”یار“…… خان نوں پچھ کے دساں گے

37

”آپ کو شیخ رشید پر غصہ آتا ہے“۔
کچھ احباب ”ہاں“ میں سر ہلائیں گے اور کچھ مسکرا کے چپ ہو جائیں گے…… مجھے شیخ رشید پہ غصہ آتا تھا……جب وہ Over قسم کی تقریریں کیا کرتے تھے…… شیخ رشید صاحب عمر میں مجھ سے انیس سال بائیس مہینے اور چھ دن بڑے ہیں …… اگر جمع تفریق میں غلطی ہوتو خود درست کر لیں کیونکہ قائداعظم کے چودہ نکات کے بعد میں نے کوئی تاریخی چیز تو جہ سے یاد نہیں کی۔ مجھے لگتا ہے عمران خان کو بھی شیخ رشید پر غصہ آ جاتا ہو گا مگر پھر سوچتے ہوں گے کہ ”ایک ہی تو ہے اس Caliber کا میرے ارد گرد باقی تو سب …… ’خان نوں پوچھ کے دساں گے‘ والے ہیں ……“
ہمارے صنوبر خاں صاحب آج کل مجھ سے ناراض ہیں۔ میں نے ایک دن کہہ دیا ”خان اب تو وہ والا خان نہیں رہا جو ”بولڈ“ قسم کے فیصلے کیا کرتا تھا۔ راہ چلتی لڑائی مول لے لیتا تھا…… چلتے لڑ کے کے سامنے اچانک ٹانگ کر کے اسے منہ کے بل گرا دیتا تھا اور پھر اس کی ”رنگین“ گالیاں اور رذیل قسم کی گفتگو سن کے ہنسا کرتا تھا…… تو نے اپنا موڈ مزاج نہ جانے کیوں ہم جیسا کر لیا ہے……“
صنوبر خاں نے ہی ہمیں اپنے کسی ”پٹھان انکل“ کا قصہ سنایا تھا جوسن کے ہمارے پیٹ میں بل پڑگئے تھے جس کے بعد ہم نے خان سے ”چپل کباب ……اصلی والے“ کھائے تھے…… سمجھ آئی…… اصلی والے کی……
یہ ”چپل کباب ……اصلی والے“ بھی…… بڑے لذیز ہوتے ہیں ……
صنوبر خان بولا……”ابا جان خان عبد الحکیم خان اگر چہ مہمند ایجنسی سے تھے مگر انھوں نے گریجویشن دیال سنگھ کالج لاہور سے کی تھی…… بڑے رعب دبدبے والے تھے۔ ہم بڑے بھی ہو گئے پھر بھی ہمیں ”حساب کتاب“ غلط کرنے پر ایک آدھ چھوڑ دیا کرتے تھے…… ہماری طرح انگلیوں پر ”اکائی دہائی سیکڑہ ہزار“ نہیں کرتے تھے…… منٹوں میں کروڑوں کا حساب لگا کے حیرت زدہ کر دیتے تھے……“ صنوبر خان بتاتا ہے کہ ہم سب ابا جان سے متاثر بھی تھے اور انڈر پریشر بھی جبھی ہم سب بھائیوں نے شادیاں ابا جان کے حکم پر کیں …… آں اوں تک نہ کیا……
گھر میں دوستوں میں کوئی فیصلہ کرنے والا موقع آتا تو ہم بھری محفل میں یہ کہہ کر اٹھ جاتے یا معاملہ ٹالنے کے لیے کہہ دیتے …… ”خان نوں پوچھ کے دساں گے“……
کیونکہ ہمیں ڈر ہوتا تھا کہ غلط فیصلہ ہو گیا تو جرگہ میں ہمارے قبیلے کی بے عزتی تو ہوگی ہی…… خان صاحب بھرے بازار میں بے عزتی بھی کریں گے۔ اس لیے ہم یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے……”خاں نوں پوچھ کے دساں گے“……
پھر کچھ سال اور ہم سب بھائیوں کی یہ کیفیت ہو گئی کہ محلے دار کا کوئی بھی کام ہوتا وہ ہم سے مشورہ کرتے یا جرگے میں معاملہ رکھا جاتا تو وہ کہتے…… یار چھوڑ و صنوبر خاں کو یہ تو کہے گا……”خان نوں پوچھ کے دساں گے“……
