اسلام آباد کا گول چکر

84

اگلے روز عدالتی مقدمات کی بطور وکیل پیروی کرنے کے لیے اسلام آباد جانا اور رکنا پڑا۔ کسٹم ٹربیونل سے فارغ ہوئے تو واپسی پر اپنے ہوٹل جاتے ہوئے عالیشان عمارتوں ہوٹلوں پر نظر پڑی۔ ان میں زیادہ تر سرکاری شعبوں کے مرکزی دفاتر ہیں۔ عامر بشارت اور رانا طاہر انقلابی ساتھ تھے کہ اسلام آباد کا معروف گول چکر جس کا نام ہی گول چکر ہے یہ ایسا چکر ہے بس چکر ہی چکر ہے جو جو حاکم ہوا وہ یہاں مستقل ٹھکانہ رکھنے کے چکر میں اور جس کو سرکاری حوالے سے کوئی کام پڑ گیا وہ اس کام کے چکر میں چکرا کر رہ گیا۔ پارلیمنٹ، قومی اسمبلی، سپریم کورٹ، وزیراعظم سیکرٹریٹ، سول سیکرٹریٹ، ایف بی آر، ایوان صدر، ایوان وزیراعظم اور طاقت و اقتدار کے دوسرے سنگھاسن سب کے سب اس گول چکر کے گرد ہیں۔ یہاں وفاؤں کا فقدان ہوتا تو اور بات تھی مگر جفاؤں کا راج ہے۔ اگلے روز عمران نیازی کا بیان پڑھ کر کہ جنرل باجوہ نے اس ملک کے ساتھ جو کیا وہ کوئی دشمن بھی نہیں کر سکتا۔ بالکل درست کہا کیونکہ عمران نیازی کو اقتدار میں لانا اور قوم پر مسلط کرنا ایک سانحہ تھا جس کے اثرات بہت دیر تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ ان پونے چار سال میں کھو جانے والی معاشرت، اقدار شاید اب کبھی نہ لوٹیں۔ حالانکہ یہی جنرل باجوہ تھے جن کے متعلق عمران نیازی نے کہا کہ جنرل باجوہ تاریخ کے بہترین جرنیل ہیں، تیسرے مہینے ہی توسیع دینے کا ارادہ کر لیا تھا۔ آئندہ الیکشن تک توسیع کا مطالبہ، زندگی بھر آرمی چیف رکھنے کی پیشکش، یہ سب کیا تھا؟ ایک پیج ایک پیج کیا تھا؟ عمران نیازی اسلام آباد کے گول چکر میں ضیا الحق، جنرل حمید گل، جنرل پاشا، جنرل ظہیر اسلام، جنرل راحیل شریف کے احسانات اور جنرل فیض کی سہولت کاری کا ذکر گول کر گئے۔ اب چار صوبوں میں حکومت ہے مگر گول چکر کا چکر نہیں لگا سکتے البتہ اگر قومی سیاسی دھارے میں واپس آئیں تو بطور ایم این اے ضرور جا سکتے ہیں۔ دراصل جنرل باجوہ صاحب کا قصور یہ ہے کہ وہ سیاسی اعتبار سے غیرجانبداری کا اعلان کر چکے تھے بقول نیازی صاحب کے اگر انہوں نے نیازی صاحب کو گول چکر سے باہر نہیں نکالا تو کم از کم نکالنے والوں کو روک تو سکتے تھے۔ پھر فرماتے ہیں کہ مجھے کہتے تھے احتساب کی طرف نہیں معیشت کی طرف توجہ دو۔ دراصل عمران نیازی کے دور میں اپوزیشن کا احتساب نہیں انتقام تھا اور انتقام کبھی خوشحالی نہیں لاتا۔ اگر ایسا مشورہ دیا گیا تھا تو انتہائی مفید مشورہ تھا مگر نیازی صاحب نے نفرت کی
