16دسمبر: تاریخ کا ناقابل فراموش تاریک دن

14

1857ء سے ٹھیک سو برس پہلے یعنی 1757ء میں لڑی جانے والی جنگ ِ پلاسی بنگال میں ہی لڑی گئی۔ نواب سراج الدولہ اورمیر جعفر دونوں کا تعلق بنگال سے تھا۔ جنگ پلاسی کی شکست کے بعد جب انگریزوں نے بنگال پر قبضہ کرلیا تو بنگالیوں نے فوری طور پر بننے والے سکولوں سے نہ صرف تعلیم حاصل کرنا شروع کردی بلکہ اسی تعلیم کی بنیاد پر انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں چھوٹے عہدوں پر ملازمت بھی حاصل کر لی جس کا ایک فائدہ بہرحال انہیں ہوا کہ اُن کے انگریز آقاؤں اوراُن کے درمیان زبان کا مسئلہ حل ہوگیا۔ ہم ایسٹ انڈیا کمپنی کے اُن ملازمین کو بنگالی بابو کہتے تھے۔ بنگالیوں نے مغربی پاکستان کے علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں سے سو برس پہلے اپنا ذہنی سفر شروع کیا اور یہی وجہ تھی کہ وہ کسی بھی قسم کی زیادتی اورجبر کو سمجھنے اور اُس کے خلاف مزاحمت کرنے میں تاخیر کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ اردو دانشوروں نے انہیں دبا کر رکھنا چاہا تو شعلہ بھڑک اٹھا اور پھر کسی کے بس میں بھی اُسے بجھانا ممکن نہ رہا۔مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا لیکن کوئی بات نہیں دنیا میں جغرافیے بدلتے رہتے ہیں لیکن جس ذلت آمیز نتیجہ سے ہم نے بنگالیوں کو خود سے الگ کیا ہے اُس نے مستقبل میں دو مسلم ممالک کے درمیان نفرت کی خلیج بڑھا دی ۔ آج 51 سال بعد بھی اُس درد کی ٹیسیں ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔بلاشبہ حادثے صدیوں کی پرورش کا نتیجہ ہوتے ہیں لیکن حادثے کے وقوعے کے مجرمان کا تعین اورسزا کا عمل نہ ہونا نئے حادثات کی پرورش کا سبب بن جاتا ہے۔آج پاکستان میں اٹھنے والی ناپسندیدہ آوازوں کی بنیادیں کہیں مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کی واردات میں تو نہیں چھپیں۔ ہم نے ملزموں کو سزا نہ دے کر نئی زبانوں کو جرأت دی ہے۔ نئے حوصلوں کو قوتِ متحرکہ فراہم کی ہے لیکن اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ ابھی بہت سا پانی ان پلوں کے نیچے سے گزرنا ہے۔ میں کبھی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو سیاسی شکست تسلیم نہیں کرسکتا کیونکہ ایسا کرنے کا کوئی بھی عقلی جواز میرے پاس موجود نہیں۔اگر کوئی دھونس ٗ جبر اور طاقت کے لامحدود اختیارات کا استعمال کرکے آزاد ذہنوں کو ایسا سوچنے پر مجبور کرے گا تو اس کا نتیجہ ایک اور سقوط کے سواء کچھ نہیں ہو گا۔ 1970ء کے عام انتخابات نے مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان کو نکال باہر کیا تھا اور یہی کام مغربی پاکستان کے عوام نے کیا لیکن بات وہی ہے جو آج ہو رہی ہے کہ اُس وقت مشرقی پاکستان
ٗپنجاب کی طرح ووٹ اورقومی اسمبلی کی نشستوں کے حوالے سے اکثریت رکھتا تھا جس نے مجیب الرحمان پر اعتماد کیا۔ اب اقتدار منتقل کرنا تو یحییٰ خان کی ذمہ داری تھی لیکن اقلیتی پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر خارجہ بنا کر اقوام متحدہ میں بھیج دیا گیاجبکہ اکثریتی پارٹی کے سربراہ مجیب الرحمان کو گرفتار کر لیا گیا اوریہ کارنامہ اُسی شخص نے سرانجام دیا جس کی ذمہ داری مجیب کو پاکستان کا اقتدار منتقل کرنے کی تھی۔
یوم پاکستان23 مارچ 1971ء بنگالیوں نے اپنے گھروں پر سیاہ پرچم لہرا کریوم ِسیاہ کے طور پر منایااور بنگلہ دیش میں سیاہ پرچموں کی بہار آ گئی۔ 26 مارچ کو بنگالیوں کے خلاف بے رحم آپریشن شروع ہوا جو ڈھاکہ کی پلٹون گراؤنڈ پر اختتام پذیر ہوا۔ وہی بنگالی جن کے سینے اورقد چھوٹے تھے ٗ آج دنیا بھر میں سینہ پھلائے پھر رہے ہیں۔ جب بنگالی ہمارے ساتھ تھے تو اُن کا مطالبہ تھا کہ خزانہ آباد ی کے حوالے سے خرچ کیا جائے لیکن ہم اُسے رقبے کے اعتبار سے خرچ کرنے پر بضد تھے کیوں کہ مغربی پاکستان رقبے اورمشرقی پاکستان آبادی کے حوالے سے بڑا تھا لیکن مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی دیر تھی کہ ہم نے خزانہ رقبہ کے بجائے آبادی کے حوالے سے خرچ کرنا شروع کردیا کیونکہ اب رقبے کے اعتبار سے بلوچستان اورآبادی کے حوالے سے پنجاب بڑا تھا۔ میں آج تک اس سوچ میں مبتلا ہوں کہ جس مطالبے پر بنگالی غدارتھے اُسی مطالبے پر کوئی دوسرا کیسے محب وطن ہو سکتا ہے؟
