اقتدار کی جنگ

62

اقتدار کی جنگ انسانی تاریخ میں اس وقت سے جاری و ساری ہے جب سے اقتدار کا تصور وجود میں آیا تھا۔ اور اس کے بعد یہ جنگ کبھی حق و باطل اور خیر و شر کے درمیان لڑی گئی اور کبھی صرف اقتدار و اختیار، انا اور مفادات کے لیے لڑی جاتی رہی۔ ایک اور مقصد جو پچھلی کچھ صدیوں سے سمجھ میں آنے لگا ہے وہ ملکوں سے باہر بیٹھی قوتوں کے مفادات کا کھیل ہے جس کو ڈیزائن کرنے والے کہیں اور بیٹھے ہوتے ہیں اور ان کے ایما پر جنگ کسی اور ملک کے کھلاڑیوں کے درمیان لڑی جاتی ہے۔ ایسی جنگوں کے پیچھے زیادہ تر جیو پولیٹکس اور اقتصادی مفادات کی منصوبہ بندی کافرما ہوتی ہے۔ ایسی تمام جنگوں میں کبھی بادشاہت، کبھی جمہوریت اور کبھی آمریت کی کا حسب ِ ضرورت استعمال بروئے کار لایا جاتا ہے۔ جان پرکنز اپنی کتاب ”دی اکنامک ہٹ مین“ میں سود پر قرض دینے والے بین الاقوامی فائنانشل انسٹی ٹیوشنز کی ایسی منصوبہ بندیوں کے بارے میں تحریر کرتا ہے جن کا مقصد کسی ملک میں اپنی مرضی کے لوگوں کو حکمران بننے میں مدد دے کر برسر ِ اقتدار لایا جاتا ہے جو تاج و تخت حاصل کرنے کے بعد ان مالیاتی اداروں کی شرائط پر خود اپنے ملکوں کے لیے پیسے لیتے ہیں اور ملک کو مقروض کرکے ذاتی انفرادی مفادات اٹھا کر چلتے بنتے ہیں۔
ہماری بدقسمتی کہ پاکستان کے اندر اقتدار کی جنگ ایسے ہر طرح کے مقاصد کے لیے لڑی جاتی رہی ہے اور زیادہ تر ایسے ہی حکمران مسلط کیے جاتے رہے ہیں جن کا ملک یا عوام کی بہتری کے ساتھ تعلق صرف نعروں کی حد تک ہی رہا ہے۔ اقتدار کی یہ جنگ ایک طرح سے ہمیشہ یکطرفہ رہی ہے کہ اس میں عوام کو صرف الو ہی بنایا جاتا رہا ہے اور مرضی کے نتائج حاصل کیے جاتے رہے ہیں۔ یکطرفہ اس لیے کہ عوام اور مقتدر طبقہ کی اس جنگ میں نہتے اور بے بس عوام اسی مقتدر طبقے سے تعلق رکھنے والے کسی نہ کسی لیڈر کے پیچھے لگ کے سمجھتے رہیں ہیں کہ شاید اس بار ان کے دکھوں کا مداوا ہوجائے گا۔ کبھی کبھار اگر کسی راہنما کے دل میں تھوڑا سا بھی احساس جاگا بھی کہ اس نے ملک اور عوام کا بھی کچھ حق ادا کرنا ہے تو اس کے اپنے ہی مقتدر طبقے نے اسے اقتدار کے اصولوں سے انحراف سمجھتے ہوئے یا تو موت کے گھاٹ اتار دیا یا پھر دیس بدر کردیا۔
آج کل پاکستان میں ایک بار پھر یہی اختیار و اقتدار کی جنگ عروج پر ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک جس بھی سیاسی رہنما یا آمر کو عوامی حمایت حاصل ہوئی ہے یا تو اسے صفحہء ہستی سے ہٹا دیا گیا ہے یا پھر اس وقت تک اقتدار سے دور رکھا گیا ہے جب تک وہ عوامی حمایت کھو نہیں بیٹھا۔بین الاقوامی سیاسی و معاشی اکھاڑے جسے وطن ِعزیز پاکستان کہا جاتا ہے میں طاقتور بھینسے اس زور و شور سے آپس میں ٹکرا رہیں کہ عوام کی چیخیں اور وطن عزیز کی پکار کسی کو سنائی ہی نہیں دے رہی۔ اس وقت قومی و بین الاقوامی اقتدار پسند قوتوں کا تمام تر زور اس بات پر لگ رہا ہے کہ اگر عوام کی اکثریتی حمایت یافتہ پارٹی اقتدار میں آ جا ئے گی تو اسے عوامی اقتدار پر محمول کیا جائے گا اور اگر دنیا کے کسی بھی ملک میں ایجنڈے سے ہٹ کر عام لوگ ووٹ کی طاقت سے برسر اقتدار آئے تو اس کے رواج پڑجانے کا اندیشہ پیدا ہوگا جو کسی دوسرے ملک کے لوگوں کے لیے مثال بن سکتا ہے اور کسی دوسرے محکوم اور غلام ملک کے عوام بھی اس سے تقویت حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں جاری سیاسی جنگ پاکستان کا اپنا اندرونی سیاسی معاملہ ہے تو یہ بھول دل سے نکال دے۔ صرف اتنا ہی تجزیہ کرلیں کہ تحریک انصاف اور پاکستانی عوام کی اتنی شدید مزاحمت کے باوجود رجیم چینج آپریشن کے تمام اہداف پورے کرلیے گئے ہیں۔ ملک کی معیشت تباہ و برباد ہوچکی ہے۔ قرضوں کی ادائیگی کے لیے اثاثے بیچے جا چکے ہیں۔ ملک میں انتشار کی فضا اپنے عروج پر ہے۔ سیاستدانوں پر سے کیسز یوں ختم کردیے گئے جس طرح عوام کی رائے کی عزت اور اس پر مزید یہ کہ ہر طرح کا ذہنی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی دباؤ پاکستانی عوام پر منتقل کیا جا چکا ہے۔ کل کے جمہوری چیمپئن آج الیکشن سے اتنے خوفزدہ ہیں جتنے یوکرینی عوام روس سے۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ یہ سب کچھ کسی بڑے منصوبے کا حصہ نہیں ہے اور جوکچھ ہو رہا ہے اس سب کے ذمہ دار وہی کردار ہیں جو سامنے نظر آ رہے ہیں تو کوئی ماننے کو تیار نہیں ہوگا۔ ہماری پچھترسالہ تاریخ شاہد ہے کہ ہر مخصوص وقفے کے بعد ایک تسلسل سے یہاں بحران پیدا ہوتے رہے ہیں اور یہ سِیکوئنس اتنے تواتر سے جاری و ساری ہے کہ اسے پورا ایک ضابطہء ریاست مان لینے کو جی کرتا ہے۔ کیا شاندار سکرپٹ رائٹر ہے جو یہ سارا کچھ لکھ رہا ہے۔ اس دفعہ البتہ پہلے سے مختلف یہ ہے کہ اب پاکستانی عوام ہر اقدام اور ہر عمل کے پیچھے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش ضرور کرتی ہے اور اگر سمجھ نہ بھی آئے تو سوال ضرور اْٹھاتی ہے کہ یہ سب حقیقت میں ہو کیا رہا ہے۔
ہر نئے روز کے بحران کے پیچھے کیا ہے
گرہے انسان تو انسان کے پیچھے کیاہے
کوئی تو سوچے مرے ملک میں ہر روز نیا
ایک ہیجان ہے، ہیجان کے پیچھے کیا ہے
سامنے جو بھی نظر آتاہے ہوتا کب ہے سوچنا یہ ہے کہ بہتان کے پیچھے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقفے وقفے سے جو اٹھتا ہے مری بستی میں
دیکھنا چاہئے طوفان کے پیچھے کیا ہے
ایک دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں کچھ بھی نہیں
پوچھنا چھوڑ دو پیمان کے پیچھے کیا ہے

تبصرے بند ہیں.