سقوط مشرقی پاکستان تکلیف دہ واقعات۔۔۔!

61

یہاں زیادہ تفصیل کا موقع نہیں لیکن تھوڑا سا تذکرہ ان حالات و واقعات اور ان کے پس منظر، پیش منظر اور سیاق و سباق کا کرنا ضروری ہے جن کے تحت پاکستان کی مسلح افواج کو بنگالی علیحدگی پسندوں، باغیوں اور مکتی باہنی کے غنڈوں کے خلاف آپریشن سرچ لائٹ بروئے کار لانا پڑا۔ اس ضمن میں بریگیڈیر صدیق سالک مرحوم جو اس دور میں میجر کی حیثیت سے پاکستان کی مشرقی کمانڈ کے ہیڈ کوارٹر ڈھاکہ میں آئی ایس پی آر سٹاف آفیسر کی حیثیت سے تعنیات تھے کی تصنیف ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ Witness to surrender سے اس آرٹیکل میں استفادہ کیا گیا ہے۔ مرحوم صدیق سالک دسمبر 1971 میں مشرقی پاکستان میں افواج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد بھارت میں جنگی قیدی رہے۔ بھارت سے رہائی کے بعد انہوں نے یہ کتاب لکھی۔ اس میں انھوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب اور مارچ 1971 کے آپریشن ”سرچ لائٹ سے لیکر 16دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکہ اور پاکستانی افواج کے ہتھیار ڈالنے کے واقعات کا پورے حقائق و شواہد کے ساتھ معروضی حالات میں اس طرح تذکرہ کیا ہے کہ ان کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ صدیق سالک بعد میں بریگیڈیر کے رینک تک پہنچے اور 17 اگست 1988 کو آرمی چیف و صدر مملکت جنرل محمد ضیا الحق کے ہمراہ بہاولپور کے قریب پاک فضائیہ کے طیارے C-130 کے حادثے میں جاں بحق ہوئے۔
یہ درست ہے کہ دسمبر 1970 کے عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کو مشرقی پاکستان میں عدیم المثال کامیابی حاصل ہوئی اس نے پاکستان کی مرکزی دستور ساز اسمبلی کی مشرقی پاکستان کے لیے مخصوص 162 نشستوں میں سے 160 نشستوں پر اپنی جیت کے جھنڈے گاڑے۔ یہ الگ سوال ہے کہ یہ جھنڈے کیسے گاڑے گئے اس کے لیے عوامی لیگ کے مسلح غنڈوں نے طویل انتخابی مہم (جو غالباً جولائی 1970 سے دسمبر 1970 تک جاری رہی کہ مشرق پاکستان میں سمندری طوفان کی تباہ کاریوں کی وجہ سے دو بار انتخابات کے التوا کا فیصلہ کرنا پڑا) کے دوران اپنے مخالفین کو جبر و تشدد کے ذریعے دبانے، ان کے انتخابی جلسوں کو تہہ و بالا کرنے اور ووٹنگ کے دن خوف و ہراس کی فضا پیدا کر کے اپنے حق میں زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈلوانے کے ہر طرح کے حربے اختیار کیے رکھے۔ ان کا نتیجہ عوامی لیگ کی لینڈ سلائیڈ وکڑی کی صورت میں نکلنا ہی تھا چنانچہ انتخابی نتائج کے بعد عوامی لیگ کے پُرجوش کارکنوں اور وابستگان کا حوصلہ ہی نہ بڑھ گیا ان کی غیر قانونی اور جبر و تشدد کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہو گیا۔ اس کے ساتھ شیخ مجیب الرحمان جو پہلے ہی بنگلہ بندھو کہلاتا تھا، انتخابی نتائج نے اس کی
حیثیت کو مزید مستحکم کر دیا۔ بظاہر شیخ مجیب الرحمان کا رویہ صدر مملکت و چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل آغا یحییٰ خان اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کسی حد تک فرماں برداری اور تعاون کا چلا آ رہا تھا اب اس میں سرکشی اور خود سری جھلکنے لگی اور وہ موقع بہ موقع مشرقی پاکستان کی متحدہ پاکستان سے علیحدگی اور آزاد بنگلہ دیش کے قیام کے اپنے اصلی اور مذموم مقاصد کا کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اظہار کرنے لگا۔ اس ضمن میں اس دور کے ڈھاکہ کے انگریزی اخبار ”پاکستان آبزرور“ میں 12 دسمبر 1970 کو چھپنے والی ایک خبر کے اقتباس کا حوالہ دیا جاتا ہے جسے مرحوم بریگیڈیر صدیق سالک نے اپنی تصنیف ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا (Witness to Surrender)“ کے باب 5 (شیخ صاحب ۔۔۔ جیت گئے) میں نقل کیا ہے۔ خبر کے مطابق ”شیخ صاحب نے الیکشن کے دو دن بعد ارشاد فرمایا بنگلہ دیش کے عوام نے یہ انتخاب 6 نکات، 11 نکات اور صوبائی خود مختاری پر ریفرنڈم کی حیثیت سے جیتے ہیں لہٰذا 6 نکات پر مبنی ایسے دستور کی تشکیل از بس ضروری ہے جس میں مکمل خود مختاری کی پوری ضمانت دی گئی ہو۔“
