جنرل سید عاصم منیر، ہماری پاک فوج کا روشن ستارہ

39

جنرل سید عاصم منیر عالم اسلام کی سب سے بڑی اور اعلیٰ ترین فوج کی کمانڈ سنبھال چکے ہیں پاک فوج عالم اسلام کی نہ صرف تعداد کے لحاظ سے سب سے بڑی فوج ہے بلکہ اپنی صلاحیتوں کے حوالے سے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باعث اعلیٰ ترین بھی ہے۔ اپنی ہر دلعزیزی کے اعتبار سے ہماری مسلح افواج نہ صرف اقوام عالم میں بلکہ عالم عرب میں بالعموم اور حرمین شریفین کی خدمت سپاہ گری کے حوالے سے بھی منفرد مقام رکھتی ہیں۔ مسلمان ممالک پاکستان کی حربی اور ضربی طاقت سے قوت پاتے ہیں۔ ہماری فوج اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی کے حوالے سے بھی منفرد مقام رکھتی ہیں۔
فوج کا سیاست میں عمل دخل ایک ایسا ایکٹ ہے جس کے حوالے سے فوج اور عوام کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے قیام پاکستان سے لے کر ہنوز فوج کی سیاسی و مملکتی امور میں بالواسطہ یا بلاواسطہ مداخلت کی کسی طور بھی حمایت نہیں کی جا سکتی ہے۔ جنرل ایوب خان کا مارشل لا ہو یا جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی فوج کشی، ان کے جتنے مرضی محاسن گنوائے جائیں لیکن پھر بھی مارشل لا کی حمایت نہیں کی جا سکتی ہے۔ جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کے دور میں تو ملک دولخت ہو گیا تھا۔ اس بارے میں اب دو رائے ہرگز نہیں پائی جاتی کہ ہمارے بہت سے قومی مسائل کی وجہ سیاست میں فوجی مداخلت ہے جس کی کسی طور بھی حمایت نہیں کی جا سکتی ہے۔
کہا جاتا رہا ہے کہ سیاست دان یا تو حالات ایسے پیدا کر دیتے ہیں کہ ملکی و قومی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں اور نتیجتاً فوج کو وسیع تر قومی مفاد میں مداخلت کرنا پڑتی ہے اور اس طرح ملک میں مارشل لا لگانا پڑتا ہے لیکن اب یہ بات بھی پایہ تصدیق کو پہنچ چکی ہے کہ ایجنسیاں خود ہی ایسے حالات پیدا کرتی ہیں جن کے نتیجے میں فوجی مداخلت کا جواز پیدا ہو جاتا ہے۔ فوج سیاستدانوں میں اپنے حواری اور مداری پیدا کرتی ہے اور پھر انہیں بوقت ضرورت مطلوبہ نتائج کے حصول کے لئے استعمال کر کے میدانِ سیاست میں کود پڑتی ہے۔ گزرے 7/6 سال کی سیاسی تاریخ اس بات پر
دلالت کرتی ہے کہ 2017 میں فوج نے عمران خان و ہمنواؤں کو شریفوں کو اقتدار سے نکالنے کے لئے استعمال کیا۔ اس کھیل میں فوج کے ہمنوا اور دوست سیاستدان حسب موقع استعمال ہوئے پھر اپریل 2022 میں عمران خان کو سبق سکھانے کے لئے ایسا ہی کھیل دوبارہ کھیلا گیا۔ ایسا کھیل 1956 سے شروع ہے کرداروں کی تبدیلی کے ساتھ ایسا کھیل جاری رہا ہے جس سے ہماری فوج کی توقیر میں بھی کمی واقع ہوئی ہے اور ہماری قومی تعمیروترقی بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
فوجی مداخلت کے لئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیاستدان خود فوج کو مداخلت کی دعوت دیتے ہیں فوج کو اکساتے ہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ میدانِ سیاست میں ریفری کے طور پر آئے یہ بات بادیئ النظرمیں درست نظر آتی ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے سیاستدان کون تھے اور کون ہوتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جو سیاستدان فوج نے خود ایسے ہی موقع کے لئے تیار کئے ہوتے ہیں وہی فوج کو دعوت دیتے ہیں۔ ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ واقعتا سیاستدان فوج کو دعوت دیتے رہے ہیں اور ایسے سیاستدان فوج کے ہی تیار کردہ ہوتے ہیں۔
نوازشریف کی اقتدار سے رخصتی کے بعد ”مجھے کیوں نکالا“ کے بیانیے میں فوج پر انگشت نمائی کی گئی۔ جرنیلوں کا نام لے کر ان پر تنقید کی گئی پھر جب عمران خان کو 2022 میں رخصت کیا گیا تو ایسی ہی انگشت نمائی بلند آہنگ میں کی جانے لگی۔ فوج کی ساکھ پر سوالیہ نشان اٹھنا شروع ہو گئے۔ ایسے میں فوج نے غیرسیاسی ہونے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کئی ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جو ایک خوشگوار اور امید افزا مستقبل کی طرف اشارہ کرتے ہیں فوج کا بطور ادارہ سیاست سے باز رہنے کا فیصلہ یقینا تاریخی ہے فوج کو اپنی غلطیوں کا نہ صرف احساس ہو گیا ہے بلکہ انہوں نے کئی غلطیوں کا برملا اظہار بھی کیا ہے ایسے پہلے کبھی نہیں ہوا ہے۔ پھر ایسی تحریک کے بانی جنرل کا فوج کا سپہ سالار بننا بھی تاریخی ہے۔
جنرل عاصم منیر پاک فوج کا جگمگاتا اور روشن چہرہ ہیں کہا جاتا ہے کہ فوج کی سیاست میں عدم مداخلت کی تحریک انہی کے ذہن کی اختراع ہے جسے فوج کی اعلیٰ قیادت نے دل و جان سے اپنانے کا فیصلہ کر کے قوم کے دل جیت لئے ہیں۔ پھر فوج کی طرف سے بھجوائے گئے سالارِ اعلیٰ کے لئے ناموں میں ترتیب کے اعتبار سے نمبر ون جنرل کا سیاسی قیادت کی طرف سے سالارِ اعلیٰ مقرر کرنا بھی نیک شگون ہے۔
گویا تاریخ میں پہلی بار ایک حقیقی میرٹ پر مقرر کردہ جرنیل فوج کا سالارِ اعلیٰ مقرر کیا گیا ہے۔ یہ جرنیل نہ صرف اپنے محکمانہ میرٹ پر پورا اترتا ہے بلکہ قوم نے بھی اسے اعلیٰ قرار دے دیا ہے۔ جنرل عاصم منیر کا حسینی سید ہونا اور پھر قرآن کا حافظ ہونا بھی ایسے بڑے میرٹ ہیں جن کی قوم دل کھول کر تعریف و توصیف کر رہی ہے۔ تمام مثبت اشارات کا بیک وقت اور ایک فرد میں جمع ہو جانا یقینا پاکستان کے مستقبل کے لئے نویدِ امید افزا ہے جس کا قوم استقبال کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اس نئے سفر کو ہمارے لئے بخت آور بنائے۔ آمین۔ یا رب العالمین۔

تبصرے بند ہیں.