عمران خان کی ناکامی کے اسباب

33

آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان آج اس حالت میں پہنچے ہیں۔ یعنی کل تک عوام کا ہردلعزیز سیاسی لیڈر آج متنازع شخصیت کی حیثیت سے جانا جا رہا ہے۔ اس غیر جانبدارانہ تحریر کا مقصد نہ تو کسی کی مخالفت، نہ کسی کی حمایت کرنا مقصود ہے اور نہ ہی کسی کی دل آزادی۔ دراصل گذشتہ 6 ماہ کے دوران جو بھی واقعات یا معاملے ہوئے ہیں، مشاہدات اور چند تلخ حقائق کی بنیاد پر جس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ کیا فیکٹر تھے جس کی وجہ سے عمران خان ناکامی کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان Neutral کی بھرپور حمایت سے ہی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئے۔لیکن افسوس کہ عمران خان نے کلی طور پر نیوٹرل پر انحصار کر کے اپنی سیاسی زندگی کی سب سے فاش غلطی کی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت ملنے کے بعد وہ عوام میں اپنی سیاسی ساکھ کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی Political Approachکو قوم کے ہر فرد تک پہنچاتے اور اسے مضبوط نظریے پر قائم رکھتے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔جس کا خمیازہ آج انہیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ عمران خان نے دوسری بڑی سیاسی غلطی اس وقت کی جب Popular سیاسی لیڈر بنانے والوں نے انہیں کہا کہ اب ہم نیوٹرل ہو رہے تب عمران خان نے سیاسی بصیرت کا مظاہر کرنے کے بجائے ہر موقع، ہر جگہ اور ہر پلیٹ فارم پر Neutralsکی انتہائی غیر مناسب لہجے اور الفاظ میں شدت سے مخالفت کی جو تاحال جاری و ساری ہے۔ جس سے ہماری صفوں میں موجود شرپسند عناصر اور تحریک انصاف میں موجود بعض کرگسوں نے ناجائز فائدہ اٹھا کر سوشل میڈیا پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھل کر خبث باطن کا اظہار کیا، تحریریں لکھیں اور ویڈیوز تک
بھی شیئر کیں۔ جس سے دشمن ملک میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے۔ جو بہرحال وطن اور قوم کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے والوں، ورثا اور ان کے خاندان والوں کی ناراضی کا سبب بنا۔ جو ہر محب وطن نے بھی محسوس کیا۔ اس موقع پر اگر عمران خان اتنا Strickly نہ ہوتا تویہ اتنا گمبھیر مسئلہ نہ بنتا۔ جس نے ایک جانب پاکستان کو سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار کیا تو دوسری جانب دنیا بھر میں پاک سکیورٹی ادارے کی جگ ہنسائی کا بھی سبب بنا۔بہرحال جس کا خمیازہ عوام نے ہی بھگتنا ہے۔
ماضی میں جب نواز شریف کی حکومت ختم کی گئی تو وہ بھی ”مجھے کیوں نکالا“کے بیانے کے ساتھ عوام میں آئے جو ان کا سیاسی حق تھا لیکن انہوں نے بھی ایسی شدت و نفرت کی فضا پیدا نہیں کی جو عمران خان صاحب نے کی یا ان سے دانستہ یا پھر نادانستہ طور پر کرائی گئی۔
جب بھی کوئی شخصیت، جماعت یا گروہ اپنے جائز یا ناجائز موقف پر شدت اختیار کرتے ہیں تو درحقیقت وہ واپسی کے اپنے تمام دروازے بند کردیتے ہیں۔ عمران خان صاحب جس مدینہ کی ریاست کا Concept عوام کے سامنے پیش کر رہے تھے، اسی تاجدار مدینہ کا فلسفہ حیات ”بہترین راستہ درمیانہ راستہ، اعتدال پرستی“ کی بنیاد پر تھا۔ خان صاحب کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ انہوں نے اسی عوام، انہی Neutrals اور سیاسی و مذہبی قیادتوں کے درمیان رہنا ہے۔ اتنا سخت رویہ اختیار کر کے وہ کس کو کیا پیغام دے رہے تھے؟۔ انسانی زندگی شدت پسندانہ رویوں یا پھر نعروں پر نہیں بلکہ حقائق پر چلتی ہے بیشک وہ کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں۔ چور جب چوری کر کے پکڑا جاتا ہے تو تھانیدار بھی اس سے بات کرتا ہے حتیٰ کہ جب یہ کیس عدالت میں جاتا ہے تو جج بہادر صاحب بھی نہ چاہتے ہوئے اس چور، لیٹرے سے بحث و مباحثہ کرتا ہے۔ بات چیت کے دروازے تو کوئی بھی بند نہیں کرتا۔ لہٰذا سیاست میں آخری دروازہ کبھی بند نہیں کیا جاتا۔
راقم ذاتی طور اس بات پر متفق ہے کہ عمران خان ایک کھرا، محب وطن شہری ہیں۔ دراصل عمران خان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ یورپ میں گزرا ہے جہاں سیاسی منافقت نام کی چیز نہیں ہوتی۔ جبکہ پاکستان کا سیاسی ڈھانچہ Political Structure جھوٹ، منافقت اور کرپشن حرام خوری پر استوار ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرنا پڑے گا کہ سیاسی منافقت سے پاک عمران خان کی اس سادگی کا فائدہ مفاد پرست لوگوں نے اٹھایا۔ ان کی ناکامی کی تیسری بڑی وجہ ان کے ارد گرد کچھ مفادپرست اور مخصوص فکری سوچ رکھنے والوں جیسے قادیانی وغیرہ سمیت Anti Establishment گروہ تھا جنہوں نے عمران خان کو استعمال کیا۔اور پھر یہ سارے معاملے بنے جس سے پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی و معاشی عدم استحکام سے دوچار ہوا۔ اور درحقیقت یہی عالمی اسٹیبلشمنٹ کا دجالی منصوبہ تھا۔جس میں عمران خان کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ چوتھی وجہ اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان جتنے بھی بیانیے لے کر سڑکوں پرنکلے ان تمام بیانیوں سے UTrun یوٹرن ان کی سیاسی حمایت میں کمی کا سبب بنے، جن سے ان کے ووٹرز بھی بددل ہوئے۔
عمران خان اسمبلیاں توڑے یا نہ توڑے اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں ان زمینی حقائق کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے، کہ پاکستان کو اس حالت میں پہنچانے والی و ہ غلام زدہ کرپٹ مافیا ہے جو پچاس سال سے حکمرانی کرتی چلی آرہی ہے۔اسی لیے تو راقم بار بار اور ببانگ دہل ہر پلیٹ فارم پر کہہ رہا ہے کہ ”کرپٹ عناصر درحقیقت شیطان کا دوسرا روپ ہیں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی ادارے، حلقے یا پھر طبقے سے ہو“۔

تبصرے بند ہیں.