گندی سیاست میں صاف آڈیوز؟

29

مشتری ھوشیار باش! پاکستان کا ایک سابق وزیر اعظم جو خفیہ اداروں کے کاندھوں پر سوار ہو کر2018 کے الیکشنز میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر پہنچا تھا وہ ابھی بھی باز نہیں آ رہا، جس ملک میں پاک فوج اور اسکے ادارے ایک بار پھر دہشت گردوں کے خلاف برسرِ پیکار ہیں اور اس دھرتی کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں اس ملک کا سابق وزیر اعظم ان کو سیاست اور شراکتِ اقتدار کی پیشکش کر رہا ہے، عمران خان کے حال ہی میں دیئے جانے والے ایک انٹرویو سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ رواں سال اپریل میں ان کے خلاف پارلیمنٹ نے جس عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا وہ درست تھا، خود عمران خان کو بھی اپنی سیاسی اور قائدانہ قابلیت پر اعتماد نہیں رہا، اسی لئے تو وہ بار بار فوج اور اسکے خفیہ اداروں کو مخاطب ہو کر ان کی مدد کے طلب گار ہیں اور اب تو وہ قانون اور آئین پر عملدرآمد کے لئے بھی خفیہ اداروں کا کردار تجویز کر رہے ہیں-
یہ وہی عمران خان ہیں جنھوں نے ایک اور انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ جنرل باجوہ نے انہیں بتایا تھا کہ پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں کی فائلیں اور کچھ ویڈیوز فوج کے پاس ہیں اور اس بات پر عمران خان نے جنرل باجوہ سے کہا تھا کہ عوام اپنے ٹیکس کا پیسہ فوج کو اس کام کے لئے نہیں دیتی۔ اسی طرح عمران خان کبھی تو اسٹیبلشمنٹ کو نیوٹرل رہنے اور کبھی نہ رہنے کی تلقین کرتے ہیں، خان صاحب کی شخصیت میں ابالی پن اور مستقل مزاجی کی شدید کمی اور قول و فعل کا جو تضاد ہے اس کی ایک جھلک ان کی ذاتی زندگی میں بھی نظر آتی ہے، آج کچھ کل کچھ، کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں، بات ریاستِ مدینہ کی اور رات جوائے لینڈ کی۔ اپنے مخالفین کو ووٹ دینے والوں کیخلاف دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے فتوے دینے والے خان صاحب کی اپنی گندی آڈیو سامنے آ گئی تو دوسروں کے عیب پر پردہ ڈالنے متعلق قرآن کی آیات یاد آ گئی اور کہا پاکستان کی اکثریت آبادی پر مشتمل نوجوان نسل کو غلط پیغام گیا ہے، حالانکہ غلط پیغام تو خان صاحب کی آڈیوسے متعلق بلواسطہ تصدیق سے ملا ہے کہ خان صاحب نے نوجوان نسل سے یہ نہیں کہا کہ ان کی گفتگو غلط تھی اور وہ شرمندہ ہیں، خان صاحب کا نوجوانو کو پیغام یہ گیا ہے کہ ٹیلی فون پر قابل اعتراض گفتگو غلط نہیں اسکی آڈیو لیک غلط ہے، اس آڈیو لیک پر شرمندہ ہونے کی بجائے اس کمال ڈھٹائی سے اسکے محض لیک ہونے پر اعتراض کیا کہ جیسے کہہ رہے ہوں کہ میرے پاکستانیو سم بدل کر خود فون پر ایسی گندی باتیں کر لیا کرو اور ایک دوسرے کی آڈیو لیک نہ کیا کرو۔ یہ وہ عمران خان ہیں جو یورپ کو انگریزوں سے زیادہ جانتے ہیں اور امریکہ کو امریکیوں سے زیادہ، تو پھر بتائیں اگر ٹیلی فون پر ایسی گفتگو یورپ یا امریکہ میں لیک ہو جاتی تو کیا ہوتا، کیا گفتگو کرنے والا قوم سے ایسی گفتگو پر معافی نہ مانگتا؟ معاملہ خفیہ بیٹی کی ولدیت تسلیم کرنے کا ہو یا ٹیلی فون پر گندی گفتگو کا دوسروں کو اخلاقیات اور دیانت داری کا درس دینے والا خود بددیانتی اور بد اخلاقی پر نادم کیوں نہیں؟
