سیاسی دھند چھٹتی نظر نہیں آتی!!

29

موسم سرما کے دوران وسطی اور جنوبی پنجاب کے پیشر اضلاع دھند کی لپیٹ میں تو رہتے ہی تھے لیکن کچھ برس سے دھند یعنی فوگ کو ایک اضافی تڑکا لگا ہے اور ماہرین نے اسے سموگ کا نام دیا گیا ہے۔کہتے ہیں کہ سموگ دھند اور آلودگی کی آمیزش کی پیداوار ہے اور عام آدمی کی صحت پر خاصا برا اثر ڈالتی ہے۔
سموگ کا سیزن تو اگرچہ ڈیڑھ دو ماہ ہی ہوتا ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ یہ اب یہ ہمارے موسموں کا ایک جزو بن چکی ہے تو زیادہ غلط نہ ہو گا۔ اس کے انسانی صحت پر پڑنے والے مضر اثرات سے بھی تقریباً ہر کوئی واقف ہے لیکن جانے کیوں ہماری حکومتیں اور معزز اعلیٰ عدلیہ سارا سال اس پر توجہ نہیں کرتے لیکن جب یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے تو مختلف قسم کے اقدامات کی بازگزشت سنائی دینے لگتی ہے۔
ویسے تو بدترین آلودگی پورے ملک کا مسئلہ ہے لیکن بدقسمتی سے لاہور شہر آلودگی کے حساب سے پوری دنیا میں نمبر ون ہی رہتا ہے۔ حکومت اور اداروں کو تو آلودہ فضلہ ندی، نالوں اور دریاؤں میں پھینکنے والی فیکٹریوں، دھواں چھورٹی گاڑیوں اور بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے زہریلا دھواں فضا میں چھورٹی چمنیوں جیسے سنگین معاملات کی خاک پروا ہو گی حالت تو یہ ہے کہ یہاں کے شہری جو اس آلودگی کا براہ راست نشانہ بنتے ہیں وہ بھی اس کے سدباب کے لیے کوئی بڑا قدم تو خیر کیا اٹھانا ہے اتنا بھی کرنے کے لیے تیار نہیں جو وہ آسانی سے کر سکتے ہیں۔
لاہور میں رواں برس سردی کے موسم کا آغاز کچھ لیٹ ہوا ہے، اسی حساب سے دھندیا سموگ کا سلسلہ تو ابھی دو تین دن پہلے ہی شروع ہوا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ مجھے دھند کا موسم بہت اچھا لگتا تھا اور میں دھند میں لمبی لمبی واک کرنے کو بہت انجوائے کرتا تھا لیکن جب سے سموگ کا سلسلہ بڑھا ہے کچھ محتاط ہی رہنا پڑتا ہے۔
چھوٹے بیٹے دانیال کو سکول چھوڑ گلشن اقبال پارک میں واک کے لیے جانا میری روٹین ہے۔ جس دن واک کا موڈ ہو تواس دن بیگم صاحبہ بھی ہمراہ ہو لیتی ہیں۔ چند روز قبل، شائد وہ رواں برس پڑنے والی شدید سموگ کا دوسرا دن تھا، بیگم صاحبہ بھی واک کے لیے تیار ہو گئیں۔ بیٹے کو سکول چھوڑ کر دوران واک گفتگو کا پہلا موضوع موسم تھا۔ شدید دھند میں واک کرتے ہوئے انہوں نے استفسار کیا کہ، آج اندازاً کتنے بجے تک دھند چھٹنے کے امکانات ہیں اور یہ دھند کا سلسلہ مزید کتنے دن تک چلے گا؟ میں نے ایک’تکا‘ فٹ کرتے ہوئے آج کی دھند ختم ہو نے کے لیے دس بجے کے قریب کا اندازہ دے دیا اور دھند کے سیزن کے اختتام کا اندازا جنوری کے آخر تک کا دیا۔
چلتے چلتے موضوع بدلہ اور سیاسی معاملات پر
گفتگو شروع ہو گئی، تو انہوں نے پنجاب میں جنم لینے والے نئے سیاسی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس صورتحال کو خاصا افسوسناک قرار دیا اور پھر سوال داغ دیا کہ اس سیاسی بحران کا حل کب تک نکلنے کا امکان ہے؟ موسم کے بارے میں سوال کی حد تک تو بات ٹھیک تھی لیکن دوسرا سوال شائد مجھ جیسے سادہ لوح انسان سے اوپر کے لیول کی بات تھی اور یہاں کچھ زیادہ’تک بندی‘ بھی کام نہیں آتی اس لیے گول مول جواب دے کر خاموش ہو گیا۔
ویسے تو ہمارے ملک کی تمام تر سیاست کا بابا آدم ہی نرالہ ہے لیکن موجودہ سیٹ اپ میں قومی اسمبلی اورپنجاب اسمبلی میں سیٹوں کی تقسیم کچھ اس طرح سے ہے کہ کوئی بھی فریق جم کر حکومت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ یہی وجہ ہے پنجاب اسمبلی میں صرف دس سیٹیں رکھنے والے چوہدری پرویز الٰہی صاحب آج بھی وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہیں۔
