صوبائی اسمبلیاں ٹوٹ گئیں تو۔۔

26

ہم نے ملکی سیاست میں ایسے مسائل کبھی دیکھے اور نہ ہی زندگی میں کبھی سیاسی اداروں کو اتنا کمزور پایا۔ ایسا تو 90کی سیاست میں بھی نہیں تھا جیسا آج ہو رہا ہے۔ اس وقت ملک معاشی طور پر نسبتاََ مستحکم تھا، مگر آج تو حد ہی ہو گئی ہے کہ ایک طرف ادائیگیوں کرنے کے لیے ڈالر نہیں ہیں جبکہ دوسری طرف ہمارے سیاستدانوں کو اقتدار کی ہوس ستائے جا رہی ہے۔ لیکن کوئی یہ سمجھنے کو تیار نہیں ہے کہ جب تک سیاسی طور پر ملک مستحکم نہیں ہوگا تب تک ہم معاشی طور پر بھی ٹھیک نہیں ہو سکتے۔اس وقت بھی ملک بھر میں سیاسی ہلچل کے بادل صاف دکھائی دے رہے ہیں، ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی تاریخیں دے رہے ہیں جبکہ دوسری جانب پی ڈی ایم اسمبلیاں بچانے کی آپشنز پر غور کر رہی ہے۔ جبکہ مہنگائی کے مارے عوام ان سیاستدانوں کے لیے ایسے ایسے کلمات استعمال کر رہے ہیں کہ خدا کی پناہ!
خیر بات ہو رہی تھی دو صوبائی اسمبلیاں( پنجاب اور خیبر پختونخوا) توڑنے کی تو اس حوالے سے خان صاحب نے اعلان کیا ہے کہ اگلے جمعہ کو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دیں گے اوراس کے بعد ایک ساتھ قومی اسمبلی میں سپیکر کے سامنے کھڑے ہو کر استعفے منظور کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ جبکہ دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ارکان صوبائی اسمبلی نے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر دستخط کردیے ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے گورنر سے رجوع کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر اسمبلیاں ٹوٹ گئیں تو اس کے بعد کیا ہوگا؟ یاسوال یہ بھی ہے کہ آئندہ جمعہ کو صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے اعلان پر عمل ہوتا ہے یا نہیں یہ تو وقت آنے ہی پر واضح ہوگا تاہم یہ بات تو طے ہے کہ اگر اسمبلیاں ٹوٹ جاتی ہیںتو اتنی بڑی تعداد میں ضمنی الیکشن کرانا ممکن نہیں ہوگا، اور سرکار کو مجبوراََ جنرل الیکشن کی طرف دیکھنا ہوگا۔ لیکن اگر مرکزی سرکار بھی اسی پر بضد رہتی ہے کہ ضمنی الیکشن پر ہی اکتفا کیا جائے تو میرے خیال میں یہ تحریک انصاف کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ کہ ان کی چھوڑی ہوئی سیٹوں میں سے کئی سیٹوں پر پی ڈی ایم کا قبضہ ہو سکتا ہے۔ اور اس طرح تحریک انصاف مزید سیٹوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔
لیکن اس حوالے سے درست نتائج اخذ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ان سیاسی حالات پر ایک سرسری نگاہ ڈال لی جائے۔ رواں سال اپریل میں بذریعہ تحریک عدم اعتماد وفاقی حکومت کی تبدیلی کے بعد سابق حکمراں جماعت کی قیادت نے آئینی طریقے سے عمل میں آنے والی اس تبدیلی کو جمہوری رویہ اپناتے ہوئے قبول کرلیا ہوتا اور دنیا کے مہذب جمہوری ملکوں کی روایت کے مطابق پارلیمنٹ میں بیٹھ کر بحیثیت اپوزیشن اپنی ذمے داریاں ادا کرنا شروع کردی ہوتیں تو ملک یقینا اس سیاسی بے یقینی اور معاشی افراتفری کا شکار نہ ہوتا جس میں آج مبتلا ہے اور جس کی کیفیت روز بروز ابتر ہوتی جارہی ہے۔ تاہم سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پہلے اپنی حکومت کے خاتمے کو محض ایک سفارتی مراسلے کو جواز بناکر برملا امریکی سازش قرار دیا اور اس میں ملک کی عسکری قیادت کے ملوث ہونے کا الزام لگایا، اس بنیاد پر فوری نئے
