کیا نیا صادق ،امین تلاش کرنا پڑے گا؟

12

ویسے تو اخلاقیات کا کوئی فکسڈ معیار نہیں ، خاص طور پر ہمارے معاشرے میں تو ہر شخص نے اس سلسلہ میں اپنا ہی معیار سیٹ کر رکھا ہے۔
بطور صحافی کئی چھوٹے بڑے قانون شکنوں اور مختلف جرائم میں ملوث افراد کا انٹر ویو کرنے کا اتفاق ہوا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ملزم چاہے کسی بھی نوعیت کا ہو، اس کے پاس اپنی واردات کا کوئی نہ کوئی جواز ضرور موجود ہوتا ہے۔
کئی برس پہلے جاوید اقبال نامی ایک شخص کی کہانی منظر عام پر آئی جو ایک سو معصوم بچوں کا قاتل تھا۔اس کہانی نے تو ہر شہری کے دل پر ہاتھ ڈالا۔ لیکن اس جرم کا اعتراف کرنے والا شخص بالکل مطمئن نظر آتا تھا۔ اس سے انٹر ویو کیا تو وہ کسی بھی لمحے اپنے کیے پر شرمندہ نظر نہیں آیا اور مستقل اپنے اس گھنائونے فعل کی توجیہہ پیش کرتا رہا۔
اس کے علاوہ بھی بے شمار ایسے واقعات ہیں کہ جن میں ہم نے دیکھا کہ لوگ قتل، ڈکیتی اور ریپ جیسیی سنگین وارداتوں میں ملوث ہونے کی وجہ کسی سطح پر ہوئی کوئی سماجی ناانصافی بتاتے ہیں۔ کبھی موقع ملاتو قابل احترام ڈاکٹر صداقت علی سے ضرور پوچھوں گا کہ کیا وجہ ہے کہ اکثر لوگ کسی سماجی ناانصافی کا شکار ہو جانے کے بعد پورے معاشرے سے اس کا بدلہ لینے پر کیوں تل جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وارداتیوں کی ایک اور کیٹیگری وہ بھی ہے جو پکڑے جانے کی صورت میں اپنا جرم تو قبول کرتے ہیں لیکن جرم کرنے یا واردات ڈالنے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ فلاں نے بھی تو ایسا کیا تھا ، یا فلاں بھی تو ایسا کرتا ہے۔ اس قسم کا رویہ ایک طرف تو خاصا کنفیوژنگ ہے تو دوسری طرف خطرناک بھی محسوس ہوتا ہے۔فکر مندی کی بات یہ ہے کہ اگر اسی طرح دوسروں کی دیکھا دیکھی لوگوں نے جرائم کی راہ پکڑ نے کی روش برقرار رکھی تو معاشرہ تو بالکل ہی تباہ ہو جائے گا۔
اس دوسری کیٹیگری میں ہمارے سیاستدان بھائی بہنیں سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ ویسے تو تقریباً ہر سیاسی پارٹی کے چھوٹے بڑے تمام ہی لیڈر اس رویہ کو اپنائے ہوئے ہیں لیکن اگر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب کو ان کا سردار قرار دیا جائے تو زیادہ غلط نہ ہو گا۔
عمران خان صاحب وہ لیڈر ہیں جنہوں نے سچائی، ایمانداری اور سماجی انصاف کے نام پر سیاست میں مقبولیت حاصل کی اور اقتدار کی کرسی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ عوام نے اندھا دھند ان کی باتوں اور دعووں پر یقین کیا اور انہیں ملک کے مقبول ترین لیڈر کے درجے پر پہنچا دیا ۔ لیکن صد افسوس وہ کسی بھی طور عوام کی امیدوں پر پورے نہ اتر سکے۔ ویسے تو ایک قومی لیڈر کے لیے غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل ہو ایک لازمی امر ہے لیکن چونکہ یہ اللہ کی دین ہے اس لیے اس کے کم یا زیادہ ہونے پر زیادہ بحث نہ ہی کریں تو بہتر رہے گا لیکن نیت وہ چیز ہے کہ جس پر انسان کو مکمل کنٹرول حاصل ہے، اور اگر اس میں فتور ہے تو پھر ایسے شخص کا مناسب علاج ہونا لازمی ہو جاتا ہے۔
ویسے تو عمران خان صاحب کو مستقل بنیادوں پر کسی نہ کسی الزام کا سامنا رہتا ہے لیکن تازہ ترین گھڑی سکینڈل کچھ زیادہ ہی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ خان صاحب خود اور ان حواری اس سلسلہ میں مختلف قسم کے بیان اور وضاحتیں دیتے تو رہتے ہیں لیکن ان کی دو باتیں انتہائی مضحکہ خیز ہیں۔
