تمام محب وطن پاکستانیوں کی طرح مجھے ملک کی محافظ پاک فوج سے کبھی اختلاف تھا نہ ہے اور نہ ہو گا لیکن جنرل باجوہ کے سانحہ مشرقی پاکستان کا ملبہ سیاستدانوں پر ڈالنے کے بیان سے تاریخی حقائق کے حوالے سے میرا نکتہ نظر ان سے قطعاً مختلف ہے۔ حقائق کا جائزہ لیا جائے تو جولائی 1958 سے دسمبر 1971 تک تو ملک میں تو ایوب خان اور یحییٰ خان کی فوجی آمریت کا دور تھا کوئی سیاسی حکومت تھی ہی نہیں۔ ویسے میری ناقص رائے میں باجوہ صاحب کو اپنی الوداعی تقریر میں یہ جملے کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی خاموشی سے چلے جاتے۔ لیکن جاتے جاتے وہ ایک نیا پینڈورا بکس کھول گئے اور اب پورا پاکستان اس لکیر کو پیٹتا رہے گا۔
یوں تو سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کا دور کافی حوالوں سے متنازع رہا جس پر تنقید موجودہ متحدہ حکومت جو کہ اس وقت کی اپوزیشن تھی بھی کرتی رہی۔ لیکن ان کی دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ اور پاکستان کو درپیش مختلف مسائل کے حل کے لیے ان کی کوششوں کو سراہا جانا چاہیے۔
انہوں نے اپنے الوداعی خطاب میں فوج کے سیاست میں ملوث ہونے کے خلاف آئین اقدام کا برملا اعتراف کر کے ایک اور پینڈورا بکس کھول دیا۔ یہ پینڈورا بکس بند ہو سکتا تھا یا اس کے اثرات کم ہو سکتے تھے اگر وہ بڑا دل کرتے ہوئے فوج کے اس سیاسی رول پر معذرت کر لیتے لیکن ایسا نہ ہو سکا غالباً انا آڑے گئی یا کوئی مصلحت۔ مجھے یقین ہے کہ اس بار آئین توڑنے کے برملا اعتراف کی بات اعتراف جرم تک ہی رہے گی، فرد جرم لگے گی اور نہ اس کا نوٹس کوئی ادارہ لے گا۔ ہمارے ادارے صرف سیاستدانوں کے معمولی متنازع بیانات پر ہی نوٹس لے کر دل پشوری کرتے رہتے ہیں گے۔ لیکن سوال ہے کہ کیا معاملہ اعتراف تک ہی رہے گا یا فوج کے75 سالہ سیاسی دور اور اس سے پاکستان کو پہنچنے والے نقصانات کا محاسبہ تو چھوڑیں تجزیہ بھی ہو گا؟
ادارے کو تو چھوڑیں سیاستدانوں نے خود پر لگنے والے ملک توڑنے کے الزام کی مذمت تو کجا وضاحت دینا بھی گوارا نہ کیا۔ مسلم لیگ ن تو اس صورتحال سے محظوظ ہو رہی ہو گی کیونکی کبھی اس کے قائد نواز شریف بھی ذوالفقار علی بھٹو پر پاکستان توڑنے کا الزام لگاتے رہے تھے۔ دیکھا جائے تو جنرل (ر) باجوہ کا سیاستدانوں پر ملک توڑنے کا الزام اس وقت کی واحد سیاسی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو پر تھا لیکن اس کی وارث پیپلز پارٹی بھی اس بیان پر چپ سادھے بیٹھے ہے۔ قمر الزماں کائرہ جیسا انقلابی بھی ایک ٹی وی شو میں اس سوال پر کنی کترا کر نکل گیا۔ جنرل (ر) باجوہ نے فوج کے غیر سیاسی ہونے کا نعرہ بھی لگایا ہے لیکن اس پر عمل کس حد تک ہو گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن تحریک انصاف کے اسد عمر کے اے آر وائی کے پروگرام کاشف عباسی کے ساتھ میں منگل کو اس حوالے جو کچھ کہہ دیا ہے وہ اس دعویٰ کی نفی کرتا ہے۔
ماضی میں چشم فلک نے دیکھا کہ آج کے
حکومتی اتحاد نے پہلی بار فوج اور اس کے اعلیٰ عہدیداروں کو نام لے کر سرعام جی بھر کر تنقید کا نشانہ بنایا اور پھر ایک معجزہ ہوا اور وہ راتوں رات فوجی اسٹیبلشمنٹ کے محبوب بن گئے۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف جو کبھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا تھی متنفر ٹھہری اور آج بھی وہی صورتحال ہے۔ ہم تو یہی کہیں گے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو اس دور کی عوامی لیگ سمجھ کر دیوار سے نہ لگایا جائے۔
جنرل (ر) باجوہ صاحب آپ کی یاددہانی کے لیے عرض ہے کہ سقوط ڈھاکہ کی وقت ملک میں یحییٰ کا مارشل لا تھا اور اس سے گیارہ سال پہلے بھی ایک جرنیل ایوب خان حکمران تھا۔ کاش آپ یہ بھی اعتراف کرتے جاتے کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت ان دنوں فوج ہی سیاست کر رہی تھی جس کی قیمت ہمیں پاکستان کے دو لخت ہونے کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔
ان کی الوادعی تقریر کا نچوڑ یہ تھا کہ سانحہ مشرقی پاکستان فوجی نہیں سیاسی شکست تھی۔ اس وقت سیاست ذوالفقار علی بھٹو کے گرد گھومتی تھی اور ایک طرح سے انہی کو اس سانحہ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ افسوس ہے کہ کسی بھی سیاستدان بشمول بھٹو کے وارثان اور جمہوریت کے دیگر چیمپئنز نے جنرل باجوہ کے اس الزام پر وضاحت یا تردید تو چھوڑیں اپنا بیانیہ بھی دینا گوارا نہ کیا اور اس الزام کی سچائی پر اپنی مہر بھی ثبت کر دی۔ نواز شریف، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان کو ہر قیمت پر اقتدار پسند ہے ان سے اس قسم کی توقعات ہی فضول ہیں کہ لیکن تاریخ ریت، پانی یا ہوا پر نہیں لکھی جاتی کہ یہ مٹ سکے اور کسی کو اچھا لگے یا بُرا تاریخ مسخ نہیں کی جا سکتی۔ یقیناً جنرل باجوہ جاتے جاتے ایک داستان چھوڑ گئے ہیں لیکن یکطرفہ داستان کی اہمیت نہیں ہوتی۔
سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بطور آرمی چیف اپنے آخری خطاب میں یہ بھی انکشاف کیا کہ مشرقی پاکسان میں 92 ہزار نہیں 34 ہزار جوانوں نے بھارت کی 450000 فوج کا مقابلہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ اس بات کا انکشاف کرنے میں 51 سال کیوں لگا دیئے گئے فوج تو سب سے انفارم اور منظم ادارہ ہے اس نے عوام کو حقائق سے بے خبر کیوں رکھا؟ ملکی سلامتی کی ضامن فوج پاکستان توڑنے کے ذمہ دار سیاسی عناصر کو کٹہرے میں کیوں نہ لائی؟ ان کے علاوہ دیگر آرمی چیفس نے ملکی تاریخ کے اس اہم ترین معاملے کے متعلق یہ اہم انکشافات کس مصلحت کے تحت اور کیوں نہ کیے؟ بے شک فوج جیسے منظم ادارہ کو آخر اپنے متعلق مسخ تاریخ کا چہرہ صاف اور عوام کو 51 سال تک غلط تاریخ کیوں پڑھنے دی؟ فی الوقت کسی بھی سیاستدان بشمول پیپلز پارٹی جنرل قمر باجوہ کے اس دعویٰ کی تردید نہ کی اور ہمارے ہاں رواج ہے کہ جس بات کی وضاحت یا تردید نہ کی جائے وہ سچ کی کسوٹی پر پورا اترتی ہے!؟ ہماری تو گھٹی میں یہ ڈالا گیا کہ پاکستان کے 92000 فوجیوں نے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ آج پتہ چلا کہ وہ محض 34 ہزار تھے۔ اتنا بڑا سچ کیوں چھپایا گیا؟ وزیر خارجہ بلاول زرداری اکثر جلسوں میں کی گئی تقاریر میں اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے 92000 فوجیوں کی رہائی اور بھارت کے زیر قبضہ ہزاروں مربع میل کی پاکستانی سرزمین کو واگزار کرانے کے کارنامے کو لہک لہک کر سناتے تھے؟ آج جنرل باجوہ نے ان کا یہ بیانیہ انہی کے منہ پر مل دیا۔ ان کے اس دعویٰ کی تردید تو چھوڑیں سیاستدان وضاحت دینے سے بھی قاصر ہیں؟ کیا ان کے نانا واقعی پاکستان توڑنے کے عمل میں حصہ دار تھے؟ تاریخ بتاتی ہے کہ شیخ مجیب الرحمن نے 160 نشستیں جیتیں اور بھٹو نے صرف 80 لیکن اس وقت کے فوجی آمر یحییٰ خان نے مغربی پاکستان کے سیاستدانوں کو کہا تھا کہ جو بھی مشرقی پاکستان گیا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ جب عوام کی رائے کو پامال کرنے کی اجازت دی گئی تو اس وقت کے محافظ یحییٰ خان کیوں محض دیکھتے رہے معاملہ فہمی سے کام کیوں نہ لیا؟ کیا انہیں ادراک نہ تھا کہ عوام کی رائے کو رد کرنے سے ملک دو ٹکڑے ہونے جا رہا ہے؟
جو ہو گیا اس کی واپسی نہیں ہو سکتی لیکن ماضی بھلا کر اب ہمیں آگے دیکھنا ہو گا کہ پاکستان کی بقا اسی میں ہے کہ ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرے۔
اس کالم بارے اپنی رائے اس وٹس ایپ نمبر 0300-4741474 پر دیجیے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.