پنجاب اسمبلی اور آڈیو لیکس

25

سب کی نظر اس وقت پنجاب پر ہے۔ ایک نیا آئینی بحران جنم لے چکا ہے لیکن پی ڈی ایم اس لیے مطمئن ہے کہ پنجاب اسمبلی بچ جائے گی۔ انہیں اس بات سے بھی غرض نہیں کہ پرویز الٰہی وزیراعلی پنجاب رہتے ہیں یا نہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے اس میں پرویز الٰہی کی انڈرسٹینڈنگ بھی نظر آ رہی ہے۔ کچھ حلقوں سے روابط کے بعد پرویز الٰہی خاصے مطمئن ہیں اور اسی اطمینان کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ عمران خان کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ عمران خان انٹی اسٹبلشمنٹ تحریک کو آگے لے کر بڑھنا چاہتے ہیں، اس کے علاؤہ ان کے پاس کچھ کہنے کے لیے نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو وہ اپنی تقریر سے نکال دیں گے تو پھر سازش کا عنصر از خود ختم ہو جائے گا۔ پرویز الٰہی خود اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ عمران خان نے خود انہیں یہ بتایا کہ بہت سی سفارشیں آئی ہیں کہ باجوہ کے خلاف بات نہ کی جائے لیکن اس کے باوجود وہ جنرل باجوہ اور فوج کے کچھ لوگوں کے خلاف گفتگو کر رہے ہیں۔
ویسے عمران خان کے لیے یہ اطمینان کی بات ہونی چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ بظاہر نیوٹرل نظر آ رہی ہے اور اپنے اقدامات سے انہوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ عمران خان کے خلاف نہیں ہے لیکن وہ یہ سمجھ گئے ہیں کہ عمران خان کا بوجھ اٹھانا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو گی کہ ابھی تک عمران خان کو سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیجا گیا۔ عمران خان کلین چٹ چاہتے ہیں جو شائد ممکن نہیں ہے۔
معاملات صرف جنرل فیض کو آئی ایس آئی سے فارغ کرنے پر نہیں خراب ہوئے بلکہ پہلے سے یہ سلسلہ چل رہا تھا۔ یہ خبریں موجود ہیں کہ عمران خان نے کسی وقت گورنر ہاؤس پنجاب میں ہونے والی ایک نشست میں موڈ میں آکر جنرل باجوہ کو بھی فارغ کرنے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ اس کی روداد بڑے صاحب تک پہنچ گئی۔ یہ منصوبہ بھی موجود تھا کہ اگلے عام انتخابات میں عمران خان کو دو تہائی اکثریت دلائی جائے وہ پوری طاقت سے اقتدار میں آئیں اور آئینی ترامیم کر کے آئین کو صدارتی شکل دیں اور ملک کو اپنی مرضی سے چلانے کے لیے اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو عبور کر لیں۔ منصوبہ مزید دس برس تک اقتدار میں رہنے کا تھا اور اس کا اظہار پی ٹی آئی کے بہت سے لوگوں نے اپنی میڈیا گفتگو میں بھی کر دیا تھا کہ عمران خان 2032 تک اقتدار میں رہیں گے۔ 2032 تک اقتدار میں رہنے کے منصوبے میں جنرل باجوہ کہیں موجود نہیں تھے اور جنرل فیض اس منصوبے کو آگے لے کر بڑھنے کے لیے تیار کیے جا رہے تھے۔ یہ کوئی افسانوی کہانیاں نہیں ہیں بلکہ اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والی محلاتی سازشیں ہیں جو ہر دور میں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار اپنے اقتدار کی خاطر شاہ کو سولی پر چڑھا دیتے ہیں اور عمران خان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
عمران خان کو ایک دیو مالائی ہیرو ثابت کرنے کی کوششیں اب بھی جاری ہیں مگر آڈیو لیکس کے معاملے نے آہستہ آہستہ ان کے چہرے پر چڑھائی گئی موٹی تہہ کو صاف کرنا شروع کر دیا ہے۔ نیچے سے جو چہرہ برآمد ہو رہا ہے وہ کوئی خوشنما نہیں ہے۔
سب جانتے ہیں کہ ان آڈیوز کی کوئی قانونی حیثیت موجود نہیں ہے اور انہیں کسی عدالت میں ثبوت کے طور پر اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جا سکتا جب تک کوئی از خود یہ تسلیم نہ کرے کہ یہ آڈیوز ان کی ہیں۔ ان آڈیوز کو صرف اس لیے جاری کیا جا رہا ہے کہ قول و فعل کے تضاد کو سامنے لایا جا سکے۔ یہ سب وہی کر رہے ہیں جنہوں نے عمران خان کو مہاتما کے درجے پر فائز کر دیا تھا۔ خود عمران خان اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ ان کی گندی آڈیوز اور ویڈیوز تیار ہوئی ہیں اور انہیں جاری کیا سکتا ہے۔ زکوٰۃ فنڈز اور پی ٹی آئی کو موصول ہونے والی رقوم میں سے جن لوگوں کو حصہ بقدر جثہ مل رہا ہے وہ تو پوری قوت سے ان کی نفی کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ معاملہ ان سے سنبھلنے والا نہیں ہے۔ ایک طرف اسمبلیاں توڑنے کا کارڈ کھیلا جا چکا ہے اور دوسری طرف آڈیوز لیکس جاری ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔
اقتدار کا نشہ ہی الگ ہے۔ اس وقت یہی محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ اس کے احکامات کے تابع ہے اور کوئی صاحب اقتدار کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ عمران خان پر آڈیو لیکس کا حملہ اس لیے بھی شدت کا تھا کہ عائشہ گلالئی جو تحریک انصاف کی خاتون رکن تھیں انہوں نے عمران خان پر سنگین الزامات لگائے تھے جن کی نوعیت حالیہ مبینہ آڈیو جیسی ہی ہے مگر اس وقت کسی نے ان پر توجہ نہ دی بلکہ اسے محض ایک بلیک میلنگ کا حربہ قرار دیا گیا۔ اس کے بعد عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان کی کتاب سامنے آئی لیکن اس میں بیان کی گئی داستان کو بھی جھوٹ کا پلندہ قرار دیا گیا۔ اب بہت سے لوگ یہ سمجھنا شروع ہو گئے ہیں کہ ان پر لگنے والے الزامات محض الزامات نہیں ہیں کہیں نہ کہیں کوئی گڑبڑ موجود ہے۔
کچھ لوگ ہیں جن کے ذہنوں کو پوری طرح کنٹرول کیا جا چکا ہے وہ اپنے پیٹ کی خاطر عمران خان کا دفاع انتہائی وفاداری سے کر رہے ہیں اور انہوں نے اس کہاوت کو غلط ثابت کر دیا ہے کہ کتا انسان سے زیادہ وفادار ہے۔ اب اس کہاوت کو اردو کی لغت سے نکال دیں۔ مبشر لقمان نے ایک بار کہا تھا کہ دفاع کرنے والے انہیں اپنے گھر لے جائیں لیکن لے جانے سے پہلے خاور مانیکا کا انجام دیکھ لیں۔ سچ پوچھیں تو ان آڈیو لیکس کے بعد بیچاری تحریک انصاف کی خواتین کے لیے بہت بڑی مشکل کھڑی ہو گئی ہے۔ سب میں مسرت چیمہ کی طرح میڈیا کو فیس کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔
ویسے بے شرمی کی یہ انتہا بھی موجود ہے کہ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو یہ بات کررہے ہیں کہ وہ کون لوگ ہیں جو لوگوں کی ذاتی زندگی میں مداخلت کر رہے ہیں اور وہ کون ہیں جو وزیراعظم تک کی ٹیلی فون لائنیں ٹیپ کرتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی غیر اخلاقی اور غیر قانونی حرکت ہے۔ جو مبینہ آڈیوز جاری ہوئی ہیں وہ غیر اخلاقی ہیں اور ایک قومی لیڈر کے شایان شان نہیں ہیں۔ ان لوگوں کو کٹہرے میں لانا ضروری ہے جو اس قبیح حرکت میں ملوث ہیں۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ سراغ لگانا مشکل ہے کہ کون ان کو ریلیز کر رہا ہے لیکن لوگ سمجھ رہے ہیں کہ کہاں سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ ویسے عمران خان تو خود اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ انہیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ خفیہ ادارے بطور وزیراعظم ان کے فون ٹیپ کریں۔ فیاض الحسن چوہان کہا کرتے تھے کہ نوازشریف بھارت سے تعلق رکھنے والی دلشاد بیگم کو ٹیلی فون پر گانے سنایا کرتے تھے۔ وہ اس وقت کی بات کر رہے ہیں جب لینڈ لائن ہوتی تھی آج سیلولر کا زمانہ ہے آج عمران خان کی عائلہ ملک کو کی گئی فون کال لیک ہو رہی ہیں۔ کال نوازشریف کے دور میں بھی ریکارڈ ہوتی تھی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ سب آڈیو پر گفتگو کر رہے ہیں لیکن یہ مطالبہ شدت سے نہیں کیا جا رہا کہ لوگوں کی فون کال ریکارڈ کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے۔
ملک میں آئینی بحران موجود ہے۔ امن و امان کی صورتحال کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں نے سی ٹی ڈی کے دفتر پر قبضہ کر لیا اور وہاں موجود سکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا بعد ازاں ایک آپریشن کے ذریعے علاقے کو کلیئر کیا گیا۔ خیبرپختونخواہ میں اس وقت لا اینڈ آرڈر کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وفاقی حکومت اس بگڑتی صورتحال کا فائدہ اٹھا کر وہاں گورنر راج لگانے کے موڈ میں ہے۔ سارا میڈیا اس پر گفتگو کر رہا ہے کہ اسمبلی ٹوٹے گی یا نہیں؟ کیا ہم آڈیو لیکس پر سر دھنیں۔ عدم استحکام کا نتیجے میں ملکی معیشت کا بیڑہ غرق ہو جائے، کوئی پروا نہیں۔ ان حالات میں ریاست کبھی ترقی کرے گی؟ تاریخ میں آج تک تو نہیں ہوا، شائد اب ہو جائے۔

تبصرے بند ہیں.