محمد ﷺ کی تعلیمات اور ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

29

آج کا کالم تو سیاست پر لکھنے کا ارادہ تھا لیکن نبی کریم حضرت محمد کی فتح مکہ کے دوران اہل مکہ سے حسن سلوک کے حوالے سے ایک دلگداز تحریر نظروں سے گزری جس پر وہ کالم ادھورا چھوڑ دیا۔ اور سوچا آج کی نسل کو یہ تحریر پڑھائی جاے۔ کہنے کو تو ہم نبی کریم کے امتّی ہیں لیکن ہمارے قول و فعل میں اتنا تضاد ہے کہ ہم مسلمان ہوتے ہوے بھی فروعی و سیاسی اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے پر طنز وتشنییع سے بڑھ کر گلے کاٹنے کو پڑے ہیں۔ گو کہ فتح مکہ کے بارے میں لاکھوں تحریریں موجود ہوں گی لیکن ان کا اعادہ کرتے رہنا چاہیے تا کہ ہمیں احساس ہو کہ ہم نبی کریم کی تعلیمات سے کس قدر دور ہیں۔ قارئین کے لیے یہ تحریر حاضر ہے۔ شاید کہ اتر جاے ترے دل میں میری باتمکہّ میں ابوسفیان بہت بے چین تھا ، ” آج کچھ ہونے والا ہے ” ( وہ بڑبڑایا ) اسکی نظر آسمان کی طرف باربار اٹھ رہی تھی۔ اسکی بیوی ” ہندہ ” جس نے حضرت امیر حمزہ کا کلیجہ چبایا تھا اسکی پریشانی دیکھ کر اسکے پاس آگئی تھی ” کیا بات ہے ؟ کیوں پریشان ہو ؟ ” ہوں ؟ ” ابو سفیان چونکا۔ کچھ نہیں۔۔ ” طبیعت گھبرا رہی ہے میں ذرا گھوم کر آتا ہوں ” وہ یہ کہہ کر گھر کے بیرونی دروازے سے باہر نکل گیا مکہّ کی گلیوں میں سے گھومتے گھومتے وہ اسکی حد تک پہنچ گیا تھا اچانک اسکی نظر شہر سے باہر ایک وسیع میدان پر پڑی ،ہزاروں مشعلیں روشن تھیں ، لوگوں کی چہل پہل انکی روشنی میں نظر آرہی تھی اور بھنبھناھٹ کی آواز تھی جیسے سینکڑوں لوگ دھیمی آواز میں کچھ پڑھ رہے ہوں اسکا دل دھک سے رہ گیا تھا۔۔۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ قریب جاکر دیکھے گا کہ یہ کون لوگ ہیں اتنا
تو وہ سمجھ ہی چکا تھا کہ مکہّ کے لوگ تو غافلوں کی نیند سو رہے ہیں اور یہ لشکر یقینا مکہّ پر چڑھاءکیلئے ہی آیا ہے وہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ کون ہیں ؟ وہ آہستہ آہستہ اوٹ لیتا اس لشکر کے کافی قریب پہنچ چکا تھا کچھ لوگوں کو اس نے پہچان لیا تھا یہ اسکے اپنے ہی لوگ تھے جو مسلمان ہوچکے تھے اور مدینہ ہجرت کرچکے تھے اس کا دل ڈوب رہا تھا ، وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ لشکر مسلمانوں کا ہے اور یقینا ” م±حمّد اپنے جانثاروں کیساتھ مکہّ آپہنچے تھے ” وہ چھپ کر حالات کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ عقب سے کسی نے اسکی گردن پر تلوار رکھ دی اسکا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا لشکر کے پہرے داروں نے اسے پکڑ لیا تھااور اب اسے ” بارگاہ محمّد میں لیجا رہے تھے "اسکا ایک ایک قدم کئی کئی من کا ہوچکا تھا ہر قدم پر اسے اپنے کرتوت یاد آرہے تھے۔
