڑ کر نہیں جا رہا بلکہ اپنی بیڈ گورننس کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔پچھلے دنوں ،میں کینیڈا میں تھا اور وہاں سے آنے کے بعد مجھے اسلام آباد اور لاہور میں گورننس سے متعلق دوستوں سے ملاقاتوں کا موقع ملاانکی اکثریت کے خیالات موجودہ حالات میںگورننس اور بیوروکریسی کے متعلق کچھ زیادہ امید افز انہیںتھے۔مرکزاور پنجاب ہمیشہ سے اچھی گورننس اور اچھے بیوروکریٹس کی عکاسی کرتے تھے مگر اب یہاں بھی سب اچھا نہیں ہے۔غور کیا جائے تو کسی بھی ریاست،بڑی یا چھوٹی کاروباری،سماجی،معاشی،سیاسی،معاشرتی تنظیم میں بیوروکریسی کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،قدیم دور سے ریاست کے تین ستون کا نظریہ اپنایا گیا،اس میں وقت اور حالات کیساتھ تبدیلی رونما ہوتی رہی مگر انتظامیہ کا کردار ہر دور میں مسلمہ رہا،مقننہ کومعتبر ترین ادارہ سمجھا جاتا ہے اس کا کام قانون سازی،اصول و ضوابط کی تشکیل ہے،عدلیہ کا کانام کچھ بھی رکھ لیں مگر اس کا بنیادی کام عوام کو انصاف کی فراہمی،حکمران طبقہ کو آئین کی حدود میں پابند کرنا ہے،انتظامیہ جسے ہر دور میں نیا نام دیا گیا کبھی افسر شاہی کبھی نوکر شاہی،کبھی گورنمنٹ سرونٹ اور کبھی پبلک سرونٹ،جدید دور میں اسےبیوروکریسی کا نام دیا گیا ہے ستم یہ کہ ان میں سے ہر نام توہین،تضحیک،طعن و طنز کے طور پر دیا گیا،اس کے باوجود انتظامیہ کے طور پر یہ ہر دور میں کسی بھی حکومت کا چہرہ رہی، تمام ریاستی امور کی انجام دہی انتظامیہ کی آئینی ذمہداری رہی،مگر بیوروکریسی کے اختیارات پر ہر دور میں قد غن لگائی گئی،حکمران طبقہ نے اسے ریاستی کے بجائے ذاتی ملازم کا درجہ دیدیا،تعیناتی،ترقی، فرائض کی تقسیم تک کے کام ان کے ہاتھ سے لے لئے گئے مگر کارکردگی کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا،ایسے حالات میں جب بیوروکریسی سے آئینی اختیارات بھی سلب کر لئے جائیں ان کو ٹیم بنانے کی بھی آزادی نہ ہو،کسی بھی ایشو کے حل کیلئے طریقہ کار طے کرنے کی بھی اجازت نہ ہو تو کارکردگی کا تقاضا انتہائی درجے نا انصافی ہے۔ جب مرکز اور صوبوں کے حکمران کلیدی عہدوں پر ایسے لوگوں کا تقرر کرنا شروع کر دیں جو ان کے احکامات پر آنکھیں بند کر کے عمل کریں تو پھر گورننس اور انتظامی معاملات کرپشن کی طرف اشارہ دیتے ہیں اور موجودہ دور کے حمام میں سب ننگے بلکہ دھڑنگے ہیں۔کسی وقت میں دو یا تین سال سے پہلے کسی افسر کو تبدیل کرنا حیرت کا باعث ہوتا تھا اور اس پر انگلیاں اٹھائی جاتی تھیںمگر اب تو جس کی لاٹھی اسکی بھینس کی بجائے ،،جس کی لاٹھی اس کا افسر ،، کا محاورہ بن چکا ہے۔ارکان اسمبلی کو اپنی مٹھی میں رکھنے بلکہ اپنے ہوٹل میں رکھنے کے لئے سب کچھ جائز ہو چکا ہے۔ایک بہت ہی محنتی اور اپ رائٹ سیکرٹری کو ایک سال میں چھ بار تبدیل کر دیا جاتا ہے کیونکہ وہ قانون ضابطے کو مقدم رکھتا ہے اور کتاب کے مطابق چلنا چاہتے ہے ،وہ سمجھ نہیں پا رہے کہ اب اکارڈنگ ٹو بک کی بجائے ،،اکارڈنگ ٹو چک ،،چلنا ہوگا ،یہ قانون ظابطے اب پرانی باتیں ہیں۔
