اقبال نے امت مسملہ کو اسلاف کی طرف لوٹنے کا درس دیا

70

مجلس مرکزیہ یوم اقبالؒ کے تحت سالانہ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر وحید الزمان طارق نے کہا کہ علامہ اقبالؒ کو پڑھتے ہوئے قرآن و حدیث ، قدیم ادیان ، فارسی شعر اور مغربی فلاسفہ کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ علامہ اقبالؒ وہ واحد شخصیت ہیں جو مغرب سے مرعوب نہیں ہوئے اور امت کو اپنے اسلاف کی طرف لوٹ کر جانے کا درس دیتے ہیں۔
مرکزی مجلس اقبالؒ کی 84 سالہ تاریخ ہے۔ اس کا آغاز علامہ اقبالؒ کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا ۔ اس جلسہ سے قائد اعظمؒ، لیاقت علی خانؒ، محترمہ فاطمہ جناحؒ نے بھی خطاب کیا ہے۔ ہر سال مرکزیہ مجلس اقبالؒ علامہ اقبالؒ کے یوم ولادت اور یوم وفات پر تقریبات کا اہتمام کر تی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کے علاوہ دینی تعلیم کے اداروں میں بھی اساتذہ اپنے طلباءو طالبات کو فکر اقبالؒ ان کے فلسفہءخودی اور انقلابی کلام سے آشنا کریں۔ پاکستان کی بقاءقائداعظم ؒاور علامہ اقبالؒ کے افکار پر عمل درآمد اور ان کے فروغ سے وابستہ ہے۔
ڈاکٹر وحید الزمان طارق نے خطاب میں مسلمانوں کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی کمزوریوں پر اقبالؒ کی تشویش کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ اقبالؒ نے مسلمانوں کے انحطاط کی وجہ ان کی جہالت، تخلیق و ایجاد و تحقیق سے عدم دلچسپی اور فکری ، عملی اور ذہنی انحطاط ، بددیانتی اور کردار کی کمزوری کو قرار دیا۔ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو کھونے کے بعدان کے احساس کمتری اور مغرب کی چکاچوند روشنیوں سے مرعوب ہونے کو قرار دیا ۔ اقبالؒ کی خودی کا فلسفہ دراصل خو داری، خود انحصاری ، خود ارادیت، خودنگری، خود بینی اور خود اعتمادی کا احاطہ کرتا ہے اور یہ کردار کی پختگی اور حق کے ساتھ بے خطر وابستگی جسے وہ عشق کا نام دیتے ہیں ، اسی سے ممکن ہے اور ان سب کا سرچشمہ قرآن پاک کی تعلیمات ہیں۔ آج میں اقبالؒ کے پیغام کی وضاحت قرآن کی تعلیمات کی رو سے کرتا ہوں تو مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوجاتی ہے کہ قرآن توحید کی وہ تعلیم دیتا ہے جس کاثمر تب ملتا ہے جب قربانی دی جائے۔
جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے جناب ارشاد عارف نے کہا کہ علامہ اقبالؒ نوجوانوں کو جہد مسلسل کی تلقین کرتے ہیں۔ ہمیں ان کی تعلیمات سے ہدایت لینے کی ضرورت ہے۔ ماہر اقبالیات محمد سہیل عمر کہتے ہیں کہ علامہ اقبالؒ تین حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ وہ سیاسی رہنما ، مصلح اور شاعر کے طورپر آج کے مسائل کا حل بھی پیش کرتے ہیں۔
بیداری ملت کے لیے اقبالؒ ؒ نے اپنی شاعری میں کبھی تو افراد ملت کو ان کا شاندار ماضی دکھایا تو کبھی اتحاد و یقین کی دعوت دی۔ کبھی تو اسکی غلامی پہ رضامندی، سستی و کاہلی اور عمل سے فراغت پر کڑی تنقید کی تو کبھی مغربی تہذیب سے بچنے کا درس دیا۔ انھوں نے ایک طرف مومن کو پختہ عزمی، اسلاف سے روحانی نسبت اور خودی کا درس دیا تو دوسری طرف منافقت، مادہ پرستی، بنیاد پرستی سے بچنے کی تلقین کی۔ امت کی بیداری میں حائل چند اہم رکاوٹوں کا ذکر ہمیں اقبالؒ کے افکار سے ملتا ہے۔
خطبہ الہٰ آباد میں علامہ اقبالؒ نے ایک مستقل ، ایک مثبت حل مسلمانوں کے لیے پیش کیا۔ کیونکہ اقبالؒ کے نزدیک اسلام اور مسلم قومیت ابدی صداقت کا نام ہے اور وہ مسلمانوں کو ایک مرکز پر اکٹھا دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک مسلمان اپنے مرکز سے دور ہوتے جارہے تھے اور وہ مسلمان قوم کو خدا اور اس کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ سے محبت اور بعد از موت کے حالات کےلئے تیار کرنا چاہتے تھے۔ اقبالؒ یہ بھی چاہتے تھے کہ مسلمان قوم کو د±نیا کی امامت کرنی ہے اور امامت کےلئے صداقت، عدالت (انصاف) اور شجاعت ضروری ہے اور وہ مسلمانوں کو اپنے اندر تبدیلی لانے کے خواستگار تھے۔ ا±ن کے نزدیک مسلمانوں کا جدا وطن ، خطہ زمین اور علاقہ حالات سے آگاہی کے بعد ضروری ہوگیا۔ وہ مسلم قوم کو آزاد دیکھنا چاہتے تھے اور ظلم و ستم کے تمام آثار سے نجات دلوانا چاہتے تھے۔ ا±ن کا ایک خطہ زمین کا نظریہ یوں بھی تھا کہ ج±دا وطن میں لوگوں میں شعور خودی پیدا کرنا تھا۔
علامہؒ ان لوگوں سے کس شدت سے بیزار و متنفر تھے جو نام و نسب کے مسلمان ہیں، مسلمان معاشرے میں رہتے ہیں، مگر ان کے دل و دماغ یورپ کے نظریات و افکار کے اس بری طرح شکار ہیں کہ وہ اسلام کے مقابلے میں یورپ سے درآمد شدہ ہر نظریئے اور فکر کو دل و جاں سے عزیز رکھتے ہیں۔ وہ قرآن و حدیث اور تاریخ اسلام سے بے بہرہ ہوتے ہیں، اسلامی اقدار و اخلاق سے عاری ہوتے ہیں مگر مغربی فلاسفہ اور مصنفین کی تقلید میں، ان موضوعات کے بارے میں ان کا انداز گفتگو انتہائی غیر سنجیدہ، مضحکہ خیز اور توہین آمیز ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے یہ طبقہ علامہ اقبالؒ کی زندگی میں بھی خاصی بڑی تعداد رکھتا تھا اور پوری اسلامی دنیا میں حکمرانوں سے لے کر عام سطح تک پھیلا ہوا تھا، اور آج بھی نہ صرف ساری خصوصیات سمیت موجود ہے بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ با اثر ہے۔ ان کے فرمودات سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ وہ مغربی تہذیب کے بے رحم نکتہ چین تھے مگر انہیں اصل شکایت اس کے مسلمان پیرو کاروں اور علمبرداروں سے تھی، فرماتے ہیں:
تقلید پہ یورپ کی رضا مند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں

تبصرے بند ہیں.