ایک دن میں اتنی خبریں

18

جمعرات کو تو ایسا لگتا تھا کہ بریکنگ نیوز کا جمعہ بازار لگ گیا ہے صبح یہ سلسلہ شروع ہوا اور رات گئے تک جاری رہا ایک کے بعد ایک خبر آتی چلی گئی اتفاق دیکھیں کہ یہ تمام خبریں مختلف نوعیت کی تھیں لیکن ان سب میں ایک بات مشترک تھی کہ سب کی سب تحریک انصاف کی قیادت کے لئے حزیمت کا سامان لئے ہوئے تھیں۔ سب سے پہلی خبر وہی کمبخت گھڑی کے حوالے سے بشری بی بی اور زلفی بخاری کی آڈیو تھی کہ جس میں بڑی مختصر آڈیو تھی جس میں بشری بی بی گھڑی کے بیچنے کے متعلق زلفی بخاری سے استفسار کر رہی ہیں اور وہ انھیں مرشد کہہ کر ادب کے ساتھ حامی بھر رہے ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے تحریک انصاف کی قیادت کو جو بھی ہے اس بات کی بہر حال داد دینا پڑے گی کہ تجزیہ نگار اور صحافی دستاویزی ثبوت کے ساتھ اس بات کو ایک بار نہیں بلکہ بار بار کہہ رہے ہیں تحریک انصاف کی حکومت نے دسمبر 2018میں توشہ خانہ سے 20%ادائیگی کے ساتھ خریداری کا قانون بدل کر50%ادائیگی کا بنا دیا تھا لیکن عمران خان نے اپنی ہی حکومت کے بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنوری 2019میں انھیں فقط 20%ادائیگی کر کے خرید لیا لیکن تحریک انصاف والے ہر ٹاک شو میں ڈھٹائی کے ساتھ کہتے ہیں کہ انھوں نے پچاس فیصد ادا کر کے قانون کے مطابق خریدا یا پھر یہ کہہ کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انھوں نے تو قانون کے مطابق جس طرح نواز شریف اور زرداری صاحب نے 20%ادائیگی پر تحائف خریدے اسی طرح عمران خان نے توشہ خانے سے تحائف خریدے اور اس بات کو گول کر دیتے ہیں کہ دوسروں نے جب بیس فیصد پر تحائف لئے تو اس وقت قانون بیس فیصد کا ہی تھا لیکن جب خان صاحب نے تحائف لئے تو اس وقت قانون پچاس فیصد کا تھا لیکن تحائف کی ادائیگی صرف بیس فیصد کی گئی۔
دوسری خبر کا تعلق بھی توشہ خانہ کی گھڑی سے متعلق ہی تھا اور اس خبر نے تحریک انصاف کے جھوٹ کو ایک مرتبہ پھر بے نقاب کر دیا تھا۔ چند روز پہلے جب میڈیا میں یہ خبریں آئیں کہ سعودی ولی عہد کی تحفہ میں دی گئی انتہائی قیمتی گھڑی عمران خان نے فرح گوگی کے ذریعے دبئی میں پاکستانی نژاد ایک تاجر کو بیچی ہے تو تحریک انصاف کی قیادت نے فوری طور
پر خبر کی تردید کی تھی بلکہ عمران خان نے تو اسی وقت غصے کے عالم میں کہا تھا کہ وہ اس خبر کو بریک کرنے والے اینکر، اس ٹیلی وژن اور دبئی کے اس تاجر کے خلاف پاکستان ہی نہیں بلکہ دبئی اور لندن میں بھی کیس کریں گے اور خبر دینے والے سب کرداروں کو لگ پتا جائے گا لیکن افسوس کہ ابھی تک عمران خان کی جانب سے ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ تحریک انصاف نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے تو مذکورہ گھڑی اسلام آباد کے ایک دکاندار کو بیچی تھی۔ اس دکاندار کی انکم ٹیکس اسٹیٹمنٹ بھی منظر عام پر آگئی کہ اس کے پاس تو اتنے پیسے ہی نہیں تھے کہ وہ اس گھڑی کو خرید سکے لیکن اب محمد شفیق نامی اس دکاندار کا وڈیو بیان سامنے آ گیا ہے کہ جس میں اس نے واضح طور پر اس بات کی تردید کی ہے کہ اس نے یہ گھڑی خریدی تھی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اس کے لیٹر پیڈ کو غیر قانونی طور پر استعمال کیا گیا اوراس پر جو دستخط ہیں وہ بھی جعلی ہیں اور اگر اس حوالے سے آئندہ کچھ غلط بیانی کی گئی تو وہ قانونی چارہ جوئی کرے گا۔اسی صورت حال میں کہا جاتا ہے کہ ”لو کر لو دکانداری“۔
اس کے بعد رات سات آٹھ بجے کے قریب وہ خبر آئی کہ جس پر ایک ماہ پہلے سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے خوشی سے ناچ ناچ کر گھنگرو توڑ دیئے تھے۔آپ کو یاد ہے کہ میاں شہباز شریف جب لندن سے واپس پاکستان آنے کے لئے ائر پورٹ آ رہے تھے تو طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے واپس چلے گئے تھے اور دو دن بعد وطن واپس لوٹے لیکن اس دوران بھائی لوگوں نے کیا کیا افسانے نہیں تراشے کہ جناب ڈیلی میل کے کیس میں لندن کی عدالت نے میاں شہباز شریف کے خلاف فیصلہ دے دیا تھا اور انھیں تو ائر پورٹ پر گرفتار کرنا تھا بڑی مشکل سے گرفتاری سے بچے ہیں جو لوگ اس طرح کا گمراہ کن پروپیگنڈا کر رہے تھے انھیں پتا ہی نہیں تھا کہ کسی ملک کے وزیر اعظم کے ساتھ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے لیکن خیر جھوٹ بہر حال جھوٹ ہی ہوتا ہے اور سچ نے ایک دن آشکار ہونا ہی ہوتا ہے۔ اب ڈیلی میل نے اپنی 2019کی خبر کہ جس میں اس نے میاں شہباز شریف اور ان کے داماد پر سیلاب فنڈز میں خرد برد کرنے کے الزامات لگائے تھے اس پر میاں شہباز شریف اور ان کے داماد سے غیر مشروط معافی لی ہے اور اپنے الزامات کو واپس لیتے ہوئے کہا ہے کہ ان سے یہ غلطی ہوئی تھی۔ ڈیلی میل کی اس معافی کے بعد ان لوگوں کی جہالت تو عیاں ہوئی ہے لیکن یہ سوال بھی بنتا ہے کہ کیا جھوٹے پروپیگنڈا کی بنیاد پر کسی پر کیچڑ اچھالنا بھی آزادی رائے کے زمرے میں آتا ہے یا اس کے تدارک کے لئے سخت قانون سازی کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ ایک اور خبر کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو اس کیس میں نوٹس جاری کیا ہے کہ جس میں ایک شہری نے یہ درخواست دائر کی تھی کہ 2004میں امریکہ کی ایک عدالت میں عمران خان نے ٹیریان کو اپنی بیٹی تسلیم کیا تھا اور اب بھی وہ عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما کی کفالت میں ہے لیکن عمران خان نے 2018میں کاغذات نامزدگی میں اس کا ذکر نہیں کیا۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوٹس تو جاری کر دیا ہے لیکن ہم نے پہلے بھی اپنے ایک کالم میں کہا تھا کہ
لیکن یہ کیا بتاؤں
اب حال دوسرا ہے
ارے وہ سال دوسرا تھا
یہ سال دوسرا ہے
وہ سال اور تھے کہ جب یوسف رضا گیلانی، میاں نواز شریف، طلال چوہدری، نہال ہاشمی اور دانیال عزیز کو نا اہل قرار دیا جاتا تھا اب اول تو نوبت نا اہلیت تک پہنچتی نہیں اور اگر نا اہل کرنا بھی پڑے تو یہ قرار دیا جاتا ہے کہ یہ نا اہلی تو فقط اس الیکشن تک تھی کہ جس کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے تھے۔ ہم کوئی ہوا میں بات نہیں کر رہے ادھر عمران خان کو نا اہل قرار دیا گیا اور ادھرایک دو نہیں بلکہ آدھی درجن سے زیادہ سیٹوں پر عمران خان کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی اور فیصل واوڈا تو ابھی کل ہی اپنی سینٹ کی نشست پر بحال ہوئے ہیں تو عمران خان بھی اگر اس کیس میں نا اہل ہوئے بھی تو اس سیٹ سے ہوں گے جس سے وہ مستعفی ہو چکے ہیں اور ایک اور کیس میں پہلے بھی نا اہل ہو چکے ہیں اس لئے یار زندہ صحبت باقی۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں آخری خبر کے ساتھ بس ایک ہی سوال ہے کہ سعودی عرب کے وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کی ہر ممکن معاشی مدد کریں گے تو سوال یہ ہے کہ چند روز قبل تک ایسی ہر خبر کے ساتھ کہا جاتا تھا کہ یہ باجوہ صاحب کی کوشش سے ہوا ہے تو سعودی عرب کی اس مہربانی کے پیچھے کس کی کوشش ہے۔

تبصرے بند ہیں.