خشک ہوتا ہُوا دریائے صداقت دیکھوں

9

ملک کی سیاست میں قحط الرجال بھی ہے اور قحط صداقت بھی۔ اقدار، روبہ زوال اور دوستیاں اور رشتہ داریاں سیاست کی بھٹی میں جل کر راکھ ہورہی ہیں۔ نئی حکومت اور نئی اپوزیشن دونوں الزامات کی سیاست کررہی ہیں۔ اول الذکر کی اب تک کی جو کارکردگی ہے اس سے تو لگتا یہ ہی ہے کہ وہ بھی اپنے پیشرو کی طرح اپنا وقت تنقید پر ضائع کرتے رہے اور مؤخرالذکر کا دامن کارکردگی کے میدان میں بالکل ہی خالی ہے، لہٰذا اب اس کی ساری تگ و دو سازش، مداخلت، نیوٹرل کی گردان کرنا رہ گئی ہے۔ تحریک انصاف نے امریکہ کی مخالفت کا نعرہ لگایا تو ہماری بائیں بازو کی جماعتوں نے اس کا خیر مقدم کیا مگر شاید وہ یہ پہلو نظر انداز کرگئے کہ تحریک انصاف امریکہ مخالفت نہیں بلکہ وہاں کی بر سرِاقتدار پارٹی ڈیموکریٹک پارٹی کی مخالف ہے، اسی لیے ٹرمپ کے انتخابات میں تحریک انصاف نے اپنے کارکنوں کے ذریعے کمک بھی پہنچائی، اگر آج ری پبلیکن برسرِ اقتدار ہوتی تو تحریک انصاف کا کم از کم امریکہ مخالفت کا نعرہ نہ ہوتا۔مولانا موودوی مرحوم نے معیشت پر اپنے ایک مضمون کی ابتدا جن الفاظ سے کی اس کا مفہوم ہے کہ معیشت ہماری زندگی کا ایک جُز ہے کُل نہیں، مگر ہم نے اسے کُل بنا کر ساری تگ دو و کا مرکز بنا دیا ہے اور اس کے باوجود یہ درست ہونے کے بجائے بگڑتی جارہی ہے۔ آج ہماری معیشت کیا اور سیاست کیا دونوں ہی کُل بن چکی ہیں اور دونوں ہی تنزلی کا شکار بھی۔ ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا، دوستوں کے پیغامات، ٹک ٹاک پر بڑے چھوٹے سیاست پر اپنے اپنے جوہر دکھا رہے ہیں۔ مگر اصل مسائل کیا ہیں؟ دنیا میں کیا ہورہا ہے،ہماری سیاست اور صحافت اس سے لا تعلق ہیں۔
پروفیسر طاہر نعیم ملک سوشل میڈیاپر اپنے تجزیے میں لکھتے ہیں کہ”کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں میڈیا سول سوسائٹی اور سیاسی پارٹیاں نہ تو پڑوسی ملک میں کسانوں کی اپنے حقوق اور معاشی استحصال کے خلاف برپا کی گئی بھرپور تحریک کو کوریج نہیں دے رہا؟ اسی طرح جنوبی ایشیا ہمارے پڑوس میں واقع ملک سری لنکا شدید معاشی بحران سے گذر رہا ہے اس کو بھی ہم نمایاں اندازمیں کور نہیں کررہے۔کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ باڈر کے اس پار بھی کسان معاشی استحصال کا شکار ہیں بھارتی پنجاب کے کسانوں کی
تحریک کو اُجاگر کرنے سے ہمارے کسانوں کو شعور نہ حاصل ہوجائے؟۔سری لنکا قرضوں کے بھنور اور گرداب میں ڈوبتا چلا گیا اور محض 46 ارب ڈالر کا مقروض ہونے کے باعث دیوالیہ ہوگیا۔ جب کہ دوسری جانب امریکا کے بزنس ٹائیکون ایلون مسک نے 47 ارب ڈالر میں سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹوئیٹر خریدنے کی پیش کش کر دی۔ سری لنکا کو آج کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں۔آج ان کی حکمران اشرافیہ محفوظ نہیں وزیر اعظم مستعفی ہوگئے۔ وزیر اعظم اور ان کی حکومت کے وزیروں مشیروں کے گھر بھی محفوظ نہیں۔ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال ہے، ریاست کمزور ہوکر بکھر رہی ہے۔ سری لنکا کی صورتحال سے ہم عوام کو آگاہ نہیں کررہے۔ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ پاکستان کی معیشت بھی عالمی مالیاتی اداروں کے رحم و کرم پر ہے۔معیشت قرض میں ڈوب رہی ہے، اشرافیہ کی ٹیکس چوری، پلاٹ اور دیگر مراعات نہ صرف برقرار ہیں بلکہ دن بہ دن بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ ہر حکومت پچھلی حکومت کی نسبت زیادہ قرض لیتی چلی جارہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے پاس آئی ایم ایف اور عرب ممالک سے چند ارب ڈالر قرض مانگنے کے سوا کوئی معاشی حکمت عملی یا معاشی اصلاحات کا ایجنڈا نہیں۔جو قومیں معاشی طور پر آزاد اور خود مختار نہیں ہوتی ہیں، جن کی معیشت کمزور ہوجاتی ہے ان کے لیے آزاد خارجہ پالیسی، آزادی اور خودمختاری کا خواب دیکھنا بھی جرم ہے۔کیونکہ آزاری اور اور خود مختاری کا راستہ معاشی طورپر اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے بغیر ممکن نہیں۔ بقول احمد ندیم قاسمی کہ بے وقار آزادی ہم غریب قوموں کے سر پر تاج رکھا ہے اور بیڑیاں ہیں پاؤں میں“۔
واقعہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ایجنڈے پر مہنگائی، بے روزگاری اور محنت کشوں کے مسائل نہیں ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں سات کروڑ کی تعداد میں محنت کش موجود ہیں جن میں سے 50 فیصد بے روزگار ہیں۔ پاکستان مزدور محاذ جس کی شہرت سوشلزم کے علمبرداروں کی ہے اس کے مرکزی چیئرمین نعیم قریشی اس حوالے سے وضاحت کرتے ہیں کہ سوشلزم صنعتی معاشرے کی سائنس ہے جب کہ ہماری زرعی معیشت ہے، جس میں زمینوں پر قابض جاگیر دار اور قبائلی سردار ہیں۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو زرعی اصلاحات کو متعارف کرانا ہوں گی۔ زرعی پیداوار بڑھانے اور معیشت کی ترقی کے لیے یہ ایک بنیادی قدم ہے۔
مگرافسوس کہ حکومت اور اپوزیشن میں غزل اور جوابِ غزل کا سلسلہ ایک مقابلے کی شکل اختیار کرچکا ہے اور افسوس یہ مقابلہ نظریے اور دلیل کے بجائے الزامات کا ہے۔ستر کی دہائی میں کی سیاست نظریات کی سیاست تھی جس میں سیاسی فریقین میں سیاسی شعور بھی تھا اور اقدار کا پاس بھی۔ مگر آج ٹیکنا لوجی کا جس قد ر منفی استعمال ہمارے یہاں دیکھا جارہا ہے اس کا تصور ٹیکنالوجی کے موجد ممالک نے سوچا بھی نہ ہوگا۔ موجودہ حالات پر احمد فراز مرحوم کے مجموعے”نابینا شہر میں آئینہ“ میں شامل ان کے کلام کے چند اشعار:
میں تو ہر طرح کے اسبابِ ہلاکت دیکھوں
اے وطن کاش تجھے اب کے سلامت دیکھوں
وہ جو قاتل تھے وہ عیسا نفسی بیچتے ہیں
وہ جو مجرم ہیں انہیں اہلِ عدالت دیکھوں
وہ جو بے ظرف تھے اب صاحبِ میخانہ ہُوئے
اب بمشکل کوئی دستار سلامت دیکھوں
کذب کی ریگِ رواں یوں ہے کہ اُس کے آگے
خشک ہوتا ہُوا دریائے صداقت دیکھوں

تبصرے بند ہیں.