اول تو یہ کہ سعودی ولی عہد کی جانب سے پاکستان کے وزیر اعظم کو دی جانے والی غیر معمولی اہمیت اور غیر معمولی قیمت والی گھڑی اس وقت جن صاحب کے پاس موجود ہے وہ اسے خان صاحب کی ایجنٹ فرح گوگی سے خریدکرنے کے دعویدار ہیں۔ لیکن خان صاحب کے کیمپ کی جانب سے نہ صرف اس کی بھرپور انداز میں ترید کی جاتی رہی ہے بلکہ موصوف پر مختلف قسم کے الزامات کی بوچھاڑ بھی ہو رہی ہے۔
اس صورتحال میں سوال یہ پیدا ہو گیا کہ اگر موصوف کو گھڑی نہیں بیچی گئی تو اس تک پہنچی کیسے؟ اس کا یہ جواب سامنے آیا کہ سعودی ولی عہد کا دیا ہوا تحفہ بیچا ضرور گیا تھا مگر یہ اسلام آباد کی ایک دکا ن پر فروخت ہوا تھا۔ اس سلسلہ میں ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک رسید بھی پیش کر دی گئی۔ بعض دوستوں نے تحقیق کے لیے مذکورہ دکان کے مالک سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس نے تو یہ دکان رسید پر درج تاریخ کے بعد خریدی ہے اور گھڑی سے متعلق معلومات تو دکان کا سابق مالک ہی فراہم کر سکتا ہے۔
کچھ وقت ابہام میں گزرنے کے بعد چند روز قبل مذکورہ دکان کا سابق مالک بھی منظرعام پر آ گیا ہے اور اس نے رسید اور اس پر موجود دستخط کو مکمل جھوٹ اور جعلسازی قرار دیتے ہوئے گھڑی کی خرید سے مکمل لاعلمی اور لا تعلقی کا اظہار کیا ہے۔ مزید براں اس نے جھوٹا پراپیگنڈہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا اشارہ بھی دیا ہے۔
دوسری بات اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے۔
تحفہ میں ملی ہوئی گھڑی کو اونے پونے داموں میں فروخت کرنے کے معاملات میں جب خان صاحب اور ان کی ٹیم کے پاس دلائل کا فقدان ہو گیا تو وہی گھسی پٹی بات سامنے آگئی۔ خان صاحب کے ترجمانوں کی جانب سے اب یہ موقف اپنایا گیا ہے کہ خان صاحب نے چونکہ گھڑی کی قیمت کا بیس فیصد ادا کر کے گھڑی خرید لی تھی اس لیے اسے مارکیٹ میں بیچنا کسی بھی طور غلط نہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ماضی میں بھی صدور اور وزراعظم تو شہ خانہ سے تحائف خرید کرتے رہے ہیں پران پر تو کوئی الزام نہیں لگا۔
اگر خان صاحب کی تمام باتوں کو درست تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی دو باتوں کا جواب تو آنا ہی چاہیے۔
پہلی یہ کہ اگر سابق حکمرانوں نے توشہ خانہ سے تحائف خرید کیے ہیں تو کیا اس کا مقصد کاروبار کرنا اور منافع کمانا تھا؟ اور دوسر ی اور سب اہم بات یہ کہ اگر عمران خان صاحب اپنا موازنہ ان لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں اور اپنے آپ کو انہیں کی صف میں کھڑا کرتے ہیں کہ جنہیں وہ سالہا سال سے چور، ڈاکو اور جانے کیا کیا کہتے رہے ہیں تو پھر ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔ خان صاحب کی حرکات اور بیانات کے بعد ان کی سچائی، ایمانداری اور دوسروں سے مختلف ہونے کے دعووں کی عظیم الشان عمارت تو زمین بوس ہوتے ہوئے نظر آتی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہو گیا ہے کہ کیا آئندہ انتخابات کے لیے ہمیں کوئی نیا صادق اور امین تلاش کرنا پڑے گا؟

تبصرے بند ہیں.