ایک سابق وزیر اعظم کی ذات اور سیاست اگر اتنے تضادات کا شکار ہے تو پھر اسے کیا حق پہنچتا ہے کہ مقررہ وقت سے پہلے الیکشن کا مطالبہ کرے اور اس مقصد کے لئیے فوج اور عدلیہ پر دباؤ ڈالے، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کا یہ ناجائز سیاسی بچہ جس سیاسی ولدیت کا تقاضا کر رہا ہے وہ بظاہر ریٹائر ہو چکی ہے اور ممتا کا یہ بوجھ اب بظاہر عدلیہ کو اکیلے ہی اٹھانا پڑ رہا ہے، پہلے سپریم کورٹ میں ہم خیال بنچ نے36 اے کی غیر فطری تشریح کر کے پنجاب اسمبلی کے 52 اراکین کو سیٹ سے محروم کیا، پھر ایک اور فیصلے کے ذریعے حمزہ شہباز کو ہٹوا کر چودھری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنوایا اور پنجاب کو موجودہ عدم استحکام کا شکار کیا اور اب لاہور ہائی کورٹ نے گورنر پنجاب کے حکم کو معطل کر کے ق لیگ کو بندے پورے کرنے کا موقعہ دیا۔
عمران خان کی ان تمام سیاسی لفنٹریوں اور غنڈہ گردیوں پر نوجوان نسل کا ردِ عمل کچھ زیادہ حیران کن نہیں، کیونکہ یہ وہ نوجوان نسل ہے جس کو پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے اپنی بزدلانہ اور مصلحت پسند سیاست کے باعث آئین اور قانون سے پیدل ہی رکھا، کالجز اور یونیورسٹیوں میں یونینز بحال نہیں کیں، جنرل مشرف کو سنائی گئی سزا سے پہلے ہی اسے ملک سے باہر جانے دیا، جنرل کیانی، جنرل پاشا، جنرل راحیل شریف، جنرل ظہیر الاسلام، جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی منتخب حکومتوں کے خلاف گھناو¿نی سازشوں پر مجرمانہ اور بزدلانہ خاموشی نے نظریاتی طور پر نوجوان نسل کو کھوکھلا کر دیا ہے جس کا آئین اور جمہوریت سے دور تک بھی تعلق نہیں اور وہ اپنے کپتان کی گندی آڈیو ز کے باعث شاید زیادہ پرستش کرتے ہونگے۔ مصلحت پسندی اور اصولوں پر سمجھوتوں کی اس گندی سیاست میں آخر صاف آڈیوز کا کیا کام۔
اور گندی آڈیوز آخر ریکارڈ ہی کیوں کی جاتی ہیں، کیا یہ روزِ محشر نامہ اعمال کے ساتھ دیئے جانے کے لئے ہوتی ہیں؟ جی نہیں، آخر عمران خان جیسے سیاستدانوں کو یہ سمجھ کیوں اور کیسے آئیگی کہ فون ریکارڈنگ چاہے کسی کرپٹ شریف کی ہو یا پارسا خان صاحب کی اس کی اجازت ہونی ہی نہیں چاہئے، وزارتِ عظمی کے عہدے پر ہوتے ہوئے عمران خان اگر ہائبرڈ جمہوریت کی کامیابی کا ڈھول پیٹنے کی بجائے افواجِ پاکستان اور اس کے خفیہ اداروں کو آئینی حدود تک محدود کر دیتے تو آج ان کے گندے اطوار و افکار سے نوجوان نسل مستفید نہ ہو رہی ہوتی۔ قومی اسمبلی میں قانون سازی کے لئے خفیہ اداروں کی مدد مانگتے وقت وزیر اعظم موصوف کو یہ تو معلوم ہو گا ناں کہ اراکین اسمبلی پر خفیہ ادارے کیسے دباؤ ڈالتے ہیں اور اس مقصد کے لئے یہ آڈیو ویڈیوز کیسے استعمال ہوتی ہیں، یوں حقیقت میں تو آپ خود ان گندی آڈیوز اور ویڈیوز کا بلواسطہ فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ اس وقت بھی آپ کو شرم نہیں آئی اور آج بھی آپ بے شرموں کی طرح انہیں خفیہ اداروں کی ویسی ہی مدد کے طلب گار ہیں- ابھی بھی کہتے ہیں کہ جنرل باجوہ نے ملک دشمنی کی مگر پھر کہتے ہیں کہ اقتدار میں واپس آنے پر ان کااحتساب نہیں کرونگا، کیوں جناب کچھ پتہ چلا شلوار گیلی کیسے ہوتی ہے؟
عمران خان کی سیاست کو دیکھتے خدشہ ہوتا ہے کہ خدانخواستہ یہ شخص ریاست اور ملکی سیاست کو سیاسی اور معاشی طور پر اس نہج پر پہنچا دے گا کہ جہاں عالمی طاقتیں اس کے ایٹمی پروگرام سے متعلق اکٹھی ہو جائیں گی اور مالیاتی امداد کو ایٹمی پروگرام سے مشروط کر دیںگی، وگرنہ اس سے خان کی سیاست کو کتنا فرق پڑتا ہے کہ الیکشن اپریل میں ہوں یا اسکے چھ مہینے بعد ستمبر اکتوبر میں، یہ تمام معاملہ جلد الیکشن سے کچھ آگے کا لگتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.