جاری حالات کیسے ٹھیک ہوں گے؟

8

شیر علی خالطی قومی صحافتی دنیا کے ایک ابھرتے ہوئے ستارے ہیں روشن اور دمکتے ہوئے ستارے کے طور پر وہ آسمانِ صحافت میں ایک نمایاں مقام کے حامل ہیں ایک معتبر قومی انگریزی اخبار سے منسلک ہیں خبریں ڈھونڈنا، حقائق تلاش کرنا اور انہیں درست سیاق و سباق میں قارئین کی نذر کرنا ان کا خاصا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر بھی بطور تجزیہ نگار دکھائی دیتے ہیں۔ عوامی مسائل اور پسے ہوئے طبقات کے مسائل پر دبنگ انداز میں اور بلند آہنگ میں گفتگو کرنے میں خصوصی ملکہ رکھتے ہیں کبھی کبھی ان سے ملاقات ہوتی ہے گفتگو ہوتی ہے تو ان کے تجزیے سے بھی لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے اوراندر کی باتیں بھی جاننے کا موقع ملتا ہے۔ گزشتہ روز ان سے ایک ٹی وی مذاکرے میں بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ جاری سیاست کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان جاری سیاست میں کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کی اہمیت میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔ اپریل 2022 میں ووٹ آف نو کانفیڈنس کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے رخصتی کے بعد سے ہنوز عمران خان کی سیاست ہر روز بند گلی کی طرف جاتی رہی ہے۔ انہوں نے استعفوں سے لے کر اسمبلی توڑنے تک ہر حربہ استعمال کر کے دیکھ لیا ہے۔ پنجاب اور کے پی کے اسمبلی توڑنے کا حتمی آپشن بھی استعمال کر کے اپنے پاس ترپ کا آخری پتہ بھی کھیل دیا ہے لیکن نتیجہ صفر ہے حکومت کسی طور بھی عمران خان کے کسی مطالبے کو ماننے پر تیار نظر نہیں آ رہی ہے۔ لانگ مارچ، شارٹ مارچ میں بدلا، دھرنا، مظاہروں میں بدل گیا اب صرف اور صرف خطاب ہی رہ گیا ہے جو عمران خان زمان پارک والے اپنے گھر میں بیٹھ کر ہی کرتے ہیں جبکہ ان کے چاہنے والے کبھی لبرٹی چوک میں جمع ہو کر اور کبھی گورنر ہاؤس کے سامنے اکٹھے ہو کر سنتے ہیں او ر سر دھنتے ہیں ایسے پروگراموں میں عامتہ الناس کی شمولیت کا گراف گرتے گرتے کہیں غائب ہو چکا ہے اور ہاں کہا یہ جاتا ہے کہ عمران خان کی عوامی مقبولیت میں بہت اضافہ ہو گیا ہے پی ٹی آئی کی پروپیگنڈہ مشینری عمران خان کی عوامی پذیرائی کے بارے میں تاثر پھیلانے کے لئے سردھڑ کی بازی لگا رہی ہے کہ اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد ان کی عوامی پذیرائی میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی والے فوری عام انتخابات کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ عوام انہیں دوتہائی اکثریت دے کر واپس اقتدار میں لے آئیں گے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کے مارچوں، دھرنوں اور جلسے جلوسوں میں عوامی شمولیت کا گراف شرمناک حد تک گر چکا ہے لیکن وہ جھو ٹ پر جھوٹ بولتے چلے جا رہے ہیں۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ قومی اور عوامی معیشت کی حالت بھی دگرگوں ہے۔ قدر زر پست ترین سطح تک جا پہنچی ہے افراطِ زر حیران و پریشان کن حد تک بڑھ چکا ہے بے روزگاری عام ہے۔ ذرائع آمدن سکڑ رہے ہیں۔ معاشی نموبدحالی کا شکار ہے لوگوں کے لئے دو وقت کی نہیں ایک وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل سے مشکل تر ہو چکا ہے درآمدات کی ادائیگیوں کے لئے زرمبادلہ
دستیاب نہیں ہے، بجلی و گیس کے شعبے کے نقصانات سرکلر ڈیبٹ ناقابل بیان حد تک بڑھ چکا ہے۔ عالمی قرضوں کا حجم فی الاصل ناقابل بیان ہو چکا ہے طے شدہ ادائیگیوں کے لئے بھی مزید قرض لینا پڑ رہا ہے معیشت کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جو بدحالی کا شکار نہیں ہے صنعتی شعبہ کی حالت دگرگوں ہو چکی ہے فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ لوکل سرمایہ کاری بھی نہیں ہو رہی ہے۔ معاشی تاثر مکمل طور پر منفی نظر نہیں آ رہا ہے۔