جب معاملہ زیادہ گمبھیر ہوا تو ہم عمر دوستوں نے ہمیں چھیڑنا شروع کر دیا……”خان نوں پوچھ کے دساں گے“…… ”خان نوں پوچھ کے ہنساں گے؟“…… وغیرہ وغیرہ…… اور وغیرہ
بات شیخ رشید سے شروع ہوئی تھی…… اور جانکلی صنوبر خان کی طرف…… ابھی حال ہی میں اشتہارات سے پتہ چلا ہے کہ حج کے اخراجات میں یکدم بے بہا اضافہ کر دیا گیا ہے حکومت اب……
مگر جب وہ وزیر ریلوے تھے مجھے ان پر بالکل غصہ نہیں آتاتھا…… ایک دو جگہوں پر انہوں نے ”نمبر بنانے“ کے لیے جلدی میں ٹرینیں چلا ڈالیں …… جو اچھی شہرت کے بجائے پریشانی کا باعث بن گئیں۔ جب سے ان سے ”محبت“ کرنے والے اینکرز نے اپنی ”کاغذی توپوں“ کا رخ ان کی طرف کیا ہے ……معاملات کچھ زیادہ گمبھیر ہو چکے ہیں۔ کل میں نے صنوبر خان کو یہ بات بتائی تو خوب ہنسا، قہقہے لگاتے ہوئے بولا …… ”مظفر ……تمہیں ہم نے یہ تو بتایا تھا کہ ہم بڑے خان صاحب کے ڈر کی وجہ سے بھرے مجمع میں کہا کرتے تھے کہ ”خان نوں پوچھ کے دساں گے“…… یا لوگ ہمیں چھیڑتے تھے کہ ”خان نوں پوچھ کے ہنساں گے“/یعنی لوگوں کو یقین تھا کہ ہم ابا جی سے پوچھے بغیر ہنستے روتے بھی نہیں …… کچھ شریر بچوں نے ہمیں ایک آدھ بار یہ بھی کہہ دیا کہ …… صنوبر خان اب تم کہا کرو گے کہ ”خان نوں پوچھ کے نساں گے؟“……
یہ تیسرا مصرع مجھے بہت پسند آیا ……
منازل طے ہوتی چلی گئیں …… معاملات مشکل صورت اختیار کرتے چلے گئے اور شیر کی طرح دھاڑنے والا (ویسے بے قابو زبان والے کو شیر کہہ نہیں سکتے؟) مصلحت کوشی کا شکار ہونے لگا۔ ہمارا خیال تھا کہ اسد عمر،شاہ محمود قریشی،شہبار گل وغیرہ ہر بات کرنے سے پہلے یہ فقرہ ضرور بولتے ہیں کہ ”خان نوں پچھ کے دساں گے“…… مگر پھر شیخ رشید جو واحد دبنگ سمجھا جاتا تھا۔ بات بے بات کہہ دیتا…… ”خان نوں پو چھ کے دساں گے“ ویسے میرا خیال تھا حکومت (عمران خان کی) کو کوئی خطرہ نہیں ……
وقت تیری سے بدلا …… دن راتیں تیزی سے بھاگنے لگیں اور پھر معاملات ہاتھ سے نکل گئے جس طرح ملکی معیشت اور پارٹی خان کے ہاتھ سے نکل رہی تھی…… حکومت گئی…… بڑے بڑے جلوس…… جلسے رات کو موبائل فون کی لائٹ آن اور خان کی سٹیریو ٹائپ تقریریں …… لوگ اس انٹرنیٹ کے زمانے میں کہاں لمبی لمبی تقریریں سنتے ہیں کہاں کوئی اپنا قیمتی وقت سوائے مجبوری کے چھوڑ کے جلسوں میں آتا ہے۔ بہر حال مجبوریاں تھیں اور لوگ آتے بھی تھے…… مگر پھر 29 نومبر سے پہلے ہی سارا نقشہ بدل گیا۔ پہلے شیخ رشید صاحب کہتے تھے ”انہاں نوں پچھ کے دساں گے“ لیکن جب دروازے بند ہوگئے تو شیخ رشید نے اشارہ دینا شروع کیا۔ ”پچھ کے وی ہن نئی دساں گے“ کیونکہ وقت بدل جاتا ہے……بہرحال اب اک نئی اور تازہ دل لبھانے والی تصویر نمودار ہوئی ہے جب سے گھڑیوں کے حوالے سے زلفی بخاری اور محترمہ کی آڈیو لیک ہوئی ہے …… کہیں عوام اور پارٹی قیادت یہ نہ کہنے لگ جائے ”مرشد نوں پچھ کے دساں گے“۔

تبصرے بند ہیں.