کیا مسائل کا حل الیکشن میں ہے؟

33

قوموں کی زندگی میں بہت سے ایام ایسے ہوتے ہیں جو فخر و انسباط یا احساس ندامت کا موجب بننے والے حادثات سے جڑے ہوتے ہیں۔ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو ماضی کی غلطیوں سے سیکھتی ہیں،اور وہ قومیں جو اپنی خامیوں سے بالکل نہ سیکھیں اور غلطیاں در غلطیاں کرتی رہیں وہ قومیں خود اپنی تباہی کو پکار رہی ہوتی ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کی چال ڈھال سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ ہر بار کی طرح بات سمجھنے کی بجائے اپنی اپنی بات کو ہی سمجھانے کی طرف لگے ہیں،کسی کو اس بات سے غرض نہیں رہی کہ وہ ملکی مسائل یا عوامی مسائل کو دیکھتے ہوئے اپنی سوچ کو ایک نقطے پہ کبھی نہیں رکھتے۔ اگر ہم ماضی کی بہت بڑی بڑی غلطیوں میں سے اگر ایک ہی کو دیکھ لیں تو میرے خیال میں وہی کافی ہو گی جب اقتدار کی غرض سے 1971 ء میں مشرقی پاکستان،پاکستان سے کٹ کے بنگلہ دیش بنا۔جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا تو دنیا بھر میں اس ملک کی پہچان ایسی تھی جو قدرتی آفات میں گھرا ہوا تھا اور معیشت انتہائی نازک تھی۔ بے تحاشا آبادی، شدید غربت، محدود وسائل،نہ ہونے کے برابر صنعتوں کے سبب اس کی بقاء پہ بہت سے سوالات اُٹھ رہے تھے۔مگر آج بنگلہ دیش جنوبی ایشیا میں ترقی کے ایک ماڈل کے طور اُبھرا۔
اگر ہمارے حکمران سوچیں تو شاید اُن کی سمجھ میں یہ بات آجائے کہ ایک ملک جو پاکستان سے ہی کٹ کے ہی وجود میں آیا آج اُس کی معشیت ہم سے بہت بہتر اور مضبوط بھی ہے، آپ کو شاید یاد ہو کہ زرداری اور مشرف دور میں ہماری بہت سی انڈسٹری ہمارے ملک کے انرجی کرائسز کی وجہ سے بنگلہ دیش شفٹ ہوئی، تب بھی ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ اس سے ہماری معیشت پہ منفی اثرات پڑے۔
مگر اس کی نسبت بنگلہ دیش نے اپنی معیشت میں مینوفیکچر نگ کے حصے میں اضافہ کیا خاص طور پہ گارمنٹس مینو فیکچر یونٹس میں اب بنگلہ دیش ایک چمپئین ہے،اس میں عورتوں کی ایک بڑی تعداد ملازمت کرتی ہے ایسا خصوصاً 2014کے بعد ہوا۔ یہ تو میں بات کر رہی تھی بنگلہ دیش کی جو ہمارے ملک سے کٹ کے ایک الگ ملک بعد میں بنا مگریہ بھی سوچنا چاہیے ہے کہ ہمارے ملک کی کرنسی انڈیا کی نسبت ویلیو میں کہیں زیادہ تھی مگر آج انڈیا کی کرنسی ہمارے ملک سے قدرے ویلیو ا یبل ہے۔
اس تمام معاشی بحران کا فرق جانچنے کی کسی نے کوشش نہیں کی اور نہ ہی ہمارے ملک میں ایسی کوئی پالیسی وجود میں لائی گئی،ایک اہم فیکٹر جو دکھائی دیتا ہے کہ اگر کسی ایک دور میں کوئی پروجیکٹ شروع کیا جاتا ہے تو وہ اگر لانگ ٹرم ہے تو جونہی دوسری جماعت کی حکومت آتی ہے تو وہی پروجیکٹ بند کر دیا جاتا ہے اور اُس پہ لگا وقت اور پیسہ سب برباد ہوجاتا ہے اور اُس کی جگہ ایک نیا پروجیکٹ شروع کر دیا جاتا ہے یہ سلسلہ ہر جمہوری دور میں دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ اب انڈیا ہم سے معاشی لحاظ سے بہتر کیو ں ہے،اس کی سب سے مین وجہ میری نظر میں ڈیموکریسی ہے۔ کیونکہ جب پاکستان آزاد ہوا تو انڈیا میں پہلے ہی سے ایک مضبوط نظام حکومت موجود تھا جبکہ پاکستان کو ایسا ڈھانچہ نئے سرے سے تعمیر کرنا تھا۔ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے جمہوریت سے زیادہ آمریت رہی جس کیوجہ سے ہماری جمہوریت ابھی تک میچور نہ ہو سکی۔مگر دوسرا اہم فیکٹر یہ بھی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے رہنما جو ہمیشہ سے کرسی کے بھوکے ہی رہے ہیں کبھی کسی جماعت نے آج تک اپنا اقتدار مکمل نہیں کیا۔ اگر ہم موجودہ سیاسی گرما گرمی کو دیکھیں،جب سے پی ٹی آئی کی گورنمنٹ وفاق سے گئی تب سے اقتدار کی کھینچا تانی عروج پہ ہے۔تب سے لے کر آج تک صرف اقتدار اور کرسی کو کھینچنے پہ ساری طاقت لگی ہے مگر ابھی تک ایک بھی ایسا کام نظر سے نہیں گزرا جو پی ٹی آئی کے دور میں ہوا ہو یا،ان کے اقتدار کے چلے جانے سے وفاق میں (ن)لیگ کی گورنمنٹ آجانے سے کچھ بہتری دکھائی دی ہو۔ پبلک میں گرتا گراف بہتر کرنے کے لیے پیٹرول کی قیمتوں کو ریوائز کرنے کا سوچا پہلے قیمتوں میں حیرت انگیز حد تک اضافہ کیا جاتا ہے اور پھر بڑی صفائی سے صرف5روپے کم کر دئیے جاتے ہیں یونہی آج تک عوام کی سوچ سے کھیلتے ہی چلے آرہے ہیں۔
اگر یہ عوام کے اتنے ہمدرد ہیں تو کبھی بھی اس طرح کی حماقتیں دکھائی نہ دیں ان کو تو بس اقتدار ہی چاہیے۔ پہلے عمران خان نے 8حلقوں سے الیکشن لڑا،الیکشن لڑنے کے بعد پھر سے ایک شدت سے شور مچایا کہ الیکشن کرائے جائیں اگر الیکشن نہ کرائے گئے تو میں لانگ مارچ کے لیے سڑکوں پر آؤں گا۔ کیا الیکشن سے پہلے وہ یہ ڈیمانڈ نہیں کر سکتے تھے یا پھر وہ اپنی جماعت کی مقبولیت کا گراف الیکشن لڑ کے دیکھنا چاہتے تھے خود کو جانچنے کے بعد ہی پھر یو ں الیکشن کروانے کی ڈیمانڈ رکھی گئی۔ اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ انہوں نے اقتدار میں رہ کر کوئی اچھا ڈلیور نہیں کیا مگر وقت سے پہلے یوں (ن)لیگ نے پی ٹی آئی کوسیاسی شہید کرکے ایک نئی انرجی اور موقع دے دیا۔
یہاں ایک بات قابل غور ہے وہ یہ کہ ایک بار جو پیسہ الیکشن کروا کے ضائع کیا جاتا ہے وہ بھی حکومتی خزانے کا ضیاع ہے۔ دوسرا سیاسی کھینچا تانی میں جو اخلاقیات کا لیول گرتا ہے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی مد میں ذاتیات کی تمام حدیں،اور ہمارے اداروں تک پہ کیچڑ اُچھالا جاتا ہے پوری دُنیا میں ایک بہتر پیغام نہیں جا رہا اس چیز کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ تیسرا، اہم پوائنٹ ہمارے ملک میں صرف وہی ایماندار ہے جس کا ہاتھ نہیں پڑتا ورنہ کوئی کم نہیں کر رہا اپنے ملک کو اس طرح سے پوٹریٹ کر دیا گیا ہے کہ کوئی بھی ہمارے ملک میں انویسٹ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ان تمام چیزوں کو اگر اب بھی کنٹرول نہ کیا گیا تو مزید خسارہ ملک و قوم کا ہی ہو گا۔ ان پانچ سال میں صرف سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ہی دیکھنے کو ملی ہے جب تک پاکستان کی ڈیموکریسی میں استحکام نہ ہوا تب تک بہتری نہیں لائی جا سکتی۔

تبصرے بند ہیں.