کرپشن نان سٹاپ، حکومت بے بس!

25

دسمبر کا مہینہ آتے ہی لندن میں لگی کرسمس کی سیلیں یاد آجاتی ہیں۔ اگرچہ مجھے لندن جانے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن میں کچھ عرصہ پہلے تک وہاں پر لگنے کرسمس سیل سے بھر پور فائدہ ضرور اٹھاتا رہا ہوں۔ جی ہاں، لندن جائے بغیر سیل کے مزے اٹھانے کی کہانی بہت دلچسپ ہے لیکن یہ سلسلہ بند ہو جانے کی وجوہات اس سے بھی کہیں زیادہ افسوسناک ہیں۔
یہ بات ہے نوے کی دہائی کے آخر کی جب ایک لندن پلٹ دوست نے ہمیں وہاں پر دسمبر کے مہینہ میں لگنے والی سیل کے بارے میں بتایا۔ بات کافی پرکشش تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس موقع پر لگنے والی سیل میں تو بعض اوقات امید سے بھی نیچے کے ریٹ پر چیزیں مل جایا کرتی ہیں۔
ہماری دلچسپی تو صرف گارمنٹس وغیرہ میں تھی سواس سلسلہ میں پانچ چھ دوستوں کا گروپ تشکیل دے دیا گیا۔ ہم اپنی اپنی پسند کی اشیا کی آن لائین خریداری کر کے قیمت اور ڈی ایچ ایل چارجز کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادا کر دیتے اور جلد ہی ہماری منتخب کردہ اشیا ہمیں مل جاتیں۔ یقین کریں کہ بعض اوقات تو کپڑے اتنے مناسب ریٹ پر ملتے کہ پاکستانی پرادکٹس بھی ان سے زیادہ مہنگی معلوم ہوتیں۔ یہ موجیں کچھ سال لگی رہیں اور اس دوران ہم نے مشہور ترین برانڈز کی چیزیں بہت فراوانی سے استعمال کیں۔ لیکن پھر اچانک گوروں کو جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے ہمارے آرڈرز وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ ہم نے بہت استفسار کیا کہ بھئی اگر آپ کو ہر قسم کی ادائیگی ایڈوانس میں کی جا رہی ہے تو پھر آپ کو اعتراض کیوں ہے۔ لیکن کسی بھی سٹور کی انتظامیہ نے کبھی بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ بس یہی کہہ کر ٹرخا دیا جاتا کہ ان کا سٹور ایک پالیسی میڑ کے تحت پاکستانیوں کے ساتھ ڈیل نہیں کرتا۔
اگرچہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا اور یہاں حکومت کے نام پر فوجی آمریت قائم تھی۔ ویسے تو یہ کسی بھی طور معقول بات نہیں تھی لیکن پھر بھی اس وقت کے حساب سے اگر کوئی ہمارے ساتھ ڈیلنگ نہیں کرنا چاہتا تھا تو بات کسی حد تک سمجھ میں آتی تھی۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ آج جب ہمارے ہاں دہشت گردی پر قابو پایا جاچکا ہے، آمریت کا بوریا بستر گول ہو چکا ہے اور جمہوریت کا ڈنکا بجتا ہے تب بھی بیشتر ممالک میں موجود کاروباری حضرات ہمارے ساتھ معاملات کر کے راضی نہیں ہیں۔ بہت غور کر نے کے بعد کم از کم میں تو اس نتیجہ پر پہنچا ہو ں کہ شاید اس قسم کے رویہ کی وجہ دہشت گردی اور آمریت سے زیادہ بے ایمانی، دھوکا دہی اور چکر بازی رہی ہو گی۔ حال ہی میں ایک دوست صاحب، جو لندن میں سپورٹس سے متعلق اشیا کا ایک بڑا سٹور چلاتے ہیں، وزٹ پر پاکستان آئے ہوئے تھے۔ ایک دن گپ شپ کے دوران استفسار پر انہوں نے بتایا کہ سوائے کرکٹ بالز کے وہ کوئی بھی چیز پاکستان سے نہیں منگواتے، اور شائد عنقریب وہ کرکٹ بالز بھی منگوانا بند کر دیں۔ وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کہ پاکستان کے ایکسپورٹر اول درجے کے سست، کاہل اور بے ایمان واقع ہوئے ہیں۔ دوست صاحب کی بات سن کر دل کو دھچکا لگاکہ کھیلوں سے متعلق معیاری مصنوعات بنانا تو پاکستان کی وجہ شہرت ہے اور ان کی ایکسپورٹ سے توہم کثیر زرمبادلہ حاصل کرتے ہیں، اگر اس شعبہ کا یہ حال ہو گیا ہے تو باقی جگہوں کا تو اللہ ہی حافظ ہو گا۔