سیاسے کو اقتدار میں آ کر بھی نہیں چھوڑا۔ وہ ساون کے اندھے ہیں جو بندہ برسات اور ساون بھادوں میں اندھا ہو اس کی آنکھوں میں مناظر ہریالی، بارش اور پھولوں پودوں کے ہرے بھرے ہونے کے مناظر ہی تازہ رہتے ہیں۔ موصوف مارشل لاؤں کی پیداوار تھے آمر ہمیشہ سیاسی لوگوں کی کردار کشی کیا کرتے ہیں۔ اس کردار کشی کو عدلیہ کے بعض جج عدالتی فیصلوں کے ذریعے تاریخ کے سیاہ باب کے طور پر رقم کرتے رہے۔ جب یہ سیاسی افزائش کے مراحل طے کر رہے تھے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی جا رہی تھی کہ سیاست دان چور ڈاکو لٹیرے ہیں، موصوف نے بجلی، پٹرول مہنگا ہونے پر وزیر اعظم کو ڈاکو قرار دیا۔ پرویز الٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا، شیخ رشید کو چپڑاسی سے کم تر گردانا۔ یہ تھڑے کی باتیں، یہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی باتیں ہو سکتی ہیں جن کو نہیں معلوم کہ حقیقی صورت حال کیا تھی اور ہے۔ ان کا زرمبادلہ کوئی پاکستانی قوم پر نہیں اپنے عزیز و اقارب کی مدد خدمت احسان کا بدلہ چکانے کے لیے ہے جن کی محنت اور منت سماجت سے وہ بیرون ملک گئے۔ وہ جاب امریکہ برطانیہ میں کرتے ہیں سوتے جاگتے کینیڈا، آسٹریلیا اور سیکنڈے نیویا میں ہیں مگر سیاست اور معاشرت پاکستان کی زیر بحث لاتے ہیں ان کو عمران نیازی کے دور میں وطن عزیز کی ہر سطح پر ہونے والی تباہی کا کچھ علم نہیں۔ کرپشن اور لا قانونیت کا کچھ علم نہیں۔ عمران دور میں مخالفین پر ہر مقدمہ جھوٹا اور بے بنیاد تھا۔ سوشل میڈیا اور ٹویٹر ٹرینڈ عمران کے فوٹو شوٹ اور اداکاری نے قوم کی راہیں منزل کے برعکس کر دین۔ ایک جج اور ایک آمر ہوا ہے جس کے متعلق تھا کہ اس کی آنکھیں آپس میں نہیں ملتیں مگر عمران نیازی کی تو اپنی ایک بات دوسری بات سے میل نہیں کھاتی۔ جب اپوزیشن کہتی تھی کہ تم سلیکٹڈ ہو انتخابات ہونے چاہئیں، وہ بھی اس وقت کہا جب سلیکٹڈ حکومت اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں کا بوجھ بن گئی قوم کے لیے زندگی بوجھ بن گئی اور موصوف چلے منصوبہ بندی 2028 کی کرنے۔ کیا ساری زندگی اقتدار میں رہنے کی جو ان کا ساتھی ہوا وہ زم زم میں نہا گیا، جس نے ان پر تنقید کی وہ مردود حرم ٹھہرا۔ عمران نیازی کا دور ایک نجس، نحس اور منحوس دور تھا جس کے نتیجے میں ان کے وقت کی اپوزیشن لوٹ آئی اور حکومت وفاق میں بنا لی۔ اللہ نے جھوٹوں پر لعنت بھیجی ہے مجھے کوئی بتا دے کہ عمران نیازی نے سیاسی زندگی میں کوئی ایک سچ بولا ہو کو یا ایسا کارنامہ انجام دیا ہو جو لے کر آئے ان پر ایسا بوجھ بنے کہ امور داخلہ، خارجہ، معاشی، معاشرتی سب کے سب ان کے ذمہ ڈال دیا۔ جس طرح ٹرمپ کے دور میں امریکہ کو اس کے سکیورٹی اداروں نے بچایا اسی طرح عمران دور میں ہمارے سکیورٹی ادارے وطن عزیز کو ہر لحاظ سے محفوظ کرنے میں لگے رہے، آصف علی زرداری نے ٹھیک کہا ہے اس کی Bases بنیادیں پاکستان میں نہیں کہیں اور ہیں یہ کہیں اور کے لیے آپ کو حکیم سعید شہید اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی پیش گوئیوں، دعووں اور باتوں کو یاد کرنا ہو گا۔ آج جو جتنا آگاہ ہے اتنا ہی پریشان ہے۔ ملکی معاشی صورت حال سے واقف لوگ لرزاں لرزاں پائے جاتے ہیں اگر لوگوں کو حقیقت کا پتہ چل جائے تو شاید ایک رات بھی سو نہ سکیں۔ ایک ”دانشور“ فرما رہے تھے قوم کو گھڑی کے پیچھے لگا کر حکمران ملک لوٹ رہے ہیں۔ حالانکہ نیازی صاحب نے ملک تو چلنے چلانے کے قابل نہیں چھوڑا، لوٹنا تو دور کی بات اور ویسے بھی گھڑی تو ایک علامت کے طور پر سامنے آئی۔ 14 کروڑ عوام کا صوبہ پنجاب اور کے پی کے جس طرح لوٹا گیا جس طرح وفاقی اداروں میں تاتاری حملے کیے جس طرح مخالفین پر نازی حملے کیے، الامان الحفیظ۔ سوائے اداکاری اور نوٹنکی کے اس میں کچھ بھی دلکشی نہ تھی۔ اب سابق خلیفہ فرماتے ہیں کہ NRO2 دیا گیا۔ بندہ پوچھے تم لوگوں کو گالیاں دو، جھوٹے مقدمات بناؤ اور وہ کیا اپنے مقدمات میں بے گناہی ثابت کرنے کا حق بھی نہیں رکھتے۔ این آر او تو خود مانگ رہے ہیں کہ مجھے گرفتار نہ کیا جائے۔ لاہور میں آ کر پناہ لے رکھی ہے کروڑوں روپے روزانہ تمہاری حفاظت پر خرچ ہو رہے ہیں۔ ہیلی کاپٹر کو موٹرسائیکل سمجھنے والا اب جب اسلام آباد کے گول چکر سے باہر کر دیا گیا اور وہ بھی تاریخ میں پہلی بار عدم اعتماد کے ذریعے تو چیخے گا تو سہی۔ وطن عزیز کی سرحدیں ان لوگوں کی وجہ سے غیر محفوظ ہو گئیں جن کو ضیا نے پناہ دی۔ آج وطن عزیز میں موجود ڈالر، سمگلنگ اور امن کی بربادی کی ذمہ داری آج کی حکومت پر نہیں یہ ضیا، مشرف اور عمران نیازی کے دور کا تسلسل ہے۔ اگر موجودہ اتحاد حکومت نہ بناتا عمران نیازی کا تو ٹکٹ لینے والا کوئی نہیں تھا۔ موجودہ حکمران اتحاد کی نا اہلی یہ ہے کہ وہ وطن عزیز کی ابتری جو کہ نیازی دور میں ہوئی بتانے میں ناکام ہیں۔ جنرل باجوہ کو نوازشریف نے کہا تھا کہ آپ کو حساب دینا ہو گا لہٰذا یہی حساب تھا کہ ایک نااہل کو مسلط کر کے اس کے بے ہودہ فقروں کا سامنا کریں۔ گریٹ بھٹو نے بھی جیل سے ضیاالحق کے لیے کہا تھا کہ انتہائی بُری موت تمہاری منتظر ہے(اس کی وضاحت پھر سہی)۔ عمران نیازی کو اسلام آباد کے گول چکر کی دوڑ میں شامل کرنا پھر مسلط کرنا قومی سانحہ تھا۔ اب یہ اپنے ”نشے“ اقتدار کے نشے میں گول چکر سے باہر ہوئے ہیں تو ہر ایک کو کہہ رہے ہیں کہ اس نے دھکا دے کر باہر نکالا ہے۔ اللہ کریم گول چکر سے محفوظ رکھے۔

تبصرے بند ہیں.