استحکام کی جانب

66

جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملک میں جاری غیر یقینی کی لہر کی ایک بڑی وجہ کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ اسی سال 9 اپریل کو پی ٹی آئی حکومت کے تحریک عدم اعتماد سے خاتمے کے بعد اب تک ملک میں افراتفری کی کیفیت پیدا کردی گئی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ یہ تاثر عام تھا کہ حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا گیا جو ماضی میں دوسری جماعتوں کی حکومت کو رخصت کرنے کے بعد کیا جاتا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماوں کا کہنا تھا کہ اقتدار جانے کے بعد بھی انہیں فوج اور عدلیہ کے اندر سے سپورٹ حاصل ہے۔ مرکز میں قائم اتحادی جماعتوں کے کم و بیش تمام رہنما مسلسل کہتے رہے کہ عمران خان اب بھی لاڈلے ہیں۔یہ گلہ بھی کیا جاتا رہا کہ عدلیہ نے عمران خان کو کھلی چھوٹ دینے کے لیے آئین کی من مانی تشریح اور قوانین کی خود ساختہ تاویلیں پیش کیں۔ جس وقت پنجاب حکومت پی ٹی آئی کو ق لیگ کے ذریعے لوٹا کر چودھری پرویز الٰہی کو سپریم کورٹ کے ذریعے وزیراعلیٰ بنوایا گیا تو اس وقت بہت سے لوگوں کو لگا کہ اسٹیبلشمنٹ میں پی ٹی آئی کے حامی گروپ نے سارا بندوبست کیا ہے۔ چودھری بردران کی سیاست کو قریب سے جاننے والے اس موقف کے حامی نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ چودھری پرویز الٰہی کسی غیر متعلقہ افسر کے کہنے پر اتنا بڑا فیصلہ کرلیں۔ یقیناً انہوں نے اسی مرکز سے رہنمائی حاصل کی ہے جہاں سے ق لیگ اور اس جیسی دوسری جماعتیں اپنے قیام کے بعد” روشنی “ حاصل کرتی آرہی ہیں۔ بعد میں یہ راز بھی کھل گیا کہ اس حوالے سے فیصلہ اس وقت کے چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے این او سی حاصل کرنے کے بعد کیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کی بدترین تنقیدی مہم کی زد میں آئے ہوئے جنرل باجوہ اپنے طور پر دور اندیشی سے کام لے رہے تھے۔ بعد میں یہ راز بھی کھل گیا کہ عمران خان نے نیا آرمی چیف لگانے کی بجائے پہلے سے توسیع پر چل رہے جنرل قمر جاوید باجوہ کو اگلے عام انتخابات تک ایکسٹینشن دینے کی نہ صرف تجویز دی بلکہ مطالبہ کرکے ڈٹ گئے۔ وہ تو اتحادی جماعتوں کی حکومت تھی کہ جس نے جیسے تیسے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف جنرل باجوہ کو برقرار رکھنے کی تجویز مسترد کردی بلکہ نئے آرمی چیف کے لیے پی ٹی آئی کے ساتھ کسی بھی قسم کا مشورہ کرنے سے انکار کردیا۔ اقتدار سے فراغت کے بعد حکومت اور ریاست پر پے درپے ایسے حملے کیے گئے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ باربار کوشش کی گئی کہ”خود کھیلوں گا نہ کسی کو کھیلنے دوں گا“ کی پالیسی کے ذریعے سسٹم مفلوج کردیا جائے مگر ان کی ایک نہ چلی۔ کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ عمران خان کالانگ مارچ نئے آرمی چیف کا تقرر متنازع بنانے کے لیے تھا مگر وہ اور ان کے ہینڈلرز اس مشن میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کو ریٹائر ہوکر گھر جانا پڑا۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی فارغ ہوگئے۔ نئے آرمی چیف کا نام سامنے آنے کا معاملہ انہی وجوہات کی بنا پر ایک ایسا ون ڈے کرکٹ میچ بن گیا تھا کہ جس میں آخری اوور کی آخری گیند تک کسی کو نتیجہ معلوم نہیں تھا۔ جنرل عاصم
منیر کے آرمی چیف بننے کے بعد جہاں ہر طرف چھائی مصنوعی دھند چھٹ گئی وہیں ان حلقوں کی امیدوں پر پانی پھیر گیا اور سہانے سپنے ، ڈراﺅنے خواب میں تبدیل ہوگئے جو اس حوالے سے من پسند نتائج حاصل کرنا چاہتے تھے۔ 26 نومبر کو عمران خان کے راولپنڈی میں جلسے کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ آخری حربے کے طور پر پنجاب اور کے پی اسمبلیاں توڑنے کی دھمکی دے کر فیس سیونگ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ الیکشن کمیشن نے اگلے ہی روز بتا دیا کہ جہاں نشستیں خالی ہوں گی وہاں ضمنی الیکشن کرا دئیے جائیں گے۔ کے پی کے اسمبلی توڑی گئی تو صوبے میں انتخابات کے حوالے سے وہاں موجود جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے گورنر غلام علی کی شخصیت بے حد اہمیت اختیار کر جائے گی۔ پنجاب اسمبلی ٹوٹی تو الیکشن سے پہلے وفاقی حکو مت میں شامل جماعتیں نہ صرف پوری طرح متحرک ہوں گی بلکہ وسائل کا بھی خوب استعمال ہوگا۔ اس لیے یہ پی ٹی آئی کے لیے ایک جوا بھی ہے۔ اسمبلیوں کی تحلیل کا معاملہ عدالتوں میں بھی جاسکتا ہے۔ ہونا تو یہی چاہیے کہ ہم جمہوریت کے حوالے سے بھارت سے سبق سیکھیں۔ اگر ایسی غیر معمولی صورتحال پیدا ہوجائے مگر معاملہ مکمل طور پر آئینی حدود کے اندر ہو تو مروجہ طریق کار کا متبادل بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ وفاق اوربعض صوبوں میں الگ الگ تاریخوں پر انتخابات کیوں ممکن نہیں ؟ آئیڈیل صورتحال تو یہی سیاسی جماعتیں انتخابی معرکوں کے حوالے سے اسی طرز فکر کو اختیار کریں تاکہ کوئی سیاسی جماعت یا لیڈر ریاست ، حکومت یا دوسری سیاسی جماعتوں کو بلیک میل نہ کرسکے۔ پنجاب اسمبلی کے حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے اعلان کردیا ہے کہ جیسے عمران خان کا اشارہ ملا اسمبلی اسی لمحے ختم کردی جائے گی۔ دوسری طرف یہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ پرویز الٰہی اپنی حکومت اور اسمبلی بچانے کے لیے رابطے کررہے ہیں۔ اگرچہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی مگر مسلم لیگ ن کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وہ پرویز الٰہی کے ساتھ ملنے پر تیار نہیں۔ اس لیے اب بظاہر پرویز الٰہی کے پاس پی ٹی آئی کے ساتھ رہنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ اب اگر پنجاب اسمبلی توڑ دی جاتی ہے تو صوبے میں انتخابات کے نتائج دو طرح کے ہی ہوسکتے ہیں کہ پی ٹی آئی اکثریت لے جائے یا ن لیگ میدان مار لے دونوں صورتوں میں پرویز الٰہی اقتدار کے اگلے سیٹ اپ سے آوٹ ہوں گے۔ ن لیگ تو ہے ہی مخالف مگر اگلی بار پی ٹی آئی بھی چانس نہیں لے گی۔ پرویز الٰہی کا اگلی بار وزیر اعلیٰ بننا تو دور کی بات انہیں کوئی سپیکر بنانے کا خطرہ بھی مول نہیں لے گا۔ ان کے جانشین مونس الٰہی کو بھی لفٹ نہیں کرائی جائے گی۔ اسمبلی توڑے جانے کی صورت میں صرف ایک معجزہ ہی پرویز الٰہی کو مناسب پوزیشن دلوا سکتا ہے کہ ن لیگ اور پی ٹی آئی برابر رہ جائیں اور ق لیگ پھر چند سیٹیں لے کر کنگ میکر بن جائے۔ ایک اور منظر نامہ بھی ہے اب تک تو عمران خان اپنی دو صوبائی حکومتوں کے باعث اپنے خلاف مقدمات یا وفاقی حکومت کے کسی ممکنہ کریک ڈاﺅن سے بچے ہوئے ہیں مگر حکومتیں جانے کے بعد یہ تمام دیواریں گر جائیں گی۔ اب وہ طاقتور عناصر بھی اپنے عہدوں پر موجود نہیں جو بظاہر نیوٹرل ہونے کا تاثر دیتے ہوئے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے عمران خان کی صورت میں وفاقی حکومت اور دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے سر پر تلوار لٹکا کر رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کی نئی قیادت سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ حقیقتاً نیوٹرل کردار ادا کرے گی۔ ایسا ہوا تو پھر عمران خان کے خلاف نہ صرف پہلے سے زیرسماعت مقدمات کی زیادہ شدت سے پیروی کی جائے گی بلکہ نئے کیسسز بھی دائر ہوں گے۔ یہ عمل ڈھنگ سے شروع ہوگیا تو عمران خان کے لیے پہلے جیسی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ یہ بات مد نظر رکھی جانی چاہیے کہ عمران خان پورا زور لگا کر اپنی سٹریٹ پاور کا ہر ممکن طریقے اظہار کرچکے ہیں۔ اداروں کو بھی اچھی طرح سے اندازہ ہوچکا کہ ہنگامہ آرائی کرنے والوں سے کیسے اور کب نمٹنا ہے۔ حکومت بھی نئے حوصلے کے ساتھ میدان میں اترے گی۔ اسٹبلشمنٹ کی نئی قیادت کو توسیع چاہیے نہ ہی کسی طرح کے اورمفاداتی عزائم ہیں۔ غیر سیاسی ہونے کا مقصد ریاست کے تمام معاملات سے لاتعلق ہونا نہیں ہوتا۔ سو کسی کو بھی ملک میں انتشار پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے۔ اسمبلیاں ٹوٹیں یا برقرار رہیں۔ عام انتخابات وقت سے پہلے ہوں ، اپنے شیڈول پر ہوں یا لیٹ ہو جائیں۔ ملک کو اب بہر طور استحکام کی جانب ہی بڑھنا ہے۔رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کرنے والے کو بہت جلد احساس ہو جائے۔ اب پہلے والا دور نہیں رہا۔

تبصرے بند ہیں.