یہ المیہ تھا کہ شیخ مجیب الرحمان اور اس کی جماعت عوامی لیگ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور آزاد ریاست بنگلہ دیش کے قیام کے اپنے منصوبے یا مقصدکو آگے لیکر چل رہے تھے اور صدر و چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر آغا محمد یحییٰ خان اور ان کے ساتھیوں کو کچھ سوجھ نہیں رہا تھا کہ وہ کیسے معاملات کو آگے لے کر چلیں وہ اپنی رنگ رلیوں میں پڑے ہوئے تھے۔ ایک طرف انہیں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کی آئے روز کی قلابازیوں، کہہ مکرنیوں اور وعدہ خلافیوں کا سامنا تھا تو اس کے ساتھ عوامی لیگ کی طرف سے آئے روز کے پُرتشدد ہنگاموں، غیر قانونی مطالبات، ہڑتالوں اور پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف نفرت انگیز نعروں اور وطن دشمن مہم کا بھی سامنا کر نا پڑ رہا تھا تو دوسری طرف عام انتخابات میں مغربی پاکستان میں قومی اسمبلی (دستور ساز اسمبلی) میں مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کے لیے مختص 138 نشستوں میں سے 81 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے دباؤ اور مطالبات کا سامنا الگ تھا۔ بھٹو کا موقف تھا کہ دستور سازی کے لیے دستور ساز اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنے سے قبل آئین کے اہم نکات کے بارے میں دونوں بڑی جماعتوں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ اور ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان اتفاق رائے ہونا ضروری ہے۔ بھٹو کو شیخ مجیب الرحمان کے حکومت کا سربراہ (وزیر اعظم پاکستان) بننے پر بھی تحفظات تھے یہی وجہ ہے کہ بھٹو ”اِدھر ہم، اُدھر تم“ کا نعرہ بلند کر چکے تھے اس کے ساتھ انہوں نے یہ اعلان بھی کر رکھا تھا کہ دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس جس کے 3 مارچ 1971 کو ڈھاکہ میں انعقاد کا اعلان ہو چکا تھا میں شرکت کے لیے مغربی پاکستان سے جانے والے ارکان دستور ساز اسمبلی کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ حالات و واقعات کے اس تناظر میں یحییٰ خان کی حکومت نے دستور ساز اسمبلی کے 3 مارچ 1971 کو ڈھاکہ میں منعقد ہونے والے پہلے اجلاس کے ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا تو مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی طرف سے جاری پُر زور احتجاج، ہڑتالوں، فسادات اور پُرتشدد ہنگاموں میں ہی اضافہ نہ ہو گیا بلکہ اس بات کے چرچے بھی ہونے لگے کہ شیخ مجیب الرحمان کسی بھی وقت آزاد بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کر سکتا ہے۔ 7 مارچ کو ڈھاکہ کے رمنا ریس کورس میں عوامی لیگ کا احتجاجی جلسہ تھا جس میں لاکھوں افراد شریک تھے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ شیخ مجیب الرحمان آزاد بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کریں گے لیکن شیخ مجیب الرحمان نے پینترا بدلتے ہوئے ایسا کچھ نہ کیا اور نہ ہی آزاد بنگلہ دیش کا پرچم لہرایا حالانکہ اسی دن صبح شیخ مجیب الرحمان کی ذاتی رہائش گاہ کی چھت پر کچھ طلبا نے بنگلہ دیش کا پرچم لہرایا تو شیخ مجیب الرحمان نے اس پر کوئی اعتراض نہ کیا۔ (جاری ہے)

تبصرے بند ہیں.