انتخابات کیلئے ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کی، وفاقی دارالحکومت پر لاکھوں کا لشکر لے جاکراحتجاج کرنے کے اعلانات کیے، نئے آرمی چیف کی تقرری اپنی مرضی کے مطابق کرانے کیلئے لانگ مارچ کااہتمام کیا جو محض ایک ایسے جلسے پر اختتام پذیر ہوا جس میں پنجاب اور خیبرپختون خوا کی اسمبلیاں توڑنے کے فیصلے کا اعلان کیا گیا جبکہ منظر عام پر آنے والے ٹھوس اور یقینی شواہد سے ثابت ہوگیا ہے کہ امریکی سازش کا بیانیہ بالکل بے بنیاد تھا اور آئینی و جمہوری طریقے سے حکومت کی تبدیلی کو مسترد کرنے کی خاطر وضع کیا گیا تھا چنانچہ بعد میں تحریک
انصاف نے امریکی حکام سے روابط بہتر کرنے کی کوششیں بھی کیں اور اس مقصد کے لیے ایک لابنگ فرم کی خدمات بھی حاصل کیں لیکن حیرت انگیز طور پر گزشتہ روز اپنے خطاب میں عمران خان نے ایک بار پھر دعویٰ کیا ہے کہ ” بیرونی سازش کی وجہ سے جنرل باجوہ نے ہماری حکومت گرائی۔“ ملک میں پچھلے آٹھ ماہ سے جاری اپوزیشن اور حکومت کی یہ کشمکش اب دو صوبائی اسمبلیاں توڑے جانے کے امکان تک پہنچی ہے۔
جبکہ اس کے برعکس دونوں صوبائی وزرائے اعلیٰ ہر گزرتے روز نئے نئے منصوبوں کا افتتاح کر رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنی حکومت کے آخری چند ماہ کو وہ کیش کرانا چاہتے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی تو ہر روز کسی نہ کسی نئے منصوبے کا افتتاح کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے صوبے میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھا کر آئندہ انتخابات میں اپنی جماعت کو بھاری کامیابی حاصل کرنے کے لیے بنیاد فراہم کر دی ہے۔ دوسری طرف اگر زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھا جائے تو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کی صورت میں دونوں صوبوں میں نوے روز میں انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے کیونکہ جب تک نئی مردم شماری کے حتمی نتائج سامنے نہیں آ جاتے تب تک ان دونوں صوبوں میں نئی حلقہ بندیاں نہیں ہو سکتیں اور مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کے بغیردونوں صوبوں میں انتخابات کرانا غیر آئینی تصور کیا جائے گا‘ لیکن اگر مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کو نظرانداز کرکے دونوں صوبوں میں الیکشن کرانا مقصود ہے تو پھر اس کے لیے پہلے آئین کے آرٹیکل 51میں ترمیم کرنا ہوگی۔ واضح رہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اس فیصلے کی اس وقت کے وزیراعظم عمران خان منظوری دے چکے ہیں اور اس فیصلے پر چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ کے دستخط بھی موجود ہیں۔ مردم شماری کے حتمی نتائج سامنے آنے کے بعد بھی نئی حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن کمیشن کو چھ ماہ کا عرصہ درکار ہو گا، لہٰذا ان زمینی حقائق کو بھی عمران خان مدنظر رکھیں کیونکہ ایسی صورت میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نگران حکومت نوے روز میں انتخابات نہیں کرا سکے گی۔لہٰذاقصہ مختصر یہ ہے کہ اس سیاسی دنگل نے قومی معیشت کو جس تباہ کن دلدل میں دھنسا دیا ہے اس کے نتائج کا تصور ہی روح فرسا ہے۔ ہوشمندی اور حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ قومی بقا و سلامتی کی خاطر تمام سیاسی فریق افہام و تفہیم اور مذاکرات کا راستہ اپنائیں اور ایک دوسرے کے موقف کیلئے اپنے رویوں میں لچک پیدا کریں تاکہ سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کا خاتمہ ہوسکے جس کے بغیر قومی معیشت کی کشتی کو ڈوبنے سے بچانا محال نظر آتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.