عالمی معاشی صورت حال بھی پریشان کن ہے۔ کووڈ 19 کے بعد موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں معاملات خراب ہوئے ہیں۔ سال بھر سے جاری یوکرائن کی جنگ نے بھی عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ عالمی سپلائی چین بری طرح متاثر ہے۔ توانائی کی عالمی منڈی بھی پریشان صورت حال کا شکار ہے یہ سارے عوامل بھی پاکستان کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ معاشی نمو میں گراوٹ اس کا واضح ثبوت ہے۔ معیشت چاہے عالمی ہو یا ہماری قومی اس کے فوری بہتری کے امکانات نظر نہیں آ رہے ہیں۔ یوکرائن جنگ کا دائرہ کار گھٹنے کے بجائے بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں یوکرائن کو ڈٹے رہنے پر قائل کر رہی ہیں اسلحہ دیا جا رہا ہے، جنگ کی آگ دہکائی اور بھڑکائی جا رہی ہے دوسری طرف چین میں کووڈ کا نیا ویریئنٹ بھی پھیلنے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ عالمی معاشی ادارے عالمی معیشت کی فوری بحالی کے بارے میں مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ صورتحال خاصی گمبھیر نظر آ رہی ہے۔
پاکستان کی معیشت جاری سیاسی صورت حال کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ہماری قومی سیاست قومی معیشت کی طرح کمزوری اور پستی کا شکار نظر آ رہی ہے، سیاست اصولوں سے ہٹ کر پست فکروعمل کا شکار ہو چکی ہے قومی اور عوامی ایشوز کے بجائے ذاتی مفادات اور شخصی زندگیوں پر کیچڑ اچھالنے کی سیاست ہو رہی ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ غیرسیاسی ہو چکی ہے،سیاستدان دھڑادھڑ لڑائی مارکٹائی میں مصروف ہیں۔ عمران خان اقتدار چھن جانے کے بعد اقتدار میں واپسی کے لئے تن من دھن کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔ وہ ایک طرف اقتدار میں واپسی کے لئے کوشاں ہیں تو دوسری طرف پی ڈی ایم کی حکومت کو ناکام بنانے کے مشن پر جُتے ہوئے ہیں۔ عمران خان حکومت کو ناکام بنانے کے لئے اخلاقی، سیاسی اور قومی اصول اور ضرورت کا لحاظ رکھ بغیر آگے بڑھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس بارے میں دو رائے نہیں ہیں کہ عمران خان کے 44 ماہی دور حکمرانی میں قومی سیاسی، سفارتی اور معاشی معاملات بگاڑ کا شکار ہوئے۔ پی ڈی ایم معاملات کو بہتر بنانے کے دعوے پر اقتدار میں آئی۔ معاشی حکمت کاری کے حوالے سے اسحاق ڈار ترپ کا پتہ سمجھے جا رہے تھے وہ بھی اپنا آپ نہیں دکھا سکے ہیں۔ سیاست تو عمران خان خراب کر ہی رہے ہیں لیکن معیشت بھی حکمرانوں سے ٹھیک ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ عوام پست سے پست حالات کا شکار ہو چکے ہیں مالی وسائل سکڑتے چلے جا رہے ہیں اخراجات کا پہاڑ، آمدن کم، زرمبادلہ کی ضروریات بہت زیادہ، اس کی دستیابی محدود، سیاسی عدم استحکام، معیشت کو برباد کرتا چلا جا رہا ہے حالات کی درستی، مستقبل قریب میں کہیں نظر نہیں آ رہی ہے۔
ملک کے ڈیفالٹ ہونے کاتاثر پھیلایا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات ایک بار پھر مشکلات کا شکار ہو چکے ہیں۔ ٹیکسوں کی وصولیوں کے اہداف پر نظرثانی کی باتیں ہو رہی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ آئی ایم ایف انہیں گھٹانے کی اجازت دیدے کیونکہ معاشی نمو میں پستی کے باعث ایسا کرنا ضروری ہے جبکہ آئی ایم ایف طے شدہ معاہدے کے مطابق ٹیکس وصولیاں چاہتی ہے آئی ایم ایف کی اگلی قسط کی ادائیگی مؤخر ہوتی نظر آ رہی ہے۔عمران خان کا فوری انتخاب کا مطالبہ زور پکڑتا چلا جا رہا ہے ویسے عمران خان کو بھی پتہ ہے کہ عام انتخابات اپریل 2023 میں کسی طور بھی ممکن نہیں ہیں۔ مردم شماری، ڈی لمیٹیشن وغیرہ کے انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے لیکن وہ اپنی ہی دھن میں حکومت پر دباؤ بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں وہ تمام مسائل کا حل فوری انتخابات ہی بتا رہے ہیں لیکن قوم کو یہ نہیں بتا رہے کہ نئے انتخابات کے نتیجے میں ایسا کیا ہو جائے گا کہ مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔معاشی صورت حال کیسے تبدیل ہو گی، صنعتی ترقی کیسے بحال ہو گی، معاشی نمو میں بہتری کیسے آئے گی، ڈالر کی ریل پیل کیسے ہوگی، ان کے پاس معاشی بحالی کا کیا منصوبہ ہے، ان سوالوں کے جواب ان کے پاس نہیں ہیں لیکن وہ انتخاب، انتخاب کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ حکومت فوری یا قبل از وقت انتخابات کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہے۔ پھر حالات کیسے ٹھیک ہوں گے کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں.