جمہوری بلوغت کا انتظار

17

آج جب نیوز چینل دیکھ رہی تھی تو مہنگائی کی شرح میں اضافہ سٹاک مارکیٹ مزید نیچے اور ڈالرکی اُڑان ملکی معیشت کی کہانی چیخ چیخ کر سُنا رہی ہے کہ ملکی معاشی صورتحال کیا ہے اور آگے نوجوانوں کا مستقبل کیا ہو گا مگر اس بات کی کس کو فکراگر آپ سب مجھ سمیت بھی جمہوری چہروں میں چہرہ تلاش کریں کہ ملک کے نوجوانوں کا مستقبل کون بہتر کر سکتا ہے تو کوئی نہیں ملے گا۔
افسوس!آج کچھ ماضی کی یادیں اور سیاسی تقاریر مجھے یاد آئیں کہ عمران خان اپنی تقاریر میں کہا کرتے تھے کہ مجھے تکلیف ہوتی ہے اُن ماؤں کا سوچ کر جو اپنے بچوں کو ایک متوازن غذا مہیا نہیں کر سکتیں کیونکہ مہنگائی بہت ہے مگر تکلیف تو اس بات کی ہے کہ انہوں نے بھی اپنے دور میں کوئی تیر نہیں مارے،کوئی انویسٹرز اس ملک میں نہیں لا سکے اُن کے دور میں بھی سٹاک مارکیٹ اور ڈالر کی بڑھتی اُڑان کنٹرول نہ کی جا سکی، اگر کچھ انہوں نے کیا تو وہ صرف (ن)لیگ پہ تنقید بلاول بھٹو کی نقلیں،اور کرونا کی آڑ میں بھاری کرپشن جس مال کو انہوں نے باپ کا مال سمجھ کے لوٹا اُس پہ کبھی کسی نے بات تک نہیں کی،یہ تمام جمہوری ٹھیکیدار ایک دوسرے پہ بات اس لیے نہیں کرتے کیونکہ ان سب کے ہاتھ کسی نہ کسی کالے کارنامے سے رنگے ہوتے ہیں مگر ماضی کی طرح سب اپنے کیے دوسروں پہ ڈال کر خود بری الزمہ ہو جاتے ہیں۔آج اگر (ن)لیگ نے ووٹ آف کانفیڈنس لے کر وفاق میں اپنی گورنمنٹ حاصل کی ہے بجائے اس کے کہ اب وہ ملک کو معاشی بہتری کی طرف لے جاتے ملک معاشی ابتری کی طرف تیزی سے سفر کر رہا ہے، جب شہباز شریف اپوزیشن لیڈر تھے تو پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر دھواں دار تقریر پورا دن کر ڈالتے۔
چلیے ہم ماضی کی بھی ساری باتیں ہر سیاسی جماعت کے لیڈر کی چھوڑ دیتے ہیں مگر پھر بھی جنہوں نے ملک کو مسلسل معاشی ابتری کی طرف دھکیلا ہے اُن کی بات کرنا اور پوچھنا تو بنتا ہے مگر یہ جب کرسی پہ بیٹھتے ہیں تو ہر آئین اور قانون سے بالاتر ہو جاتے ہیں۔آئین و قانون پھر ان کے گھر کی باندی ہو جاتا ہے غلطیوں پہ ان سے پوچھنا ان کی شان میں گستاخی ہوتی ہے۔ تمام باتیں ایک طرف میرا ایک سوال ہے تمام سیاسی لیڈران سے کہ ہے کوئی ایسا لیڈر ہے جو اس ملک و قوم کو اس دلدل سے نکال سکے؟افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے پاس تو ایسے اکانومسٹ بھی شاید نہیں ہیں جو ملک کو معاشی ابتری سے نکال سکیں، یہ بات میں اس لیے کہہ رہی ہوں کہ جب بھی کوئی سیاسی جماعت برسر اقتدار آتی ہے تو تمام حکومتی اور اہم عہدوں کے لیے ہمیشہ باہر سے بندہ لایا جاتا ہے،اس کا ثبوت ماضی کی سیاسی جماعتوں نے بھی دیا اور پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں تمام حکومتی اور اہم عہدوں پہ فائز کرنے کے لیے باہر سے لوگ بلائے گئے جن کا کوئی جماعتی کردار تھا نہ ہی عوامی مگر پھر بھی اُن کو اہم عہدے سونپے گئے،کیا ہمارے ملک میں پڑھی لکھی یوتھ نہیں رہی کہ وہ ملک کی کمان سنبھال سکے، وہی عمران خان جو یوتھ کی بات ہمیشہ سے کرتے آئے اور جن کو اہم عہدوں پہ فائز کرنے کے حسین خواب دکھلائے مگر جب اقتدار میں آئے تو اُسی یوتھ اور عوام کے لیے نہ صرف سارے دروازے بند کیے بلکہ اُن کے لیے موبائل فون بھی بند کر دئیے گئے بلکہ بہت سے صاحب اختیار نے یا تو اہم اور نامور چہرے جنہوں نے روز و شب پارٹی کے لیے دھکے کھائے، گرمی اور جون کی تپتی دھوپ میں جلے،پارٹی کو وقت دیااُن کو یا تو بلاک لسٹ میں ہی ڈال دیا موبائل فون کی بھی اور پارٹی کی بھی۔اب بھی اقتدار کی کھینچا تانی زور و شور سے چل رہی ہے جس کا ثبوت پنجاب کے وزیراعلیٰ کی کرسی ایک معمہ بن چُکی ہے جس کو وفاق کے بعد اب پنجاب میں ووٹ آف نو کانفیڈنس کا خطرہ لاحق ہے۔اب پنجاب میں پی ٹی آئی کا سارا کھیل (ق)لیگ کے سہارے ٹکا ہوا ہے۔ میں اپنے اس کالم کی وساطت سے عمران خان کو ایک اہم بات کہنا چاہتی ہوں کہ 26 سالہ جدوجہد کے بعد بھی اقتدار کے لیے آخر ممبرز ادھر اُدھر سے اکٹھے کرکے ہی گورنمنٹ کیوں بنانا پڑی؟
اس کی وجہ درحقیقت آپ خود ہیں،تمام تر پارٹی عہدے ایک ایک کرکے الیکٹیبلز کو دئیے اور پارٹی کارکنان کو کارنر کیا اور اُس کی جگہ اُن کے انویسٹرز نے لی اور پھر اُنہی الیکٹیبلز نے الیکشن لڑا اور بہت سے اہم حلقے جہاں ایسے کارکنان تھے جن کو صرف اس لیے ٹکٹ نہ دیا گیا کہ اُن کے پاس پراڈو نہیں تھی یا خاندانی حسب نسب نہیں تھا یا پھر چودھری سرور کی وجہ سے لسانیت اُن کے آڑے آ گئی ذات پات اور اونچ نیچ حسب نسب کو چودھری سرور کے کہنے پہ اہم قرار دئیے جسکی وجہ سے سیکڑوں غلط فیصلے کیے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے اہم حلقوں سے آپ بُری طرح ہارے جبکہ پی ٹی آئی کی اتنی ہوا بھی تھی،یہ ہوا ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ایسی پارٹی ویو چلی کہ پی پی پی نے ریڑھے چھابڑی والے کو بھی ٹکٹ دیا اور وہ کامیاب ہوئے،مگر نام بھی اہمیت رکھتے ہیں ایسے کارکنان نے عوام میں رہ کر اپنا بہت سا ووٹ بینک بنا لیا تھا اور نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے حلقوں میں ناکامی کیوجہ سے آپ کو بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑا۔ اگر وہاں ایسے بندوں کے بجائے اُن عام کارکنان کوپا رٹی ٹکٹ دیتی تو وہ با آسانی نہ صرف سیٹ نکالتے بلکہ آج آپ بیساکھیوں پہ نہ ہوتے اگر آپ سچ میں نیوٹرل ہو کر خود فیصلہ کرتے مگر افسوس آپ کو اپنے ارد گرد کے چند لوگ ہی قابل اور خود کی ہی قابلیت پہ بھروسہ ہے جس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
