نفرت انگیز سیاست

15

گورنر پنجاب نے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا جسے وزیر اعلیٰ پنجاب نے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا۔ یہ معاملہ لاہور ہائیکورٹ اور اس کے بعد یقینا سپریم کورٹ تک جائے گا اس لئے فی الحال آج ہمارا موضوع کچھ اور ہے۔کوئی ہفتہ پہلے ایک واٹس ایپ گروپ میں پیغام آیا کہ امریکہ میں شراب پی کر توڑ پھوڑ کرنے کے جرم میں بلاول بھٹو زرداری گذشتہ دو دن سے جیل میں ہیں واٹس ایپ کرنے والے دوست اچھے خاصے پڑھے لکھے تھے ان کی جانب سے ایسی احمقانہ پوسٹ جس کا سر تھا نہ پیر پڑھ کر افسوس بھی ہوا اور حیرت بھی کہ سیاسی تعصب کس طرح عقل سمجھ کو ماؤف کر دیتا ہے ہم نے انھیں کہا کہ کیا آج تک کسی ملک کے وزیر خارجہ کو گرفتار کیا گیا ہے بلکہ دور حاضر ہی نہیں گذشتہ ہزار دو ہزار سال کی تاریخ میں ہمیں دوہی واقعات ملتے ہیں کہ جب شاہ خوارزم نے خبط عظت میں مبتلا ہو کر چنگیز خان کے سفیروں کے سر قلم کر کے بھیجے تھے جس کا انجام خوارزم شاہی سلطنت کے خاتمہ پر ہوا تھا دوسرا واقعہ انقلاب ایران کے بعد ایران کا امریکن سفارتکاروں کو یرغمال بنا کر امریکہ سے ایران کے منجمد اثاثے واپس لینا تھا لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ کسی دوست ملک کا وزیر خارجہ کسی دوست ملک کے دورے پر ہو اور اسے اس طرح گرفتار کیا گیا ہو اس سے اگلے دن ایک اور واٹس ایپ میں اسی طرح کی بات لیکن ہم سمجھے کہ یہ ایسے ہی کچھ نا سمجھ افراد کی کارستانی ہے لیکن یہ انتہائی گھناؤنی حرکت اس بڑی سطح پر ہو گی کہ اس کی تردید دفتر خارجہ کو کرنا پڑے گی یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا آج سے کم و بیش ایک ماہ پہلے اسی گروہ کی جانب سے پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف کو لندن ائر پورٹ سے لندن پولیس کے ہاتھوں زبردستی واپس بھجوایا گیا تھا ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ کسی ملک کے وزیراعظم کے ساتھ اس طرح کے سلوک کا سوچا بھی نہیں جا سکتا اور آج اسی کیمپ کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کو امریکن پولیس کے ہاتھوں گرفتار کرا کر جیل بھیج دیا گیا غور کریں کہ بلاول نے اس سے چند دن پہلے مودی کے خلاف بیان دیا تھا جس کے ردعمل میں پورے ہندوستان میں بلاول کے خلاف مظاہرے کئے گئے اور پھر خباثت کی انتہا کو پہنچتے ہوئے بلاول کے سر کی قیمت دو کروڑ لگائی گئی اور اس کی باقاعدہ وڈیوز موجود ہیں۔ ہر محب وطن شہری نے چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے تھا اس نے بی جے پی کے اس انتہا پسند رویے کی شدید مذمت کی اور بلاول کے ہندوستانی سفیر کو بروقت اور کرارا جواب دینے پر انھیں زبردست خراج تحسین پیش کیا لیکن منفی ذہنیت رکھنے والی ایک جماعت کے سوشل میڈیا نے محب وطنوں کے بجائے مودی اور آر ایس ایس کے دہشت گردوں کی آواز کے ساتھ آواز ملانا بہتر سمجھا اور مودی کے خلاف بیان دینے پر وہ پاکستان میں بلاول کے خلاف مظاہرے تو نہیں کر سکتے تھے لیکن جھوٹ جھوٹ اور فقط جھوٹ کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں نے ملک دشمن زہریلے پروپیگنڈہ سے مودی اور آر ایس ایس کو اپنی طرف سے اظہار یک جہتی کا پیغام ضرور دے دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا تھا تو اسی دوران بلاول بھٹو زرداری لائیو پریس کانفرنس کر کے آر ایس ایس کے دہشت گردوں کی جانب سے اپنے سر کی لگنے والی دو کروڑ کی رقم کا بتا رہے تھے تحریک انصاف کی صورت میں پاکستان میں ایک ایسا سیاسی گروہ بن چکا ہے جس کے اندر خود کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے لیکن دوسروں کی ہر بات میں کیڑے نکالنے میں ان سب نے اپنے قائد سمیت پی ایچ ڈی کر رکھی ہے مثلاً اگر کوئی حکومت کام نہ کرے تو اسے یہ گروہ نکما کہے گا اور اگر موٹر وے میٹرو بس اور اورنج ٹرین یا سندھ حکومت کی طرح میڈیکل کے شعبہ میں بڑے بڑے کام کرے تو پھر یہ گروہ ان سب ترقیاتی کاموں پر کرپشن کا لیبل لگا کر دفاعی پوزیشن میں لے آئیں گے اگر ملک کا وزیراعظم اور وزیر خارجہ بیرون ملک دورے نہ کریں تو ان کا بہترین ٹوٹکا ہے کہ یہ فوری پروپیگنڈہ
شروع کر دیں گے کہ ”یہ تو کرپٹ لوگ ہیں اسی وجہ سے ان کی تو دنیا میں کوئی عزت ہی نہیں ہے“ اور اگر دنیا انھیں اہمیت دے عزت دے اور انھیں اپنے ملک کے دوروں کی دعوت دے اور جب یہ ملکی مفاد کی خاطر جائیں اور ان دوروں کی بدولت پاکستان کا نام فیٹف کی گرے لسٹ سے نکل آئے اور وزیراعظم اور وزیر خارجہ کی کاوشوں کی وجہ سے گذشتہ ماہ مصر میں ہونے والی کوپ 27 کانفرنس میں موسمی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کے نقصانات کے ازالے کے لئے خصوصی فنڈ کے قیام میں کامیابی ملے تو یہ بھی انھیں ہضم نہیں ہوتی اور کمال
مہارت سے یہ پروپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں کہ بلاول کے گذشتہ نو ماہ کے بیرون ملک دوروں پر دو ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں یہ اپنے پونے چار سالہ دور حکومت میں اپنے کسی ایک مخالف پر اگر کرپشن ثابت نہ کر سکیں تو اس کا الزام جنرل باجوہ اور عدلیہ پر لگا دیں گے لیکن اگر ان پر کیس بنائے جائیں تو ڈھٹائی کے ساتھ کہیں گے کہ دیکھا کچھ اور نہیں ملا تو توشہ خانہ کی ایک گھڑی کا کیس بنا دیا کچھ نہیں ملا تو فارن فنڈنگ کیس بنا دیا کچھ نہیں ملا تو بلین ٹری کا کیس بنا دیا کچھ نہیں ملا تو بی آر ٹی کا کیس بنا اس طرح حکومت مالم جبا، ملین ٹری،بنی گالہ کی غیر قانونی تعمیرات، جعلی این او سی،ٹیریان، عارف نقوی فارن فنڈنگ،ملک ریاض سے 300 ایکڑ جگہ کا کیس، پچاس ارب جرمانے کو واپس ملک ریاض کو دینے کا کیس، فرح گجر کے خلاف رشوت لینے کے کیس،حکومت کیس پر کیس بناتی جائے گی اور یہ یہی کہہ کر عوام کو ماموں بنانے کی کوشش کرتے رہیں گے کہ اور کچھ نہیں ملا تو یہ ایک کیس لے آئے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے جھوٹ کی سیاست کو بے نقاب کیا جائے اور جس طرح یہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں اگر صرف ان کے جھوٹ کی اصلیت ہی عوام کے سامنے آتی جائے تو ان کے سارے بھرم ٹوٹ جائیں گے یہی دیکھ لیں کہ ہم اپنی تحریروں میں ان کی مقبولیت کے پول کھولتے رہتے ہیں لیکن 22 دسمبر جمعرات کو کامران شاہد نے بھی اپنے پروگرام میں پہلے تو گورنر ہاؤس پر جمع ہونے والے لاکھوں کے مجمع کی اپنے نمائندے سے دو ہزار سے 22 سو تک کی حقیقی تعداد بتائی اور یہ بھی بتا دیا کہ نام نہاد لانگ مارچ جسے ناکام یا شارٹ مارچ کہنا چاہیے اس میں کہیں پر بھی دو ڈھائی ہزار سے زیادہ افراد شریک نہیں ہوئے اور وہ بھی اس ماحول میں کہ جب ہر جگہ اپنی حکومتیں تھیں اور بجائے کسی گولی لاٹھی چارج یا گرفتاری کے الٹا ہر جگہ پولیس ان کے تحفظ کے لئے موجود تھی تو یہ ان کی سیاست اور ملک دشمن منفی پروپیگنڈہ کا حال ہے اور ہم بار بار کہتے ہیں اور اب بھی کہیں گے اسے بے نقاب کرنا اس لئے زیادہ ضروری ہے تاکہ ملک سے بے یقینی کی فضا کا خاتمہ ہو اور سیاسی استحکام آئے اور ملک کی معیشت میں بہتری لائی جا سکے کہ غریب آدمی آج جن مشکلات کا شکار ہے اس کی زندگی کچھ آسان ہو اور ملک میں خوشحالی آ سکے۔

تبصرے بند ہیں.