آج اچانک مجھے جرمن ماہر عمرانیات میکس ویبر یاد آ گئے جنہوں نے بیوروکریسی پر بہت کام کیا جس کی تاریخ انسانی میں مثال تلاش نہیں کی جا سکتی،انہیں اس حوالے سے اتھارٹی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، ایک صدی سے زائد عرصے کے بعد بھی انکی باتوں کو پرکھا جائے تو وہ اب بھی کامآ سکتی ہیں بلکہ اکثر ملکوں میں انہی کو بنیاد بنا کر کام چلایا جا رہا ہے ، میکس کہتے ہیں بیوروکریسی معقول اتھارٹی کی سماجی تنظیم ہے، یہ تنظیمی انتظام کی ایک شکل ہے جو بڑی تنظیموں اور ان کے پیچیدہ انتظامی کاموں کو سنبھالنے کے لئے تیار کی گئی ہے، میکس ویبر کے مطابق بیوروکریسی کی مثالی قسم وہ ہے جسے مشین کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے، اس مشین نما تنظیم کے تین اہم اجزاءہیں،مختصر افرادی قوت، درجہ بندی اوراتھارٹی ،میکس ویبر کا خیال تھا کسی بھی بدعنوانی سے بچنے کے لئے بیوروکریسی کی مثالی قسم درکار ہے اسے آئیڈیل ٹائپ آف بیوروکریسی کا نام دیاجا سکتا ہے،جس میں بیوروکریسی کے تمام پہلوﺅں کا سائنسی طور پر مطالعہ کیا جائے ، ان کا خیال تھا کسی بھی بدعنوانی سے بچنے کے لئے بیوروکریٹ کی مثالی قسم ہی حتمی مقصد ہے،میکس ویبر قسم کی بیوروکریسی ایک ایسی انتظامیہ ہے جو پروٹوکول کی سختی سے پابندی کے ساتھ قواعد و ضوابط کو برقرار رکھتی ہے،جو رہنما خطوط لکھے جاتے ہیں، ان پر عمل کیا جاتا ہے، اور ملازم سے ملازم تک مسلسل نافذ کیا جاتا ہے۔بیوروکریسی قواعد و ضوابط کا ایک ایسا نظام ہے جو کسی تنظیم یا معاشرے کے کام کو ہر ممکن حد تک موثر اور معقول بنانے کے
لئے بنایا گیا ہے۔میکس نے بیوروکریسی کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے،”رسمی بیوروکریسی“اور”غیر رسمی بیوروکریسی“پہلی قسم میںباضابطہ بیوروکریٹک نظام ہے جس میں واضح تحریری قواعد ہوتے ہیں جو تنظیم کی درجہ بندی کے ڈھانچے کے ذریعہ نافذ ہوتے ہیں، جبکہ دوسری قسم کے نظام میں کسی بھی باضابطہ عمل سے باہر کام کیا جاتا ہے ، ان میں غیر تحریری اصول شامل ہو سکتے ہیں کہ فیصلے کیسے کئے جائیں یا کون سی معلومات شیئر کی جائیں۔ان کے مطابق بیوروکریسی قواعد کا ایک نظام ہے جو کسی تنظیم کے ذریعہ نافذ کیا جاتا ہے اور بیوروکریٹس کو تنظیموں میں لوگوں کے روئیے کنٹرول کرنے اور ان کو منظم کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے،ان کے نزدیک دوسری طرف بیوروکریسی اکثر سرخ فیتے کے ساتھ منسلک ہوتی ہے،جس سے مراد ضرورت سے زیادہ پیچیدہ انتظامی طریقہ کار ہے جو فوری فیصلوں اور عمل کو روکتے ہیں،بیوروکریسی تنظیم کا ایک ایسا نظام ہے جہاں فیصلے کرنے اور ان کو نافذ کرنے کا اختیار ایک فرد یا گروہ کے پاس ہوتا ہے،بیوروکریسی کو بہت زیادہ سخت ہونے اور کافی لچک نہ دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے،بیوروکریٹس کو اکثر غیر موثر دیکھا جاتا ہے کیونکہ انہیں بہت زیادہ کاغذی کارروائی کی ضرورت ہوتی ہے، ویبر کے نزدیک بیوروکریسی غیر ذاتی ہوتی ہے کیونکہ اس میں بیوروکریٹ اور بیوروکریسی کے ذریعے معاملات کو قواعد و ضوابط کے مطابق چلایا جاتا ہے ،انسانی شکلیں یا تعلقات دیکھ کر نہیں چلایا جاتا۔(جاری ہے)
تبصرے بند ہیں.