آج ذی شعور اور پڑھا لکھا طبقہ ایسے غیرجمہوری فیصلوں کی وجہ سے کٹ کے رہ گیا ہے اُن 35%افراد کو اب بالکل ووٹ کے لیے نہیں مانا جاتا کیا وہ اس ملک کا حصہ نہیں ہیں جو آج پڑھے لکھے اس طبقے کو یکسر فراموش کر بیٹھے ہیں جو ووٹ بھی شاید کاسٹ نہ کرتے ہیں،مگر آج اس کالم کی وساطت سے یہ کہنا چاہوں گی کہ اُن کے ووٹ نہ کاسٹ کرنے کا نتیجہ آج یہ ہوا ہے کہ ہمارے سروں پہ وہی چلے ہوئے کارتوس اور کم پڑھا لکھا طبقہ،اور کباڑئیے ٹائپ کے لوگ پڑھے لکھے لوگوں پہ حکمرانی کر رہے ہیں۔اب میرے خیال سے سیاسی اکھاڑ بچھاڑ سے ہمیں ایک قدم آگے چلنا ہو گا کیونکہ مہذب ممالک جس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں ہمیں بھی ملکی ترقی اور معاشی ابتری سے نکل کے سوچنا ہوگا۔مگر یہ بھی کون سوچے گا؟سب تو کرسی بچاؤ مہم پہ ہیں۔ہمیں ترقی کے لیے کچھ سخت فیصلے کرنا ہونگے اور اُن پہ عمل پیرا ہونا ملک کو سیاسی اور معاشی ابتری سے نکالنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ پہلے نمبر پہ اُن چہروں کو آگے لانا ہو گا جن کو عوام میں پذیرائی ملتی ہو اور نئے چہرے ہوں جن کے ہاتھ داغدار نہ ہوں چاہے وہ عام ہی کیوں نہ ہوں، بہتری کے لیے سیاسی حسب نسب اور لسانیت سے بالا تر قابل لوگوں کو جگہ دینا ہو گی۔ دوسرا اہم کام جو بہت اہم ہے بار بار جس کا میں ذکر کرتی ہوں وہ یہ کہ اداروں کو غیر سیاسی کیا جائے تاکہ کسی بھی سیاسی شخصیت کو غلطی پہ پشت پناہی نہ ملے۔جس سے اس ملک کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے اور کرپشن سے پاک ملک معاشی بہتری کی طرف جا سکتا ہے۔تیسرا،اہم پہلو جس بات کو یکسر فراموش کیا جا رہا ہے وہ یہ کہ وطن عزیز ایک زرعی ملک ہے ملک کو معاشی ابتری سے نکالنا ہے تو ہمیں زراعت پہ خصوصی توجہ دینا ہوگی جس کی طرف کسی سیاسی لیڈر کی توجہ ہے نہ ہی کوئی حکمت عملی۔تمام ترقی یافتہ ممالک کا ہدف معاشی بہتری اور پیداوار میں اضافہ کرنا ہے۔ ادھر ہم پون صدی کی قومی زندگی سیاسی بلوغت اور جمہوری روایات سے ہم آہنگ نہیں ہو سکے اور ناکام جمہوری انتظامات، مارشل لا، گورنر راج،اور ایمر جنسیاں ہمارے ملک کا سیاسی جز رہے ہیں۔نتیجہ آج بھی سامنے ہیں کہ ہم آج بھی اقتدار کی حرص میں ملک و قوم کو داؤ پہ لگائے ہوئے ہیں۔آخر کب تک ہم جمہوری بلوغت کے انتظار میں اپنے بچوں کا مستقبل اپنے ہی ہاتھوں سے اندھیروں میں دھکیلتے رہیں گے؟۔

تبصرے بند ہیں.