جنگ بدّر ، احد ، خندق ، خیبر سب اسکی آنکھوں کے سامنے ناچ رہی تھیں اسے یاد آرہا تھا کہ اس نے کیسے سرداران مکہّ کو اکٹھا کیا تھا ” محمّد ﷺ کو قتل کرنے کیلئے ” کیسے نجاشی کے دربار میں جاکر تقریر کی تھی کہ۔۔۔۔” یہ مسلمان ہمارے غلام اور باغی ہیں انکوہمیں واپس دو "کیسے اسکی بیوی ہندہ نے امیر حمزہ کو اپنے غلام حبشی کے ذریعے شہید کروا کر انکا سینہ چاک کرکے انکا کلیجہ نکال کر چبایا اور ناک اور کان کاٹ کر گلے میں ہار بنا کر ڈالے تھے اور اب اسے اسی محمّد کے سامنے پیش کیا جارہا تھا اسے یقین تھا کہ۔۔۔ اسکی روایات کے مطابق اس جیسے ” دھشت گرد ” کو فوراً تہہ تیغ کردیا جاﺅ گا ۔ ادھر ۔ ۔ ۔ ۔ ” بارگاہ رحمت للعالمین میں اصحاب رض جمع تھے اور صبح کے اقدامات کے بارے میں مشاورت چل رہی تھی کہ کسی نے آکر ابوسفیان کی گرفتاری کی خبر دے دی ” اللہ
اکبر ” خیمہ میں نعرہ تکبیر بلند ہوا۔ابوسفیان کی گرفتاری ایک بہت بڑی خبر اور کامیابی تھی خیمہ میں موجود عمرؓ ابن الخطاب اٹھ کر کھڑے ھوئے اور تلوار کو میان سے نکال کر انتہائی جوش کے عالم میں بولے۔۔ ” اس بدبخت کو قتل کردینا چاہئے شروع سے سارے فساد کی جڑ یہی رہا ہے "چہرہ مبارک رحمت للعالمین پر تبسّم نمودار ہوا اور انکی دلوں میں اترتی ہوئی آواز گونجی ” بیٹھ جاؤ عمر۔۔ اسے آنے دو ” عمرؓ ابن خطاب آنکھوں میں غیض لئے حکم رسول کی اطاعت میں بیٹھ تو گئے لیکن ان کے چہرے کی سرخی بتا رہی تھی کہ انکا بس چلتا تو ابوسفیان کے ٹکڑے کرڈالتے اتنے میں پہرے داروں نے بارگاہ رسالت میں حاضرہونے کی اجازت چاہی اجازت ملنے پر ابوسفیان کو رحمت للعالمین کے سامنے اس حال میں پیش کیا گیا کہ اسکے ہاتھ اسی کے عمامے سے اسکی پشت پر بندھے ہوئے تھے چہرے کی رنگت پیلی پڑ چکی تھی اور اسکی آنکھوں میں موت کے سائے لہرا رہے تھے لب ہائے رسالت مآب وا ہوئے۔۔۔اور اصحاب ؓ نے ایک عجیب جملہ سنا ” اسکے ہاتھ کھول دو اور اسکو پانی پلاؤ ، بیٹھ جاؤ ابوسفیان۔۔ !! ” ابوسفیان ہارے ہوئے جواری کی طرح گرنے کے انداز میں خیمہ کے فرش پر بچھے قالین پر بیٹھ گیا۔ پانی پی کر اسکو کچھ حوصلہ ہوا تو نظر اٹھا کر خیمہ میں موجود لوگوں کی طرف دیکھا عمرؓ ابن خطاب کی آنکھیں غصّہ سے سرخ تھیں ابوبکرؓ ابن قحافہ کی آنکھوں میں اسکے لیئے افسوس کا تاثر تھا عثمان ؓبن عفان کے چہرے پر عزیزداری کی ہمدردی اور افسوس کا ملا جلا تاثر تھا علیؓ ابن ابوطالب کا چہرہ سپاٹ تھا اسی طرح باقی تما اصحاب کے چہروں کو دیکھتا دیکھتا آخر اسکی نظر محمّد کے چہرہ مبارک پر آکر ٹھر گئی جہاں جلالت و رحمت کے خوبصورت امتزاج کیساتھ کائنات کی خوبصورت ترین مسکراہٹ تھی ” کہو ابوسفیان ؟ کیسے آنا ہوا ؟؟ ” ابوسفیان کے گلے میں جیسے آواز ہی نہیں رہی تھی بہت ہمّت کرکے بولا۔۔ ” مم۔۔ میں اسلام قبول کرنا چاھتا ہوں ؟؟ ” عمر ابن خطابؓ ایک بار پھر اٹھ کھڑے ہوئے۔
” یارسول اللہ یہ شخص مکّاری کررہا ہے ، جان بچانے کیلئے اسلام قبول کرنا چاہتا ہے ، مجھے اجازت دیجیے ، میں آج اس دشمن ازلی کا خاتمہ کرہی دوں "۔۔ ” بیٹھ جاؤ عمر۔۔۔ ” رسالت مآب نے نرمی سے پھر فرمایا ” بولو ابوسفیان۔۔ کیا تم واقعی اسلام قبول کرنا چاہتے ہو ؟ ” ” جج۔۔ جی یا رسول اللہ۔۔ میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ اور آپکا دین بھی سچّا ہے اور آپ کا خدا بھی سچّا ہے ، اسکا وعدہ پورا ہوا۔ میں جان گیا ہوں کہ صبح مکہّ کو فتح ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا ”
چہرہ رسالت مآب پر مسکراھٹ پھیلی۔۔
” ٹھیک ھے ابوسفیان۔۔
تو میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں اور تمہاری درخواست قبول کرتا ہوں جاؤ تم آزاد ہو ، صبح ہم مکہّ میں داخل ہونگے انشاءاللہ میں تمہارے گھر کو جہاں آج تک اسلام اور ہمارے خلاف سازشیں ہوتی رہیں ، جائے امن قرار دیتا ہوں ، جو تمہارے گھر میں پناہ لے لے گا وہ محفوظ ہے ، ” ابوسفیان کی آنکھیں حیرت سے
پھٹتی جا رہی تھیں ۔ ” اور مکہّ والوں سے کہنا۔۔ جو بیت اللہ میں داخل ہوگیا اسکو امان ہے ، جو اپنی کسی عبادت گاہ میں چلا گیا ، اسکو امان ہے ، یہاں تک کہ جو اپنے گھروں میں بیٹھ رہا اسکو امان ہے ، جاؤ ابوسفیان۔۔۔ جاؤ اور جاکر صبح ہماری آمد کا انتظار کرو اور کہنا مکہّ والوں سے کہ ہماری کوئی تلوار میان سے باہر نہیں ہوگی ،ہمارا کوئی تیر ترکش سے باہر نہیں ہوگا ہمارا کوئی نیزہ کسی کی طرف سیدھا نہیں ہوگا ةجب تک کہ کوئی ہمارے ساتھ لڑنا نہ چاہے ” ۔ابوسفیان نے حیرت سے محمّد کی طرف دیکھا اور کانپتے ہوئے ہونٹوں سے بولنا شروع کیا۔۔” اشہد ان لاالہٰ الا اللہ و اشہد ان محمّد عبدہ و رسولہ ” ۔سب سے پہلے عمر ابن خطابؓ آگے بڑھے۔۔ اور ابوسفیان کو گلے سے لگایا ” مرحبا اے ابوسفیان ، اب سے تم ہمارے دینی بھائی ہوگئے ہو ، تمہاری جان ، مال ہمارے اوپر ویسے ہی حرام ہوگیا جیسا کہ ہر مسلمان کا دوسرے پر حرام ہے ، تم کو مبارک ہو کہ تمہاری پچھلی ساری خطائیں معاف کردی گئیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ تمہارے پچھلے گناہ معاف فرمائے "ابوسفیان حیرت سے خطاب کے بیٹے کو دیکھ رہا تھا یہ وہی تھے کہ چند لمحے پہلے جسکی آنکھوں میں اس کیلئے شدید نفرت اور غصّہ تھا اور جو اسکی جان لینا چاہے تھے اب وہی اسکو گلے سے لگا کر بھائی بول رہے تھے ؟ یہ کیسا دین ہے ؟ یہ کیسے لوگ ہیں ؟ سب سے گلے مل کر اور رسول اللہ کے ہاتھوں پر بوسہ دے کر ابوسفیان خیمہ سے باہر نکل گیا۔” وہ دہشت گرد ابوسفیان کہ جس کے شر سے مسلمان آج تک تنگ تھے انہی کے درمیان سے سلامتی سے گزرتا ہوا جارہا تھا ، جہاں سے گزرتا ، اس اسلامی لشکر کا ہر فرد ،ہر جنگجو ،ہر سپاہی جو تھوڑی دیر پہلے اسکی جان کے دشمن تھے اب آگے بڑھ بڑھ کر اس سے مصافحہ کررہے تھے ، اسے مبارکباد دے رہے تھے ، خوش آمدید کہہ رہے تھے۔۔ "اگلے دن۔۔۔مکہّ شہر کی حد پر جو لوگ کھڑے تھے ان میں سب سے نمایاں ابوسفیان تھامسلمانوں کا لشکر مکہّ میں داخل ہوچکا تھاکسی ایک تلوار ، کسی ایک نیزے کی انی ، کسی ایک تیر کی نوک پر خون کا ایک قطرہ بھی نہیں تھالشکر اسلام کو ھدایات مل چکی تھیں کسی کے گھر میں داخل مت ہوناکسی کی عبادت گاہ کو نقصان مت پہنچاناکسی کا پیچھا مت کرنا عورتوں اور بچوں پر ہاتھ نہ اٹھاناکسی کا مال نہ لوٹنابلال حبشءآگے آگے اعلان کرتا جارہا تھا” مکہّ والو۔۔۔ رسول خدا کی طرف سے۔۔۔آج تم سب کیلئے عام معافی کا اعلان ہے۔۔کسی سے ان کے سابقہ اعمال کی بازپرس نہیں کی جائے گی ،جو اسلام قبول کرنا چاہے وہ کرسکتا ہے جو نہ کرنا چاہے وہ اپنے سابقہ دین پر رہ سکتا ہے سب کو انکے مذہب کے مطابق عبادت کی کھلی اجازت ہوگی صرف مسجد الحرام اور اسکی حدود کے اندر بت پرستی کی اجازت نہیں ہوگی کسی کا ذریعہ معاش چھینا نہیں جائے گا کسی کو اسکی ارضی و جائیداد سے محروم نہیں کیا جائے گا غیر مسلموں کے جان و مال کی حفاظت مسلمان کریں گے اے مکہّ کے لوگو۔۔۔۔ !! "ہندہ اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی لشکر اسلام کو گزرتے دیکھ رہی تھی اسکا دل گواہی نہیں دے رہا تھا کہ ” حضرت حمزہؓ ” کا قتل اسکو معاف کردیا جائے گا لیکن ابوسفیان نے تو رات یہی کہا تھا کہ۔۔۔ ” اسلام قبول کرلو۔۔ سب غلطیاں معاف ہوجائیں گی ” مکہّ فتح ہوچکا تھا۔بنا ظلم و تشدد ، بنا خون بہائے ، بنا تیر و تلوار چلائے ،لو گ جوق در جوق اس آفاقی مذہب کو اختیار کرنے اور اللہ کی توحید اور رسول اللہ کی رسالت کا اقرار کرنے مسجد حرام کے صحن میں جمع ہورہے تھے اور تبھی مکہّ والوں نے دیکھا۔۔۔” اس ہجوم میں ہندہ بھی شامل تھی "۔ یہ ہوا کرتا تھا اسلام یہ تھی اسکی تعلیمات ۔۔ یہ سکھایا تھا میرے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیاری ذات نے۔ اور آج ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو شرمندگی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اللہ پاک ہمیں ہدایت دے اور اسوہ حسنہ پر عمل کی توفیق دے۔ آمین

 

تبصرے بند ہیں.