صورتحال پر غور کرتے کرتے ذہن میں ایک سوال ابھرا کہ اگر ہم جیسے عام لوگوں کے علم میں یہ تمام باتیں آ رہی ہیں تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ حکومت کو ان کا علم نہ ہو۔ اور اگر یہ سب حکومت کے علم میں ہے تو ہر وقت ایکسپورٹس کم ہونے اور زر مبادلہ کے ذخائر کی زبوں حالی کا رونا رونے کے بجا ئے وہ اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کیوں نہیں اٹھاتی۔ پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لی کہ شاید اس سلسلہ میں بھی حکومتی سطح پر وہی کچھ ہو رہا ہو گا جو باقی اہم ترین مسائل جیسے کہ مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، علاج معالجہ کی سہولیات کی عدم دستیابی وغیرہ کے حل کے لیے ہو رہا ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر اب تک پچھتر سال میں ہم نے آمریتیں بھی دیکھیں، جمہوری ادوار بھی دیکھے، امپورٹڈ حکومتیں (عمران خان صاحب والی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں اصلی) بھی دیکھیں لیکن بدقسمتی سے کسی ایسے شخص کو حکمران بنتے نہیں دیکھا جسے ذاتی مفاد کے بجائے عوام کا مفاد عزیز ہو۔
کچھ برس قبل جب عمران خان صاحب نے سیاست میں بھرپور طریقے سے انٹری ڈالی تو ان کی چکنی چپڑی باتیں اور بلند و بانگ دعوے سن کر ایک حقیقی تبدیلی کی امید نظر آئی۔ ان کی یہ بات تو کتنی اچھی لگتی تھی کہ اگر حکومت نے بڑے چوروں پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی اور انہوں نے آزاد ہی پھرنا ہے تو پھر چھوٹے چوروں کو جیلوں میں کیوں رکھا جاتا ہے، انہیں بھی آزاد کر دینا چاہیے۔
پھر یہ ہوا کہ عمران خان صاحب حکومت میں آ گئے۔ ہم سب نے امید لگائی کہ اب تو نہ صرف چھوٹے چور جیلوں میں ہی رہیں گے بلکہ بڑے چوروں کی بھی خیر نہیں۔ لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس، بجائے اس کے خان صاحب چوروں کے لیے زمین تنگ کر دیتے انہوں نے خود ہی چوروں کے ساتھ ہاتھ ملا لیے۔ مبینہ طور پر وفاق، خیبر پختونخواہ اورپنجاب میں سرکاری محکموں جو منڈی لگی سو لگی لیکن خان صاحب نے تو اپنے اہل خانہ کے ساتھ مل کر توشہ خانہ کو مال جمع کرنے کا ذریعہ بنا لیا اور اربوں روپے کی چیزیں اونے پونے دام سرکاری خزانہ میں جمع کروا کر حاصل کیں اور پھر اوپن مارکیٹ میں بیچ ڈالیں۔ ان میں کچھ ایسے قیمتی اور نایاب تحفے بھی بیچ ڈالے گئے جو وزیراعظم پاکستان کے لیے خصوصی طور پر ڈیزائن کروائے گئے تھے۔
اگرچہ خان صاحب نے بھی اس ملک کے ساتھ کم و بیش وہی سلوک کیا ہے جو پچھلے پچھتر سالوں سے ہوتا چلا آ رہا تھا لیکن ان کے ایسا کرنے کا زیادہ افسوس اور زیادہ غصہ اس لیے ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ ر یاست مدینہ کا نام لے کر کیا اور ہمیں سماجی انصاف، بدعنوانی کے خاتمہ، اقتصادی استحکام، تعلیم اور صحت کی فکر سے آزادی اور جانے کیا کیا خواب دکھا کر کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارا مطالبہ تو سبھی کرپٹ سیاستدانوں، سرکاری ملازموں اور ہر قسم کے مافیاکے کڑے اور بے رحم احتساب کا ہے لیکن امید ہے کہ اس کا آغاز عمران خان صاحب سے ہو۔اور اگر کوئی اس کی وجہ پوچھے تو اسے بتایا جائے کے کرپشن کے معاملات تو خیر عدالتوں میں طے ہوں گے یہ ترجیحی سلوک تو صرف عوام کے جذبات سے کھیلنے کی وجہ سے کیا جا رہا ہے۔

تبصرے بند ہیں.