اپنے پاکستان کے ساتھ جس جس نے بھی برا کیا ہے اُس کا انجام بڑا ہولناک ہوا ہے وہ کوئی بھی ہو۔ اس کا بُرا سوچنے والے کبھی سرسبز نہیں ہوئے۔ یحییٰ خان کو اورنیازی کو اپنے شعبے میں جو ذلت نصیب ہوئی کسی کے دوسرے کے حصے میں نہیں آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوادونوں بیٹے اور بیٹی غیر طبعی موت مارے گئے ٗ مجیب الرحمان کو بچوں سمیت قتل کردیا گیااور اندراگاندھی کا انجام بھی ساری دنیا کے سامنے ہے۔مجھے توآج بھی اُن لوگوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان قیامت تک رہنے کیلئے بنا ہے ٗ ایسے ہی لوگ پاکستان ٹوٹنے سے پہلے بھی تھے جو کہتا تھے کہ ”پاکستان اللہ کا نور ہے اورنور کو زوال نہیں۔“ لیکن پاکستان اُن کے سامنے ہی دو لخت ہو گیا اوروہ دیکھتے ہی رہ گئے لیکن ایک درویش چیخ چیخ کر کہتا رہا کہ
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
اور پھر جالب کا گمان سب صوفیوں کے یقین پرغالب آ گیا۔ پاکستا ن دو لخت ہو گیا لیکن ہم نے اُس سے کوئی سبق نہیں سیکھا ٗمعاشی ناہمواری ایک ماں باپ کی اولاد کے آنگن میں بٹوارے کی دیوار کھڑی کرا دیتی ہے۔ محرومیاں، نفرتیں اور دوریاں علیحدگی کی سب سے بڑی وجہ ہوتی ہے۔ تاریخ کا بددیانت سے بددیانت مورخ بھی ہمیں اس المیے سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتا لیکن افسوس صرف اس بات کا ہے کہ ہم ہمیشہ سانپ کے گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں بلاشبہ معاشی ناانصافی عروج پر تھی ٗ زبان کا مسئلہ ہم نے آغاز میں ہی پیدا کردیا تھا ٗ
مسلم لیگ بنگالیوں نے بنائی ٗ قرارداد پاکستان بنگالیوں نے پیش کی ٗ قائد اعظم کے ابتدائی ساتھیوں میں بنگالی سرفہرست تھے لیکن پاکستان بننے کے بعد قرارداد پاکستان پیش کرنے والے اے۔کے فضل حق پرہم نے غداری کا مقدمہ قائم کیا۔ 1954ء کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں مشرقی پاکستان کی 310 نشستوں میں سے قائد اعظم کی مسلم لیگ کو صرف 9 نشستیں ملیں جب کہ ہاؤس میں ایک گروپ بننے کیلئے 10 نشستیں درکار تھیں۔ یوں قائد کی مسلم لیگ کو تو سقوط ڈھاکہ سے بہت پہلے بنگالیوں نے دیس نکالا دے دیا تھا ٗ1971 ء میں تو صرف اس کا جسمانی علیحدگی کا اعلان ہونا تھا۔ جس جگتو فرنٹ کو آج بھی پاکستان کے سیاستدان غدار کہتے ہیں اُن میں سب سے پہلے حسین شہید سہروردی کا نام آتا ہے جو قائد اعظم محمد علی جناح کے دائیں بازو تھے ٗ دوسرے نمبر پراے۔ کے فضل حق کا نام لیا جاتا ہے جنہوں نے قرارداد پاکستان پیش کی تھی اورتیسرے نمبر پر شیخ مجیب الرحمان تھے جن کو قائد نے اپنی زندگی میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن مشرقی پاکستان کا صدر نامزد کیا تھا۔ ان قائدین میں صرف مولانا بھاشانی ایک غیر مسلم لیگی تھے ورنہ تو سب مسلم لیگ کے وفادار اور قائد کے قریبی ساتھی تھے لیکن جن کے پاس انگریز سے آزادی کا وسیع تجربہ تھا اُن کیلئے بنگلہ دیش بنانا کونسا مشکل کام تھا۔ دسمبر ہمیں ہمیشہ دکھ دے کر جاتا ہے ٗ کبھی مشرقی پاکستان کا سقوط ٗ کبھی اے پی ایس کے بچوں کا قتل اور کبھی ملک میں بے یقینی کی فضا کی انتہا…… میں کبھی کسی قو م ٗ مذہب یا مسلک پر تنقید نہیں کرتا لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دسمبر میں پاکستان ٹوٹا تو ایک نیازی مشرقی پاکستان میں فوج کی کمان سنبھالے ہوئے تھے اور آج دسمبر میں اسمبلیاں ٹوٹنے کا خطرہ ہے جو دوسرے بہت سے خطروں کو جنم دے گا تو با ل پھر ایک نیازی کی کورٹ میں ہے خدا جانے یہ نیازی توڑنے کا کام دسمبر میں ہی کیوں کرتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.