گزشتہ کئی ماہ سے تو جیسے پنجاب اسمبلی میں کوئی میوزیکل چیئر کا کھیل چل رہا ہو۔ کبھی عثمان بزدار، کبھی حمزہ شہباز شریف اور کبھی چوہدری پرویز الٰہی وزارت اعلیٰ کے منصب پر براجمان ہو جاتے ہیں لیکن سیاسی بے یقینی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ موجودہ سیاسی تھیٹر کے تازہ ترین شو میں جو ہم نے جو دیکھا اس میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان صاحب کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کرنا، پھر تاریخ دینا، چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے تمام تر تحفظات کے باوجود عمران خان کی بات مان لینا، پھر وفاقی حکومت اور پی ڈی ایم کی جانب سے پنجاب اسمبلی کی تحلیل رکوانے کے لیے حرکت میں آنا اور مختلف اقدامات کرنا اور پی ٹی آئی اور قاف لیگ کا کچھ جوابی ایکشن کرنا شامل ہے۔ اس سے آگے اس نوٹنکی میں ابھی کس ایکٹر مزید کیا کردار ادا کرناہے یہ آنے والے چند دنوں میں واضح ہو جائے گا۔
ایک طرف تو پنجاب اسمبلی کے اندر عجیب قسم کی کھینچا تانی کا عمل جاری ہے اور اسمبلیاں ٹوٹنے یا نا ٹوٹنے اور تحریک عدم اعتماد کے معاملات پر ابھی کنفیوژن جاری تھی کہ گورنر پنجاب کی جانب سے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے بھی کہہ دیا گیا۔ اس کو مزید تڑکا اس وقت لگا جب سپیکر پنجاب اسمبلی نے گورنر صاحب کے احکامات ماننے اور ان پر عملدآمد کرنے سے انکار کر دیا۔ یعنی ایک بات تو کنفرم ہے کہ عمران خان صاحب کے منصوبہ کے تحت بروز جمعہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل ممکن نہیں۔ رہی بات کہ اسمبلی کی بقیہ مدت کے لیے وزیر اعلیٰ کون ہو گا؟ تو اس کا فیصلہ بھی آئندہ چند روز میں ہو جائے گا۔ پنجاب میں ہونے والی اس ساری گڑبڑ اور بے یقینی کی صورتحال کا فائدہ جانے کس کو ہو رہا ہے لیکن ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان معاملات کا پنجاب کے عوام کو خسارہ ہی خسارہ ہے۔
ویسے تو کسی بھی سیاستدان کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اسے قومی مفاد اپنے ذاتی مفاد سے زیادہ عزیز ہے لیکن اگر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو خود غرضی کی سیاست کا سردار قرار دیا جائے تو زیادہ غلط نہ ہو گا۔ ان کی اب تک کی حکمت عملی اور سیاسی فیصلوں سے تو لگتا ہے کہ انہوں نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ پاکستان کی سیاست کو اس وقت تک سکون سے نہیں بیٹھنے دیں گے جب تک(جیسے بھی ہو) انہیں دوبارہ وزیر اعظم کی کرسی پر نہیں بٹھا دیا جاتا۔اب یہ کیونکر ممکن ہے یہ ایک غور طلب بات ہے۔
ویسے تو مجھے ان کے اس مطالبے اور اس کی حمائت کرنے والوں پر حیرت ہے کیونکہ ابھی زیادہ پرانی بات نہیں کہ خان صاحب ایک اندھا دھند قسم کے اقتدار کا مزہ لے رہے تھے لیکن جب بھی ان سے ان کی کارکردگی کے بارے میں سوال کیا جائے تو وہ تلملا جاتے ہیں اور ان کے پاس آئیں بائیں شائیں کے علاوہ کوئی جواب نہیں ہوتا۔
اس صورتحال میں یہ تو پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ سموگ تو آنے والے،مہینہ ڈیڑھ میں ختم ہو جائے گی لیکن سیاسی سموگ کے ختم ہونے کے امکانات تو سالہاسال تک نظر نہیں آتے۔ اللہ تعالیٰ ہماری سیاسی قیادت کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ ملکی مفاد میں بہتر فیصلے کر سکے۔

تبصرے بند ہیں.