مضبوط اور مستحکم حکومت کی ضرورت

32

آج مجھے اپنے مرحوم صوفی دانشور اشفاق احمد کچھ زیادہ یاد آ رہے ہیں ویسے وہ بْھولتے ہی نہیں کہ اْن کے اکثر اقوال معاملات زندگی میں کہیں نہ کہیں یاد آتے رہتے ہیں، مجیب الرحمان شامی صاحب کے ساتھ وہ بہت محبت فرماتے تھے اور شامی صاحب کی اْن کے ساتھ عقیدت بھی انتہا کی تھی، میں اشفاق احمد صاحب کے گھر (داستان سرائے) واقع ماڈل ٹاؤن ہفتے میں ایک دو بار ضرور جاتا تھا، مجھے سردیوں کی وہ دوپہر یں آج تک نہیں بْھولیں جب اپنے گھر کے لان میں دْھوپ میں وہ بیٹھے ہوتے، آگے بہت سے کینو، امرود اور ڈرائی فروٹ کے ساتھ بہت سے اخبارات بھی بڑے سے ایک میز پر پڑے ہوتے، میری زندگی کے یہ انتہائی قیمتی لمحات ہوتے تھے، ایک روز وہ مجھ سے کہنے لگے ”میرے گھر انگریزی اور اْردو کے بہت سے اخبارات آتے ہیں، میں سب سے پہلے شامی صاحب کا روزنامہ پاکستان پڑھتا ہوں، اْس کی دو وجوہات ہیں ایک یہ میں اسے گھر کا اخبار سمجھتا ہوں دوسری یہ اس میں تمہارا کالم ہوتا ہے“۔۔ بعد میں یہی بات اْنہوں نے میری پہلی کتاب کے دیباچے میں بھی لکھی، اشفاق احمد صاحب نے دو بار میرے کالموں کے جْملوں پر مجھے پانچ پانچ سو روپے انعام بھی دیا جو اْس دور کی بڑی رقم تھی، ایک بار اْنہوں نے میرے ایک کالم کے اس جْملے پر مجھے انعام دیا کہ”ڈاکوؤں نے پولیس والوں کا ایک گروہ پکڑا جو کار چوری میں ملوث تھا“ اور دوسرے کالم کے اس جْملے پر کہ”جب ہماری فوج اقتدار میں آتی ہے تو اْس کے مقابلے میں ہمیں اپنی”غلیظ پولیس“ اچھی لگنے لگتی ہے“۔۔ یہ جْملہ میں نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی کچھ خرابیوں کے تناظر میں لکھا تھا، اب ایسے ہی میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں پچھلے چار پانچ برسوں میں اپنے خان صاحب نے وہ گند سیاست میں ڈالا کہ اْس کے مقابلے میں شریفوں اور زرداریوں کے گند ہمیں زیادہ بْرے نہیں لگتے۔۔ انسان کی کوئی زبان ہوتی ہے جو اْس کے کردار کا تعین کرتی ہے، خان صاحب نے اپنی زبان کو شاید اور ہی مقاصد کے لئے وقف کر رکھا ہے، مجھے اب کوئی شک و شبہ نہیں رہا اْن کا دماغی توازن درست نہیں رہا، ظاہر ہے صدمہ ہی بہت بڑا تھا، چوبیس برسوں کی ریاضت کے بعد ہاتھ میں آیا ہوا،اقتدار ساڑھے تین برسوں میں چلے گیا، مگر اس کا قصوروار کوئی اور نہیں خان صاحب خود ہیں، میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں اْن کے پاس دو راستے تھے ایک یہ کہ جو قوت اْنہیں اقتدار میں لائی تھی اْس کے ساتھ بنا کے رکھتے اور پانچ برس پورے کر لیتے، دوسرا راستہ یہ تھا اْس قوت کے ساتھ اپنے معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لے آتے اور اْسے یہ موقع فراہم کر دیتے وہ سابقہ حکمرانوں یعنی”چوروں اور ڈاکوؤں“ کے لئے ایک بار پھر اپنے دل میں نرمی پیدا کر کے ایک بار پھر اْنہیں اقتدار میں لے آتے، خان صاحب نے دوسرا راستہ چْنا جس کے نتیجے میں بالاآخر وہ اقتدار سے باہر ہوگئے اور چور و ڈاکو واپس اقتدار میں آگئے، جس کے بعد مْلک معاشی تباہی کے مزید اگلے مقام پر پہنچ گیا، اب خان صاحب سوائے بونگیاں مارنے کے کچھ نہیں کر رہے، روز ایک نئی بونگی وہ مار رہے ہوتے ہیں، بونگی کو اللہ جانے وہ کیا سمجھتے ہیں؟ اقتدار میں آنے سے پہلے تھوک کے حساب سے جو سہانے سپنے لوگوں کو اْنہوں نے دکھائے چلیں ایک آدھ ہی اْن میں سے پورا ہوگیا ہوتا ہم اْن کی اْس عظمت کے گْن گاتے رہتے جس عظمت کے گْن وہ تاحیات ہم سے گوانا چاہتے تھے، میرے والد محترم اکثر مجھ سے کہتے ”اللہ کرے یہ شخص کبھی اقتدار میں نہ آئے“، تب مجھے ابو جان کی یہ بات بہت عجیب سی لگتی میں اْن سے کہتا ”ابو جان ہمارا اْن کے ساتھ ذاتی تعلق ہے، وہ ہمارے فیملی فرد کی طرح ہیں، وہ آپ کی اتنی عزت کرتے ہیں، میں اْن کے لئے اتنی جدوجہد کر رہا ہوں، ابھی کل ہی مجھے نوائے وقت سے استعفیٰ دینا پڑا کیونکہ مجید نظامی صاحب نے مجھ پر یہ پابندی لگا دی تم آئندہ عمران خان کے حق میں نہیں لکھو گے“۔۔ تو آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ اللہ کرے وہ کبھی اقتدار میں نہ آئے؟ وہ فرماتے”بیٹا جو شخص اپنا گھر نہیں بسا سکا اْس نے مْلک کیا بسانا ہے؟“۔۔ ابو جی کی اس بات سے اختلاف کی بہت گْنجائش نکلتی تھی مگر اْن کے ادب میں، میں خاموش رہتا، اْن کی یہ دعا قبول نہ ہوسکی، خان صاحب اقتدار میں آگئے، اْس کے بعد اْنہوں نے تقریباًوہی کچھ کیا جو اْن سے پہلے حکمران کرتے رہے، ابو جی کی بات آہستہ آہستہ درست ثابت ہونے لگی، البتہ اْن کے اقتدار میں آنے کے بعد اتنا ضرورہوا اْن کی اہلیت اصلیت اور ظرف کْھل کر سامنے آگئے، میں اکثر سوچتا ہوں کاش وہ اقتدار میں نہ آتے ہماری یہ اْمید تو بندھی رہتی پیچھے کوئی تو ہے جو نجات دہندہ ثابت ہو سکتا ہے۔۔ افسوس ہماری آخری اْمید بھی ٹْوٹ گئی، البتہ اس کا ایک فائدہ ہمیں ضرور ہوا ہم نے ساری زندگی اْن کا ”میراثی“ بنے رہنے کا جو ارادہ باندھ رکھا تھا اْس سے پیچھے ہٹ گئے۔۔ اب اقتدار اور اپنا ذہنی توازن کھو جانے کے بعد روزانہ اپنے انٹرویوز اور بیانات میں کوئی نہ کوئی نیا شوشا وہ چھوڑ دیتے ہیں، ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی اْنہیں ”توشہ خان“ کہیں یا ”شوشا خان“ کہیں؟۔۔ اگلے روز اپنی جان صدیق جان کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک بار پھر علیم خان کا قصہ چھیڑ کر وہ بیٹھ گئے، اللہ جانے علیم خان کیوں اب تک اْن کے اعصاب پر سوار ہے؟ اب تک کیوں علیم خان کی یاد اْنہیں ستاتی ہے؟، میرے نزدیک تو اچھا ہوا علیم خان کو اْنہوں نے وزیراعلیٰ نہیں بنایا، جو وقت علیم خان نے اْن کا”گھریلو یا ذاتی سی ایم پنجاب“ بن کر ضائع کرنا تھا اور بدنامی کمانی تھی وہی وقت اْس نے اْن کاموں کو دیا جن سے اللہ نے سینکڑوں لوگوں کے روزگار کا اْسے وسیلہ بنا دیا۔۔علیم خان کے حوالے سے خان صاحب کی منافقت کا اندازہ لگانے کے لئے یہی کافی ہے خان صاحب بے شمار بار کہہ چْکے ہیں ”میں علیم خان کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتا تھا مگر پھر اچانک اْس پر نیب کے کیسز بن گئے اور میں نے اپنا فیصلہ بدل دیا“۔۔ اس توشہ یا شوشا خان سے کون پوچھے حضور مْلک میں کون سا ایسا قانون ہے یا نیب کا کون سا ایسا آرڈی نینس ہے جس کے تحت جس شخص پر نیب کے کیسزہوں اْسے دو بار سینئر وزیر تو بنایا جاسکتا ہے وزیراعلیٰ نہیں بنایا جا سکتا؟ (جاری ہے)

تبصرے بند ہیں.